پاکستان کا انتہائی دل فریب اورمشہور سیّاحتی مقام ’’بابو سرٹاپ‘‘، جہاں سال کے 365دِنوں میںسے صرف چند روز ہی کے لیے سورج جلوہ افروز ہوتا ہے، سطحِ سمندر سے 13700فٹ بلند ہے۔ یہ بلند درّہ برف باری کے باعث اکتوبر سے جون تک سیّاحوں کی پہنچ سے دُور رہتا ہےاور پھر ماہِ جون میں جیسے ہی وہاں تک رسائی ممکن ہوتی ہے، گرمی کے ستائے سیّاحوں کی ایک بڑی تعداد وہاں کی یخ بستہ ہواؤں کا لُطف اُٹھانے پہنچ جاتی ہے۔
بلندی پر واقع اس علاقے میں ہمہ وقت بارش اور برف باری کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جب کہ دن میں عموماً گہرے بادل چھائے ہوتے ہیں۔180کلو میٹر طویل ہزارہ موٹر وے M-15کی تعمیر کے بعد سے اب کئی گھنٹوں کا طویل سفر محض چند گھنٹوں میں بآسانی طے ہوجاتا ہے۔ یہ شاہ راہM1برہان انٹرچینج سے منسلک ہے، جو ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹ گرام اور تھاکوٹ کے ساتھ ملتی ہے۔یاد رہے، انتہائی دل کش نظاروں کی حامل اس موٹروے پر5سرنگیں،9فلائی اوورز اور47پُل تعمیر کیے گئے ہیں۔
ہزارہ موٹر وے پرآرام دہ سفر کے بعد ہم جلد ہی مانسہرہ پہنچ گئے، یہاں سے آگے بالا کوٹ کا خُوب صُورت علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جہاں دریائے کنہار اپنی تمام تر دل کشی و رعنائی کے ساتھ پوری وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتا بالا کوٹ کے قلب سے گزر کر بالآخر دریائے جہلم میں جا گرتا ہے۔
بالا کوٹ، مانسہرہ سے 38کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وادئ کاغان کا آغاز اسی شہر سے ہوتا ہے اور اسی نسبت سے اسےوادئ کاغان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر کو معرکہ بالا کوٹ، سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔
بالا کوٹ میں سیرو تفریح کے لیے متعدد جنّتِ نظر سیّاحتی مقامات ہیں، جن میں ندی بنگلا، کھوڑی میڈوز کے علاوہ وادی ناگاں شامل ہیں۔ بالا کوٹ میں زیادہ تر ہندکو اور گوجری زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں مناسب اور اعلیٰ معیار کے کئی رہائشی ہوٹلز اور ریسٹ ہائوسز موجود ہیں۔ وادئ کاغان کے لیے تمام اشیائے خورونوش کی ترسیل اسی شہر سے ہوتی ہے۔
شہر سے آگے کا سفر زیادہ تر پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے اور ان راستوں پر بہت احتیاط سے گاڑی چلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ذرا سی غفلت کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ چوں کہ ہماری جیپ کا ڈرائیور انتہائی تجربہ کار تھا، تو بہت مہارت اور احتیاط سے گاڑی چلاتے ہوئے اُس نے ہمیں باحفاظت بالا کوٹ سے 24کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیوائی کے قصبے پہنچادیا۔ یہ وادئ کاغان کا پہلا وزیٹنگ پوائنٹ ہے۔
کیوائی اپنی منفرد آب شاروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے کہ انتہائی بلندی سے نشیب کی جانب گرنے والی یہ آب شاریں سیڑھیوں کی مانند پہاڑوں کے اوپر سے بہتی چلی آتی ہیں۔ آب شاروں کے قریب ہی بہتے پانیوں پر موجود ہوٹل کے عملے نے سیّاحوں کے لیے خصوصی طور پر کرسیاں اور چارپائیاں لگارکھی ہیں۔ یہاں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کرکے ہم بھی چارپائیوں پر براجمان ہوگئے۔
بلاشبہ اس پُرفضا مقام پر آب شار کے قریب بیٹھ کر کھانے پینے کا لُطف ہی الگ ہے۔ کیوائی سے پھرایک عمودی سڑک، شوگران تک جاتی ہے۔ وہاں سے مزید آگے جائیں، تو 6کلومیٹر کے فاصلے پر’’سری‘‘ اور ’’پائے‘‘ جیسے خُوب صُورت مقامات ہیں۔ یہاں کی سب سے اونچی پہاڑی ’’مکڑا چوٹی‘‘ کہلاتی ہے، جو پورا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اس چوٹی کا نظارہ ’’پیر چناسی‘‘ کے مقام سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ کیوائی سے 6کلومیٹر کے فاصلے پر’’پارس‘‘ کا مقام ہے، جہاں سے ایک سڑک دریا کے پار 7872فٹ کی بلندی پر واقع شاران فاریسٹ کی طرف نکلتی ہے، مگر سڑک کی خستہ حالی کے سبب سیّاح وہاں کم ہی جاپاتے ہیں۔
یہ جنگل انتہائی گھنا، پُرسکون اور غیر آباد ہے، جو اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ یہاں ایک فاریسٹ ریسٹ ہاؤس اور یوتھ ہاسٹل کے علاوہ قیام وطعام کا بھی خاص بندوبست ہے۔ کاغان روڈ پر پارس سے آگے شینو، جرید اور مہانڈری کے علاقےہیں۔ مہانڈری سے آگے کھنیاں سے ایک ٹریک، ڈنہ میڈوز کی خُوب صُورت وادی کو نکلتا ہے ، جب کہ اطراف میں شنگری اور مکھلائیاں نامی خُوب صُورت گاؤں ہیں، جہاں سے چاروں جانب وادی کے دل کش مناظر آنکھوں کو خیرہ ہی کردیتے ہیں اور یہیں سے ناران، منور گلی اور آنسو جھیل کے لیے بھی کئی راستے نکلتے ہیں۔
صبح سات بجے شروع ہونے والا ہمارا سفر شام چار بجے کے قریب ناران پہنچ کر اختتام پذیر ہوا، تو ہم نے یہیں رات بسر کرنے کا پروگرام بنایا۔ ویسے وادئ کاغان کی اصل خُوب صُورتی ناران ہی سے شروع ہوتی ہے کہ یہ پوری وادی قدرتی حُسن سے مالا مال ہے۔ اسی لیے چہار اطراف پہاڑوں سے گِھرا یہ علاقہ سیّاحوں کی خاص توجّہ کا مرکز ہے۔ گرچہ متواتر برف باری، بارشوں اور شدید سردی کے باعث یہاں زندگی کی گہما گہمی محض پانچ سے چھے ماہ رہتی ہے۔ اپریل کے مہینے میں رستے کھلنا شروع ہوتے ہیں اور اکتوبر میں شدید برف باری کے بعد بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
نیز، لینڈسلائیڈنگ کے سبب سیّاحوں کو مزید آگے جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔تو جیسے ہی یہاں کے راستے کُھلتے ہیں، نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر کے سیّاح گویا کھینچے چلے آتے ہیں۔ دراصل ناران اب ایک سیّاحتی بیس کیمپ کی حیثیت حاصل کرچُکا ہے، یہاں ہوٹلز، ریسٹ ہاؤسز کی بھر مار ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے کیمپ بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ہمیں بھی دریائے کنہار کے بالکل قریب ’’بیس کیمپ ریسٹ ہاؤس‘‘ میں دو کمرے مل گئے۔ ریسٹ ہاؤس کے بالکل سامنےایک غار ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں شہزادہ، سیف الملوک اور پَری، بدی الجمال نے پناہ لی تھی۔
اگلی صبح یہاں سے ’’بابو سرٹاپ‘‘ کے لیے روانہ ہونا تھا، سوجلد ہی بے دارہوئے اور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد وقت ضائع کیے بغیر جیپ میں سوار ہوگئے۔ ناران سے بابو سر ٹاپ کا فاصلہ 70کلومیٹر ہے،جب کہ بٹہ کنڈی 16کلو میٹر، بوڑاوئی 30، جلکھڈ 42، اور جھیل لولو سر 54کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
ناران سے بابو سرٹاپ تک کی شاہ راہ اکثر مقامات پرخستہ حالی کا شکار ہے،حتیٰ کہ بعض جگہوں پر تو سڑک کا وجود ہی نہیں ہے۔ بہرحال، موسم بہت اچھا تھا، کِھلی کِھلی دُھوپ چہار سُو پھیلی ہوئی تھی اور ہماری جیپ منزل کی جانب گام زن تھی۔ راستے میں کہیں دودھیا تو کہیں سرسبز بلند پہاڑوں کے نظارےبہت بھلے لگ رہے تھے۔
ٹھاٹھیں مارتے دریائے کنہارکے کنارے سفر کے دوران، ڈرائیور نے اسپیکر آن کیا، تو ملکہ ترنّم نورجہاں کی مترنّم آواز میں ’’ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں، تو کیا ہوا، زندہ ہیں کتنے لوگ محبّت کیے بغیر‘‘ کی صدا نے جُھومنے پر مجبور کردیا۔ ناران کی اس مرکزی شاہ راہ سے16کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بٹہ کنڈی سے لالہ زار کا سفر پیدل بھی کیا جاسکتا ہے۔ بٹہ کنڈی سے مزید14کلومیٹر کی مسافت پربڑاوئی کاقصبہ اوراس سے آگے تقریباً 12کلومیٹر پر جلکھڈ کا مقام آجاتا ہے۔
یہاں ڈرائیور نے کچھ دیر کے لیے جیپ روک کر مفید معلومات فراہم کیں۔ جلکھڈ ناران سے 42کلومیٹر دُور اور سطح سمندر سے10300فٹ کی بلندی پر دریائے کنہار کے کنارے آباد ہے۔ جلکھڈ سے آگے ایک سڑک پہاڑ کے ساتھ اوپر کی جانب جاتی ہے، جو آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر بیسل کے ویرانے میں لےجاتی ہے۔ یہیں سے ایک راستہ گھاٹی سے ہوتا ہوا جھیلوں کی ملکہ، ’’دودی پت سر‘‘ کو جاتا ہے۔ 12800فٹ کی بلندی پر واقع اس بے مثال، حسین جھیل تک پہنچنے کے لیے چھے سے سات گھنٹے لگتے ہیں۔
جب کہ ناران سے 54کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ’’لو لو سر جھیل‘‘ بھی خُوب صُورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ کچھ دیر یہاں رُکنے اور جھیل کے یخ بستہ پانی سے آنکھیں تَر کرنے کے بعد جیپ میں سوار ہوکر ایک بار پھر بابو سر کی طرف گام زن ہوگئے۔ چوں کہ ابھی ان راستوں کو کُھلے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے، تو جیپ کو بابو سر روڈ کے کنارے برفانی تودوں سے گزرنا پڑا۔ لولوسر جھیل سے 9کلومیٹر آگے ’’گٹی داس‘‘ کا گاؤں آجاتا ہے، جہاں موسمِ گرما میں، سرد ترین علاقے ’’چلاس‘‘ سے تعلق رکھنے والے باشندے چند ماہ کے لیے آکر آباد ہوتے ہیں اور ماہ ستمبر کے آخر میں واپس چلے جاتے ہیں۔
ظہر کا وقت ہورہا تھا، ڈرائیور نے سڑک کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد دیکھ کر جیپ روک دی۔ ہم سب نمازِ ظہر ادا کرکے دوبارہ جیپ میں بیٹھے، تو ڈرائیور نے بارش کے خدشے کے پیشِ نظر جیپ پر کور چڑھا لیے۔ واضح رہے، یہاں ہر وقت بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، سورج، جون جولائی میں خال خال ہی نکلتا ہے، زیادہ تر موسم ابرآلود ہی ہوتا ہے۔ جیپ اپنی مخصوص رفتار سے بلندی کی طرف بڑھتی جارہی تھی اور جوں جوں بابو سرٹاپ قریب آرہا تھا، سردی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
مئی کے مہینے میں دسمبر، جنوری والی سردی محسوس ہورہی تھی، ہم نے سردی سے بچنے کے لیے جیکٹس پہن کر خود کو گرم شالز میں اچھی طرح لپیٹ لیا تھا۔ دُور پہاڑوں کے اوپر گہرے سیاہ بادل دکھائی دے رہے تھے کہ اچانک ڈرائیور نےاعلان کیا کہ ’’ہم بابو سر ٹاپ پہنچنے والے ہیں۔‘‘ کافی دیر سے جیپ میں خاموشی تھی، ڈرائیور کی آواز پر سب نے کمر سیدھی کی اور نگاہیں ٹاپ کی جانب اُٹھ گئیں، حسب ِ معمول بارش شروع ہوچکی تھی۔
گٹی داس سے ٹاپ تک تقریباً سات کلومیٹر کی مسلسل چڑھائی ہے،جیپ گھاں گھاں کرتی ٹاپ کی جانب بڑھتی چلی جا رہی تھی، گاڑی کی رفتار کم اور سردی زیادہ تھی اور یہی چڑھائی بالآخر بابو سر کے ٹاپ تک پہنچا دیتی ہے۔اور.....ہم بابو سر ٹاپ پہنچ ہی گئے۔
گزشتہ روز شروع ہونے والے سفر نے آخر ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا تھا۔ہم نے اس جنّت نظیر مقام سے متعلق بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا،مگر آج بہ نفسِ نفیس یہاں موجود تھے۔ اس وقت ہم 13700فٹ کی بلندی پر تھے۔ سبزے سے ڈھکے میدان، سفید برف کے گلیشیئرز، آب شاریں اور جھرنے، وادی کوصحیح معنوں میں چار چاندلگارہے تھے۔
برف پوش چوٹیاں سرسبز پہاڑوں کے بیچ بڑی شان و شوکت سے سر اُٹھائے کھڑی تھیں، ہم سڑک پر آگے کی طرف بڑھے، تو سڑک بل کھاتی گہرائی میں ڈوبتی محسوس ہوئی۔ چوٹی سے نیچے کی جانب پہاڑ بھی خشک اور سبزے سے عاری نظر آئے۔ یک دَم یوںلگا ، جیسےدیو مالائی حُسن اپنے انجام کو پہنچ گیا ہو۔
اس پُرخطر مقام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر لوگ آدھے رستے ہی سے پلٹ جاتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، بعض اوقات گاڑی جواب دے جاتی ہے، مگر اللہ کا شکر کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا اور ہم خیر و عافیت سےاس بلنداور سرد ترین مقام تک پہنچنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ جیپ سے باہر آئے، تو سردی ناقابلِ برداشت تھی، گرم جیکٹس اور شالز سے خود کو لپیٹنے کے باوجود ہم تھر تھر کانپ رہے تھے۔ تاہم، زندگی رواں دواں تھی، گاڑیاں گزر رہی تھیں اور مقامی باشندے اپنی اپنی مصروفیات میں مشغول تھے۔
کئی گھنٹوں کے طویل اور پُرخطر سفر کے بعد سب کو بُھوک ستانے لگی تھی۔ کھانے کے لیے ہوٹل کا رُخ کیا، تو معلوم ہوا کہ ’’لاہور شنواری‘‘ اور ’’پشاور شنواری‘‘ میں کھانے پینے کا سب سامان دست یاب ہے، مگر کھانا تیار ہونے میں وقت لگتا ہے، بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ شدید سردی کے سبب چولھے جلتے ہی نہیں، حالاں کہ ایندھن کے طور پر گیس سیلنڈر اور لکڑیوں کا خاص بندوبست ہوتا ہے۔ ہوٹلز کے ملازم آوازیں لگا کر سیّاحوں کو اپنے ہوٹل آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہر دکان اور ریسٹورنٹ پر پاکستانی پرچموں کی بہار تھی، جب کہ دکانوں کی چھتیں اورنج ترپالوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ بس سمجھیں، یہی پہچان ہے، بابو سر ٹاپ کی۔
بابو سرٹاپ درحقیقت ایک درّہ ہے، جو وادئ کاغان کو بلتستان سے ملاتا ہے۔ تقریباً پچاس کلومیٹر بَل کھاتی، گہرائی کی جانب سفر کرتی یہ سڑک چلاس کے مقام پر شاہ راہِ ریشم سے مل جاتی ہے۔ یہ وہ قدیم شاہ راہ ہے، جو چین سے آنے والے تاجر اختیار کیا کرتے تھے۔ 1892ء میں برطانوی دورِ حکومت میں اس سڑک کی تعمیر ہوئی۔ شاہ راہِ ریشم کی تعمیر سے پہلے شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان اسی راستے سے ناران سے منسلک تھے۔
بابو سر ٹاپ مون سون بیلٹ کا نقطۂ آغاز ہے اور پھر یہی سڑک آگے چلاس سے ہوتی ہوئی شاہ راہِ قراقرم سے جا ملتی ہے، اور پھر مزید آگے اسکردو ، گلگت اور گلگت سے پاک چائنا کراسنگ بارڈر خنجراب تک پہنچا دیتی ہے۔13700 فٹ کی بلندی پر بابو سر ٹاپ کے بازار کے ساتھ پتھروں سے تعمیر کردہ دیوارپر بلند ترین جگہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
اس مقام پر سیاحوں کا بہت رش ہوتا ہے، ہر کوئی اس جگہ تصویر کھنچوانے کا متمنی نظر آتا ہے۔ البتہ شدید سردی کے سبب یہاں سیّاحوں کا قیام مختصر ہوتا ہے، لہٰذا ہم نے بھی چند گھنٹے گردو نواح میں بھرپور سیر و تفریح اور خُوب لُطف اٹھانے کے بعد شام چار بجے واپسی کی راہ لی۔