• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10 دسمبر پوری دنیا میں ’’یونیورسل ہیومن رائٹس ڈے‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے اور نوبل پرائز ونرز کا اعلان بھی اسی روز ہوتا ہے کیونکہ اس روز 30 آرٹیکلز پر مشتمل یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر یا ڈکلیئریشن کی منظوری دی گئی تھی 1945ءمیں دوسری بدترین و ہولناک عالمی جنگ کے اختتام پر لیگ آف نیشن کی جگہ جہاں 24اکتوبر کو امریکی قیادت میں یواین کی بنیاد رکھی گئی وہیں اس کے ضوابط طے کرتے ہوئے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر یا دستور و منشور پر کام کا آغاز کر دیا گیا اس مقصد کے تحت ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اس وقت کی تقریبا تمام عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، سوویت یونین، چائنہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے علاوہ لبنان سے ایک ایک نمائندہ لیا گیا اس کمیٹی کی سربراہی سابق امریکی صدر روزویلٹ کی شریک حیات ایلینور روزویلٹ نے کی ۔کمیٹی نے اپنا پہلا مسودہ ستمبر 1948کو بمقام جنیوا پیش کیا جس کی منظوری 10دسمبر 1948کو پیرس میں دی گئی تب کے 58ممالک میں سے 48نے اسکی حمایت میں ووٹ دیا، مخالفت کسی نے نہیں کی ۔

یواین یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر کے متعلق ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اب تک کی انسانی آگہی شعوری ترقی و سربلندی اور انسانی عظمت کی مظہر دستاویز ہے جس کی فکری بنیادیں قدیم یونانی تہذیب کے معماران و فلاسفرز کی شعوری بیداری و عرق ریزی میں ہی نہیں رومن تہذیب سے ہوتے ہوئے ماڈرن دورکے عظیم الشان فلاسفرز جان لاک، روسو، کانٹ اور رسل جیسے داناؤں کے انسان نواز فکری نکھار میں ہیں۔ اس کی اٹھان 15جون 1215ء کے برطانوی میگنا کارٹا میں ہے بلکہ اس سے بھی پہلے 1037ء میں جب برٹش کنگ نے پارلیمنٹ کی اتھارٹی مانتے ہوئےاس کے اختیارات پر سر تسلیم خم کر دیا تھا اس کے بعد ہی 1188ء میں حبیس کارپس کا اصول مانا گیا اور پھر 1679ء میں پارلیمنٹ نے "بل آف رائٹس" منظور کرتے ہوئے کنگڈم پر بندشیں لگائیں، اس کا کریڈٹ انقلاب فرانس کیساتھ ساتھ امریکی آئین کے معماران کو بھی جاتا ہے۔درویش یہ کہہ سکتا ہے کہ آج کی ڈیموکریٹ لبرل سیکولر مہذب دنیا کا ایمان اگر "ہیومینٹی" ہے اور اس کا ٹارگٹ عالمی امن، انسانی بہبود اور تعمیر و ترقی کے ذریعے عالمگیر ہیومن سوسائٹی یا برادری کا قیام ہے تو یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر اس کی مقدس ترین دستاویز ہے جس کا نفاذ اور پھیلاؤ جس طرح یو این کی ممبر تمام ریاستوں کا اولین فریضہ ہے۔

اس کرۂ ارضی کی یہ واحد دستاویز ہے یواین کے تحت جسکے 500 زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں اور ممبر ریاستوں کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ اسے اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بناتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کا بھرپور پھیلاؤ کریں ہر اہم مقام پر اس کی اشاعت کی جائے۔ یونیورسل چارٹر کی پہلی شق میں یہ کہا گیا کہ تمام انسان، حقوق اور عزت کے اعتبار سے برابر اور آزاد پیدا ہوئے ہیں انہیں ضمیر اور عقل عطا کیے گئے ہیں تاکہ وہ باہم برادرہڈ قائم کریں۔ہر شخص ان تمام حقوق اور آزادیوں کا حقدار ہے جو اس ڈکلیئریشن میں بیان کی گئی ہیں بلا امتیاز رنگ، نسل، جنس، مذہب، زبان، سیاسی نظریہ، دولت یا خاندانی حیثیت، اس سے آگے بہت سی شقیں ایسی ہیں جو ہمارے روایتی سماج اور ہمارے مروجہ آئین سے ٹکراتی ہیں ہمارے میڈیا اور ہمارے سماج میں آخر اس امر کی اجازت کیوں نہیں ہے کہ ہم ان تمام شقوں پر کھلے بندوں مباحثہ کر سکیں جبکہ دوسری طرف ہم نے پوری عالمی برادری کے سامنے اس عہد نامے پر دستخط کر رکھے ہیں کہ بحیثیت قوم و ریاست ہم اس ڈکلیئریشن پر عمل درآمد کے پابند رہیں گے۔ آج پوری دنیا کے دساتیر میں ہیومن رائٹس کا چیپٹر انہی آدرشوں کی پاسداری کا مظہر ہے حتیٰ کہ ریاستی طور پر یہ طے ہے کہ بالفرض اگر آئین معطل بھی ہو جائے مارشل لا یا ایمرجنسی بھی لاگو ہو جائے پھر بھی بنیادی انسانی حقوق کی یہ شقیں لاگو رہیں گی اور سپریم جوڈیشری ان کی نگہبانی یا پہرےداری کرے گی۔ بلاشبہ ہر قوم کی کچھ اپنی مذہبی و تہذیبی روایات، عقائد و ضوابط یا ترجیحات ہوتی ہیں لیکن یو این کے عالمی عہد نامے پر دستخط کرنے کے بعد ہم پابند ہیں کہ اپنے ضوابط کو عالمی چارٹر کی شقوں کے مطابق ڈھالیں نہ کہ ان کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈااپنی قوم میں پھیلائیں ہماری طرح انڈیا میں بھی بھاری میجارٹی کا ایک مذہب یا عقیدہ صدیوں بلکہ کئی ہزار برسوں سے موجود تھا اور موجود ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی آئین سازوں نے ان مقدس عقائد کی پروا کیے بغیر جو انڈین آئین تخلیق کیا اس میں یو این ہیومن رائٹس چارٹر کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے کوئی ایک شق بھی ایسی نہیں رکھی جو اس سے ٹکراتی ہو۔ اس کی برکت سے ان کے سماج میں کئی طوفانوں کے باوجود ایک نوع کا استحکام ہے وہاں ہماری طرح بندوق بردار ریاست پر چڑھ نہیں دوڑتے اور کبھی مارشل لا نہیں لگا آخر ہمارے آئین سازوں نے اس نوع کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟

تازہ ترین