• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن کی ساری حیاتی’’ کر بھلا، ہو بھلا‘‘ کی عملی تفسیر تھی
جن کی ساری حیاتی’’ کر بھلا، ہو بھلا‘‘ کی عملی تفسیر تھی

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے والد، سیّد سردار حسین نقوی ابنِ سیّد ارشاد حسین نقوی1937ء میں محلّہ سادات، قصبہ اورنگ آباد، ضلع بلند شہر، یوپی، بھارت میں پیدا ہوئے اور 1953ء میں ہجرت کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ دوست احباب اور خاندان بھر میں ’’نقوی صاحب‘‘کے نام سے معروف میرے والد انتہائی مہربان، مخلص، ہم درد، محبت و خلوص کا پیکر، بذلہ سنج اور خوددار انسان تھے۔ گریجویشن کے بعد ڈپلوما آف لائبریری سائنس کرکے نیشنل گورنمنٹ کالج میں مہتممِ کتب خانہ( لائبریرین )مقرر ہوئے۔ 

بعدازاں اُن کی ملازمت پاکستان انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ کارپوریشن (پکک) میں ہوگئی، جہاں34سال انتہائی محنت اور دیانت داری کے ساتھ کام کیا۔ وہ ایک ہر دل عزیز شخصیت تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں زندگی کی بہت سی نعمتوں نوازا تھا۔ 1966ء میں ماموں زاد بہن سے شادی ہوئی اور اللہ نے اُنھیں دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ میرے والد انپے والدین کے بھی بہت فرماں بردار اور خدمت گزار تھے۔ کبھی کسی کو مشکل یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے، خود آگے بڑھ کر مدد کرنا اُن کا شیوہ رہا۔

1997ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد حجِ بیت اللہ اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں، ایران، عراق اور شام کے مقدّس مقامات کی زیارت کا بھی شرف حاصل کیا۔ اُن کی ساری زندگی ’’کر بھلا ،ہو بھلا ‘‘کی عملی تفسیر رہی۔ حتی الامکان اوّل وقت پر نماز پڑھنا، عمر بَھر کا وتیرہ رہا۔ 

سوائے نماز کے اُنھیں کسی اورچیز کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ رمضان المبارک کے روزے بھی بہت اہتمام اور پابندی سے رکھتے۔ زندگی بھر ہمیں خیر و بھلائی کے کاموں میں حتی المقدور حصّہ لینے کی تاکید کرتے رہے۔ ایک شاعر، ادیب، دانش ور اور مصلح کی حیثیت سے معاشرے کو سنوارنے ، بلکہ اپنی شعوری کوششوں سے معاشرے میں انسانی اور دِینی قدروں کو پروان چڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت میں بھی اُن کا اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ برابر کا حصہ رہا اوریہ جوڑا خاندان کا مثالی جوڑا کہلاتا تھا۔ 

الحمدللہ، آج اُن کی اولاد زندگی کے مختلف شعبوں میں اُن کی نیک نامی کا سبب ہے اور اُن کے یہ اشعار ہمیں ہمیشہ اُن کی یادوں کی خوشبو سے معطّر رکھیں گے؎ ’’کوئی کیا جانے حقیقت میں کہ کیا ہے کربلا.....خُلد میں جانے کا سیدھا راستہ ہے کربلا.....یہ بھی تو اعجاز ہے ذکرِ شہیدِ پاکؓ کا.....ہُوں غلامِ شاہِ دیںؓ میری بقا ہے کربلا‘‘ وہ اُستاد قمر جلالوی کا کلام اُنھی کی طرز میں اِس طرح پڑھتے تھے کہ مجالس و محافل میں گویا سماں بندھ جاتا۔

ان کے باقاعدگی سے پیدل چلنے کی عادت آخری عمر تک برقرار رہی اور تقریباً 89برس کی عمر میں بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد ہفتہ12اکتوبر2024ء کو نمازِ ظہر سے قبل مختصر علالت کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ رحمٰن و رحیم اُنھیں ہمیشہ اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) (سیّد ذوالفقار حسین نقویؔ، علی ہائٹس ،نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی)