• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے اور نئی عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاک بنگلہ دیش تعلفات کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ دوریاں ایک بار پھر قرابتوں میں تبدیل ہوئی ہیں اور اب دونوں برادر ممالک کے درمیان تجارت کا بھی آغاز ہو گیا ہے جو حسینہ واجد کے دور میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بنگلہ دیش نے کئی عشروں کے بعد پاکستان سے پچیس ہزار ٹن چینی خریدی ہے جو آئندہ ماہ کراچی پورٹ سے چٹاگانگ پورٹ پہنچ جائے گی۔ بنگلہ دیش اس سے پہلے بھارت سے چینی درآمد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ڈرامائی طور پر 54سال بعد سمندری راستے سے تجارت بحال ہوئی تھی۔ پاکستان کا مال بردار بحری جہاز بنگلہ دیش کی جنوب مشرقی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات مالی سال 2024ءمیں 660.74ملین ڈالر اور بنگلہ دیش سے درآمدات 56.55ملین ڈالر رہیں۔ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں گرم جوشی اور نئی پیشرفت اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کا بھی نتیجہ ہے جس میں دونوں رہنمائوں نے تجارتی رابطے بحال کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ آنے والے دنوں میں دفاعی پیداوار اور دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر بھی دستخط ہوں گے۔ پاکستان نے امسال چھ لاکھ ٹن چینی کے سودے کئے ہیں جن میں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ستر ہزار ٹن کے سودے شامل ہیں۔ تھائی لینڈ نے پچاس ہزار ٹن چینی شوگر انڈسٹری سے خریدی ہے۔ خلیجی ریاستوں ، عرب ممالک اور افریقی ممالک نے بھی خریداری کے معاہدے کئے ہیں۔ چینی کی برآمد سے پاکستان کو چالیس سے پچاس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی کاوشوں سے شوگر انڈسٹری وہ چینی بھی کامیابی سے ایکسپورٹ کر رہی ہے جو اس سے پہلے افغانستان اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں میں اسمگلر لے جا کر فروخت کرتے تھے۔

تازہ ترین