پی ٹی آئی خود کو سیاسی جمہوری پارٹی اور اپنے بانی کو سیاستدان یا جمہوری لیڈر قرار دیتی ہے لیکن اگر حقائق کی کسوٹی پر انکے اس دعوے کو پرکھا جائے یا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایسا شدید رد عمل آتا ہے کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میں نے بھڑوں کے کس چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ ابھی اپنے پچھلے کالم '’’احتجاجی کال کا ایسا انجام کیوں؟‘‘میں بڑی مہذب زبان میں انکی کچھ بے اعتدالیوں پر اظہار خیال کیا تو اس پارٹی سے منسلک نوجوانوں نے ایسی سنائیں کہ جس کی توقع کسی سیاسی پارٹی کے ورکر سے نہیں کی جاسکتی۔
26 نومبر کی رات ہونے والی مبینہ شہادتوں پر تضاد بیانی قابل ملاحظہ ہے اور ہمارے قومی میڈیا میں اس کی دھوم ہے۔ایک معمر بیرسٹر نے میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ’’ 26نومبر کی رات جب طاقتوروں نے احتجاجیوں کو ڈی چوک سے نکالا تو ہماری 278 شہادتیں ہو گئیں‘‘ لیکن دوسرے بیرسٹر نے چند روز بعد وضاحت فرما دی کہ’’ میں غلط بیانی نہیں کروں گا ہمارے احتجاجیوں کو مار بھگانے کی کارروائی میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک درجن شہادتیں ہوئی ہیں۔‘‘
اس وضاحتی بیان کے بعد بھی درجنوں، بیسیوں اور سینکڑوں کی گردانیں ان کی اپنی صفوں میں جاری ہیں بالکل ایسے ہی جیسے یہ رٹا ہنوز جاری ہے کہ بانی کا حکم تھا سنگ جانی میں دھرنا دینا ہے جبکہ بشریٰ بی بی اپنی من مانی کرتے ہوئے مظاہرین سے ڈی چوک پہنچنے اور وہاں سے کسی صورت نہ اٹھنے پر حلف لے رہی تھیں اور پھر اپنے جوشیلے کارکنان کو بحرظلمات میں بے یار و مددگار پھینکنے کے بعد اسی شتابی میں واپسی کی راہ لی، اس کے بعد سابق کھلاڑی تو اپنے سیاسی وزڈم کی بلندیوں پر فائز ہونے کے پروپیگنڈے کی برکت سے بری ہوگیا اور سارا ملبہ بیچاری بشریٰ بی بی پر ڈال دیا گیا ۔ یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے ،بشریٰ بی بی نے ایک پرعزم مذہبی خاتون اور وفاشعار مشرقی بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر نامدار کے ساتھ محض وفا نبھائی، ان کاجیل میں بیٹھا خاوند اپنے احتجاجی قافلے کو جہاں پہنچانا چاہتا تھا بشریٰ بی بی نے اسے وہیں پہنچایا، اس پر انہیں ہمت دکھانے کی داد دینابنتی ہے البتہ جس شتابی سے انہوں نے پلٹا کھایا اور جس ہڑبڑاہٹ میں وہ واپس پدھاریں، اس سے ان کی بہادری کی قلعی کھل گئی۔اب ہم اصل بات پر آتے ہیں کہ ہمارے سابق کھلاڑی ہیرو کی اس آخری کال کا مدعا آخر کیا تھا؟ کیا وہ اسلام آباد پہنچ کر محض ایک احتجاجی جلسہ کرنا چاہتے تھے یا طویل دھرنا دینا مقصد تھا اور پھر اس دھرنے میں حقیقی ٹارگٹ کیا تھا؟ وہ اس آخری کال کے ذریعےاچیو کیا کرنا چاہتے تھے؟ اس سلسلے میں ان کے بیانات یا ارادے قطعی ڈھکے چھپے نہ تھے، انہوں نے ڈھاکہ میں طلبہ احتجاج کی تحسین کرتے ہوئے جس طرح اس کامیابی کو بطور مثال پیش کیا تھا ،ان کا مدعا شائد انہی لائینوں پر دھرنا دیتے ہوئے یہ تھا کہ چند دنوں میں بتدریج اتنی زیادہ عوامی شمولیت ہوجائے گی کہ کسی رات دھاوا بولتے ہوئے انتہائی قرب میں واقعہ پارلیمنٹ اور پرائم منسٹر ہاؤس پر قابض ہو جائینگےجس سے پورا نظام حکومت مفلوج و جام ہوکر رہ جائے گا، دوسرے لفظوں میں عمرانی انقلاب کا سورج طلوع ہوگا،یہ خطرناک منصوبہ کس درجہ قابل عمل تھا؟ جذبہ جنوں کو اس سے کیا غرض؟ ایسی جنونی ذہنیتیں نتائج کی پرواکیے بغیر’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘جیسے ترانے پڑھتے آگے بڑھتی ہیں۔’’شعور و جنوں‘‘کی یہی وہ کشمکش یا ٹسل ہے جو یہ درویش ہمیشہ اپنے لوگوں پر واضح کرتا رہتا ہے کہ حضور آپ صدیوں پہلے کی افسانوی و رومانوی تاریخ میں جینا چھوڑ دیں تب اس نوع کا جنوں کام آ بھی جاتا ہوگا مگر آج کےوزڈم و شعور کی دنیا قطعی مختلف ہے۔ آج آپ کا استدلال ہے کہ 12 شہادتیں ہوئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بھی نہیں ہوئی خدا کا شکر کریں جو ہوا ہے بہتر ہوا ہے بصورت دیگر اگر 126دن والے سابقہ دھرنے کی تاریخدہرائی جاتی تو کسی بھی جنونی دھاوے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونیوالی ہلاکتیں شمار کرنا مشکل ہو جاتا ۔ یہاں اس فرق کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جو دھرناکسی انگلی کے اشارے پر ہوتا ہے اور جو محض کھوکھلی جنونیت کے ایجنڈے پرہوتا ہے، دونوں مختلف ہوتے ہیں، پہلی صورت میں 126 دن طوفان اٹھائے رکھا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں ایک 126منٹ بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
کھلاڑی اپنا ٹریک بدلے یہ مان لے کہ اس کے پاس اتنی عوامی طاقت نہیں ،جو انقلاب برپا کر کے اسے راج سنگھاسن پر بٹھا سکے۔ ایسی صورت میں جنگی چالوں سے نہیں صرف اور صرف سیاسی چالوں سے ہی مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔