مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
’’ماں‘‘ زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینارہے، تو ’’باپ‘‘ زمانے کے سردو گرم سے بچانے والا مضبوط سہارا اور سائبان۔ ماں کے بعد باپ ہی وہ ہستی ہے، جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر پریشان اور بے چین ہوجاتی ہے۔ بظاہر رعب اور دبدبے والی اس ہستی کے پیچھے ایک شفیق اور مہربان چہرہ ہوتا ہے، جسے ماں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا، لیکن اولاد کے سُکھ چین، خوش حالی، تعلیم و صحت اور روشن مستقبل کی خاطر پوری زندگی دن، رات ایک کرتا رہتا ہے۔
میرے بابا، ریاض الحق نے بھی ہمارے بہتر مستقبل اور سُکھ چین کی خاطر اپنی ہستی فنا کرلی ہے۔ عموماً اولاد کی تربیت میں ماؤں کا کردار زیادہ ہوتا ہے، لیکن میری تربیت میں میرے باباکا نمایاں ہاتھ ہے۔ انہوں نے مجھے اللہ تعالیٰ سے تعلق، محنت کی عظمت کے ساتھ معاشرتی قوانین تک سکھائے۔
وہ خود بھی ایک محنتی انسان ہیں۔ مجھے یاد ہے، ایک بارکہیں سے تھکے ماندے گھر آئے، تواس وقت شدید گرمی پڑ رہی تھی، جس کی شدّت سے وہ بے حال تھے۔ گھر میں قدم رکھتے ہی مجھ پر نظر پڑی، تو کہنے لگے۔’’آج احساس ہوا کہ انسان چاہے گرمی کی شدّت سے کتناہی بے حال کیوں نہ ہو، بیٹی سامنے آجائے، تو رُوح تک ٹھنڈک اُترجاتی ہے۔‘‘
بابا اپنی پسند کی تمام تر چیزیں اپنی اولاد پر قربان کردیتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت غریب اور دنیا کے امیر ترین انسان ہیں۔ مَیں اُن کا حوصلہ، جرأت، ایمان داری، صبر، توکّل اور محبّت دیکھتی ہوں، تو سوچتی ہوں کہ کیا مَیں بھی کبھی زندگی میں اِن جیسی ہوسکوں گی؟
اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب ہم کوئی سخت محنت مشقّت کا کام کرتے ہیں، تو مزاج میں چڑچڑاپن آجاتا ہے، لیکن میرے بابا سخت ترین محنت، مشقّت کے باوجود سرتاپا محبت و شفقت ہیں۔ بابا کے پڑھانے اور سِکھانے کا انداز بھی بہت دل کش ہے، جو بات ایک بار سمجھا دیتے ہیں، ہمیشہ کے لیے ازبر ہوجاتی ہے۔
مختصر یہ کہ میرے بابا میرے ’’سُپر ہیرو‘‘ہیں، جو اپنی اولاد کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ ہمارے سَروں پر ہمیشہ سلامت رکھے۔ (آمین) (منتہیٰ ریاض، حفیظ پارک، گوجرہ)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭گھروندا کیسے ٹوٹا، شجرِ نازک (صبا احمد)٭حج کی سعادت (راشدہ فصیح، فیڈرل بی ایریا، کراچی)٭موت کا دن (خواجہ محمد ارشدہجیرہ، پونچھ، آزاد کشمیر)٭ قدرت کا انتقام (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)٭ ایک ورکنگ وومن کی کہانی (سعید اقبال، کراچی)٭ سرخالد زندہ ہیں (لجپت رائے متلانی)٭انوکھی واردات (شکیلہ ملک، اسلام آباد)٭اور مَیں نےٹکڑے ٹکڑے کردیئے (جمیل احمد اعوان ، ملتان روڈ، لاہور)٭بادشاہ سلامت سے ملاقات (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، باغ بان پورہ، لاہور)۔
برائے صفحہ’’ متفرق‘‘
٭مَیں جنگ کیوں پڑھتا ہوں (پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین، کراچی)۔٭ قائدِ اعظم ریذیڈینسی، زیارت+میرا شہر، سوہدرہ، ایک تاریخی سرزمین (حکیم راحت نسیم سوہدروی)۔٭یومِ شہادت سیدنا عثمان غنیؓ (مولانا محمد عمر قاسمی)۔
برائے صفحہ’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘
٭جب زندگی کی بازی اُلٹ گئی (آسیہ پَری وش، حیدر آباد) ٭پیاری بچّی صفیہ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)٭نصیر احمد شہید (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)۔