• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میرا خیال ہے حامد میر کو لاپتہ افراد کے حق میں آواز اُٹھانے کی سزا دی گئی ہے،دیکھا نہیں اس نے ماما قدیر کے لانگ مارچ کو کتنی اہمیت دے رکھی تھی۔نہیں نہیں،یہ سبب بکواس ہے یار۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے طالبان کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا تھا،اب چونکہ جنگ بندی بھی ختم ہوچکی لہٰذا یہ حملہ تحریک طالبان کی طرف سے کیا گیا ہے۔تم بھی بالکل احمق ہو،طالبان بھلا کیوں حملہ کریں گے۔اندر کی خبر یہ ہے کہ پرویز مشرف نے کراچی جانا تھا اورسارے میڈیا نے ان پر نظر رکھی ہوئی تھی،یہ حملہ میڈیا کی توجہ منقسم کرنے کیلئے کیا گیا ہے تاکہ پرویز مشرف کا ذکر کچھ دیر کے لئے محو ہو جائے اور تمہیں تو پتہ ہے ناں کراچی میں کونسی جماعت ہے جو پرویز مشرف کی اتحادی ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا، حامد میر پر حملہ ان’’ اصل طالبان‘‘کے ذریعے کرایا گیا ہے۔اس سے ملتی جلتی ایک تھیوری یہ پیش کی جا رہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے۔اس دوران کوئی صاحب دور کی کوڑی لاتے ہیں اور فرماتے ہیں،یہ حملہ حامد میر نے ازخود کرایا ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔ ہمیں تو گاڑی پرکہیں خون کے دھبے نظر نہیں آئے ،ایسا لگتا ہے جیسے یہ بھی کوئی ملالہ جیسی فلم بنائی جا رہی ہے۔ایک اور نظریہ یہ بیچا جا رہا ہےکہ اگر کسی حساس ادارے کی طرف سے ٹارگٹ کیا گیا ہوتا تو پھر نشانہ نہ چوکتا باالفاظ دیگر یہاں بڑوں بڑوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو گئی تو ایک معمولی اینکر کس کھیت کی مولی ہے۔ یہ ہیں وہ چہ مگوئیاں جو اس وقت سوشل میڈیا پر ہو رہی ہیں۔ ہمارے ساتھی حامد میر کا گھائل ہو جانا یقیناً افسوسناک ہے مگر ان بیہودہ و فرسودہ باتوں کے زخم قاتلوں کے دیئے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں۔کسی قوم کے انتشار و افتراق کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ ہر واقعہ پر سازشی تھیوریوں کی بھرمار ہو جائے اور اس سانحہ پر متحد و متفق ہونے کے بجائے تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جائے۔ کسی بھی کالم نگار یا اینکر سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’حب الوطنی‘‘ کے ٹھیکیدار اس پر غداری کا لیبل چسپاں کرتے ہوئے اسے گردن زدنی قرار دے دیں۔ گولیوں سے محبت بونے کی اس روش کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ ملک جہاں ٹرکوں ،بسوں اور رکشوں کے پیچھے پاک فوج زندہ باد کے جملے لکھے نظر آتے تھے ،آج وہاں ایک صحافی پر قاتلانہ حملے کے بعد اسے پاک فوج کے خفیہ ادارے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں صحافی دہری آزمائش کا شکار ہیں۔اگر حساس اداروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کریں تو دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے بچ جائیں تو ریاست کی اندھی گولی یا تعزیروں کی زد میں آ کر مارے جاتے ہیں۔ولی بابر ایک لسانی گروہ کے غیض و غصب کا شکار ہو گئے،سلیم شہزاد ’’حب الوطنی کے ٹھیکیداروں‘‘ کے ہاتھوں مارے گئے، جنوبی وزیرستان کے صحافی حیات اللہ اور ان کی اہلیہ شدت پسندوں کے قائم کردہ نو گو ایریا میں داخل ہونے کی پاداش میں قتل کر دیئے گئے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کم از کم 20صحافی حق گوئی کی پاداش میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔رضا رومی اور حامد میر جیسے صحافی تو ان گنت ہیں جن پر جان لیوا حملے تو ہوئے مگر بچانے والی ذات نے قاتلوں کے ارادے ناکام بنا دیئے۔ان میں سے کسی واردات میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
میں اپنے ہم عصر صحافیوں کو سہمے ہوئے چوزوں کی طرح ڈربے میں بند اپنی باری کا منتظر دیکھتا ہوں تو دل سے اِک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ دنیا بھر کے معاملات پر اپنی ماہرانہ رائے دینے والوں کو اتنی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟ کیا انہوں نے کسی ٹی وی ڈاکومنٹری میں بھیڑوں کا غول نہیں دیکھا؟ کوئی خوں آشام درندہ ان کی تاک میں نکلتا ہے تو کیا کرتا ہے؟کوئی شیر ،کوئی چیتا،کوئی بھیڑیا،کوئی اژدھا ان میں سے کسی ایک بھیڑ کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے تو کیا ترکیب بروئے کار لاتا ہے؟وہ نہایت چالاکی اور مکاری سے ایک بھیڑ کو ریوڑ سے جدا کرتا ہے اور اسے چیر پھاڑ دیتا ہے۔سہمی ہوئی بھیڑوں کا ریوڑ اگر ایک ساتھ پلٹ کر حملہ آور ہو جائے تو سب خون آشام درندے دُم دبا کر بھاگ جائیں مگر وہ پگلی بھیڑیں اپنی جان بچا کر بھاگ نکلتی ہیں اور درندے ایک ایک کر کے سب کو شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ہم بھی ایک ایسے ہی جنگل میں جی رہے ہیں جہاں انواع و اقسام کے درندے ہماری جانوں کے درپے ہیں۔اپنے اپنے شہداء کا علم اُٹھانے والے ہمارے میڈیا گروپ جب تک لاپتہ یا نامعلوم افراد کی اصطلاح سے چھٹکارا حاصل نہیں کریں گے اور نجی چینل کی تفریق ختم نہیں کی جائے گی،تب تک ان بھیڑوں کی طرح نشانہ بنتے رہیں گے۔ حالات کے جبر کے تحت ایک ہو جانے اور اپنی جان کے خوف سے مل کر جھپٹ پڑنے کی جبلت تو بسا اوقات ان جانوروں میں بھی بیدار ہو جاتی ہے۔ کیا کبھی وارثان قلم و قرطاس بھی اپنے قاتلوں کے خلاف متحد ہو پائیں گے؟؟ اگر بھیڑوں کے غول اور شکاری درندوں کی مثال سمجھ نہیں آئی تو ایک اور تمثیل پیش کرتا ہوں ۔میڈیا سے وابستہ افراد نے پاسٹرمارٹن نیمو کے مشہور زمانہ جملے تو سنے ہوں گے۔ہٹلر کے دور میں حق گوئی کا استعارہ بن جانے والا مارٹن نیمو کہتا ہے ’’پہلے وہ سوشلسٹوں کے درپے ہوئے،میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا پھر ٹریڈ یونین والوں کی باری آئی تو میں چُپ رہا کیونکہ میرا ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہ تھا پھر یہودیوں پر برا وقت آیا تو میں حسب روایت ٹس سے مس نہ ہوا کہ میں تو عیسائی تھا پھر وہ کیتھولکس کو مارنے لگے میں تب بھی بغلیں بجاتا رہا کہ میں تو پروٹسٹنٹ تھا پھر ایک دن میرے باری آ گئی اور اس وقت تک میرے حق میں بولنے کے لئے کوئی زندہ بچا ہی نہ تھا۔ہر میڈیا گروپ سے وابستہ جرنلسٹ پاسٹر نیمو کے ان جملوں میں ردو بدل کر کے اپنے اپنے ادارے کا نام شامل کر سکتے ہیں باقی رہ گئے ریڈر اور ویور،تو انہیں بھی یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میڈیا کی آزادی چھن گئی تو پھر ان کی باری آئے گی اور تب تک ان کے حق میں بولنے والا کوئی زندہ نہیں بچا ہو گا۔جب تک قلم بردار بندوق برداروں کے خلاف متحد نہیں ہوں گے، بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ایک ایک کر کے خوں آشام درندوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
تازہ ترین