دوسرے روز میں خُود بھلوال شہر کے بازار گیا، لوگ اخبارفروشوں کےگرد جمع تھے، مگر زندگی معمول کےمطابق تھی، جنرل ضیاءالحق کے لیے کہیں کوئی ہم دردی نظرآئی (کیوں کہ گیارہ سال سے لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے تھے)نہ ہی نفرت۔ دو روز بعد اسلام آباد میں اُن کا جنازہ تھا، جس میں Foreign dignitaries نے بھی شریک ہونا تھا، اِس لیے پنجاب بھر سے سیکیوریٹی ڈیوٹی کے لیے پولیس افسران کو بلایا گیا۔
ضلع سرگودھا سے مجھے بھیجاگیا۔ مَیں راول پنڈی پولیس لائنز پہنچا تو ایس پی ہیڈ کوارٹر نے (جو سارے سیکیوریٹی انتطامات کا انچارج تھا) مجھے دیکھتے ہی کہا ۔سب سے اہم مہمان کے ساتھ سیکیوریٹی ڈیوٹی آپ دیں گے۔ مَیں نے پوچھا، وہ کون ہے؟ کہنے لگے، امریکا کے وزیرِخارجہ جارج شُلز۔ چناں چہ دو دن اُن کے ساتھ سیکیوریٹی ڈیوٹی انجام دی۔ اہم ترین شخصیات کی سیکیوریٹی کے تمام رُولز اور گائیڈ لائنزجس کتاب میں درج ہیں، اُسے "Blue Book" کہتے ہیں۔
بلیو بُک کے مطابق وی وی آئی پی کی گاڑی کے پیچھے میری گاڑی لگنی تھی، امریکی وزیرِخارجہ کا اپنا سیکیوریٹی اسٹاف بھی آیا ہوا تھا، اُنہوں نے پوری کوشش کی کہ وزیرِخارجہ کی گاڑی کے فوراً بعد اُن کی گاڑی لگ جائے، مگر مَیں نے انکار کردیا اور بلیو بُک کے مطابق اُن کا کارواں چلتا رہا، البتہ جب بھی اُن کی گاڑی کی اسپیڈ ذرا کم ہوتی یا کہیں رش ہوتا تو اُن کا سیکیوریٹی اسٹاف گاڑی سے اُترکر دوڑ کے آتا، اُن کی گاڑی گھیرے میں لے لیتا اور کچھ دیرگاڑی کے ساتھ پیدل چلتا۔
اُس وقت تک ہمارے ہاں یہ تصوّر رائج نہیں تھا، لہٰذا امریکا کے سیکیوریٹی اسٹاف سے وی وی آئی پی سیکیوریٹی کے ضمن میں کئی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں۔ جارج شُلز امریکی سفیرکی بیوہ کے گھر بھی گئےاور پھر سہ پہر کو فیصل مسجد کےباہرصحن میں جنرل ضیاءالحق کے جنازے میں بھی شریک ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد سیاسی محاذ پریہ تبدیلی آئی کہ نئے صدر غلام اسحٰق خان نے اعلان کردیا کہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو حصّہ لینےکی اجازت ہوگی، چناں چہ بھیرہ کے پراچہ صاحبان نے قلابازی لگانےمیں ذرا تاخیر نہ کی۔ احسان پراچہ پنجاب میں نوازشریف کی کابینہ کے وزیر تھے، مگر وزارت کے جھنڈے والی کار پر بلاول ہائوس، کراچی پہنچے، بے نظیر بھٹو کے ہاتھ پر بیعت کی اور بھلوال کی ساری سیٹس کے لیے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ لے آئے۔
جب پراچہ فیملی مسلم لیگ چھوڑ کر پی پی پی میں چلی گئی، تو پی پی پی کے امیدوار ڈاکٹراعجاز بھرتھ نے ماڈل ٹائون کا رُخ کیا اور وہاں جا کرمیاں نوازشریف کی اطاعت قبول کر کےمسلم لیگ کا ٹکٹ لے آئے۔ چند روز پہلے تک جو پیپلزپارٹی اورذوالفقارعلی بھٹو کو گالیاں دے رہےتھے، وہ اب ’’زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگانے لگے اور جو نوازشریف کے خلاف تقریریں کررہےتھے، وہ ’’میاں دے نعرے وجّن گے‘‘ کی تھاپ پررقص کرنےلگے۔
راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہونے لگیں، بےضمیری اوربےاصولی کے وہ شرم ناک مظاہرے دیکھے کہ اللہ کی پناہ۔ بہرحال، بھلوال کی(جو پنجاب کی سب سے بڑی سب ڈویژن تھی، جس کے دو ایم این ایز اور چار ایم پی ایز تھے) ایک کے سوا تمام سیٹس پر پیپلز پارٹی کام یاب ہوئی، مگر ڈاکٹر بھرتھ نے پراچوں کو پچھاڑ دیا اور وہ ایم پی اے بننے میں کام یاب ہوگیا۔ ڈاکٹراعجاز بھرتھ وفات پاچُکے ہیں۔ اب اُن کا ایک بیٹا ایم این اے اوردوسرا ایم پی اے ہےاور پنجاب کابینہ میں وزیر بھی۔
بھلوال میں تعیناتی کے دوران ایک رات بھلوال سے سرگودھا جانے والی سڑک (اجنالہ روڈ) پر چند مسّلح افراد نے بس کے مسافروں سے نقدی اور زیورات چھین لیے،جس کے بعد مشکوک افراد کی interrogation شروع ہوگئی۔ پوچھ گچھ کا دائرہ وسیع ہوا اور اُس میں سختی کا عُنصر شامل ہوا تو ایک روزمیرے دفتر کے ایڈریس پر ایک لفافہ موصول ہوا۔ کھولا، تو اُس میں کچھ نقدی اور زیورات تھے اور ساتھ ایک خط بھی، جس میں لکھا تھا۔ ’’ہم اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہیں، اِس لیے بس سےلُوٹا ہوا مال واپس کررہے ہیں۔‘‘
لفافے پر پنجاب یونی ورسٹی کی مُہر تھی، لہٰذا ہم نے اُس علاقے کے لاہور میں پڑھنے والے تمام طلبہ کی لسٹ بنائی اور اُن کی تفتیش شروع کردی۔ کئی سال بعد مجھے لاہور میں کچھ صحافی ملے، جنہوں نے تعارف کرواتے ہوئے کہا۔ ’’ہم ہیں، آپ کے سابقہ ملزم۔‘‘ مَیں نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘ تو اُنہوں نے بتایا کہ ’’بس ڈکیتی کے سلسلے میں آپ نے ہم سےبھی پوچھ گچھ کی تھی۔ ہم اُس وقت طالبِ علم تھےاور موازنے کے لیے ہم سے بھی تحریر لکھوائی گئی تھی۔‘‘ یہ کیس ابھی حل نہیں ہوا تھا کہ بھلوال میں ایک ایسا واقعہ ہوگیا، جس نے پورے ضلعےکو ہلا کررکھ دیا۔
اُس روز ایس ایس پی سرگودھا کے دفتر میں ماہانہ کرائم میٹنگ ہورہی تھی، جس میں ہم تمام سب ڈویژنل پولیس افسران شریک تھے کہ اچانک ایس ایس پی کے فون کی گھنٹی بجی۔ اشرف مارتھ صاحب (شہید) نے فون اُٹھایا، تو چند لمحوں ہی میں اُن کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ فون رکھتے ہی مجھ سے مخاطب ہوئے ’’بھلوال میں ڈکیتی ہوگئی ہے۔ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں، آپ بھلوال پہنچیں۔‘‘ مَیں اُن کے دفترسے دوڑتا ہوا باہر نکلا اور جیپ میں سوار ہوکر بھلوال روانہ ہوگیا۔
راستے میں وائرلیس میسیج کے ذریعے اتنا معلوم ہوا کہ محکمہ اری گیشن کےسات ملازم نیشنل بینک سے تن خواہ لے کر واپس جا رہے تھے کہ اری گیشن کالونی کے قریب دو ملزمان نےاُن کی جیپ پراندھا دھند فائرنگ کردی، جس سے چار ملازم ہلاک اورتین شدید زخمی ہوئے ہیں اور ملزمان تن خواہوں کا تھیلا لے کر فرار ہوگئے ہیں۔
مَیں جب موقعے پر پہنچا، تو نعشیں سڑک پر پڑی تھیں، مقتولین کے ورثاء پہنچ چُکے تھے اور اُن کی خواتین بین کررہی تھیں۔ وردی والوں کودیکھ کر اُنہوں نے پولیس کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اُنہیں ایسا کرنے کا پورا حق تھا۔ ہم سب کچھ سُنتے اور ورثاء کو تسلی، حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
عموماً کوئی سنگین واردات ہونےپرورثاء پولیس پر غصّہ نکالتےہیں،جوایک قدرتی ردِّعمل ہے۔ اور واردات ٹریس ہوجائے، ملزم گرفتار ہوجائیں تو پولیس کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں۔ خیر، بھلوال کے تمام تھانوں کی پولیس، گاڑیوں اور موٹرسائیکلز پرڈاکوؤں کی تلاش میں مختلف اطراف میں نکل پڑی۔ ریلوے اسٹیشنز اور اڈّوں پر بھی پولیس بھیج دی گئی، جس نے ہربس اور ہرگاڑی کی تلاشی شروع کردی۔ عام شہریوں میں سے بھی کچھ نوجوانوں کو موٹرسائیکلز پر نکالا گیا، مگر رات گئے تک کوئی کام یابی نہ ہوئی۔ سرگودھا جیسے پُرامن ضلعے میں اتنی بڑی واردات سے ہرطرف خوف وہراس پھیل گیا تھا۔
اِس کے بعد بھلوال کامین بازار چار بجے ہی بند ہوجاتا اور کسی اور سرکاری محکمے نے نیشنل بینک سے جاکر تن خواہیں وصول کرنے کی ہمّت نہ کی۔ پورے ضلعے کی معاشی اور سماجی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ دوسری جانب چار مقتولین میں سے ایک، سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ مقتول کی بہنیں ہرروز تھانے آتیں اور وہاں کھڑی محکمہ نہر کی جیپ سے لپٹ کر بین کرنے لگتیں۔ اُنہیں روتا دیکھ کر ہر شخص افسردہ ہوجاتا، پولیس کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
دوسرے روز ایس ایس پی سرگودھا نے سی آئی اے کی ٹیم سمیت بھلوال آکر کیمپ آفس قائم کرلیا۔ ایک طرف محکمہ نہر کے ملازمین سے سائینسی انداز میں پوچھ گچھ شروع ہوئی، تودوسری طرف درست معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک لاکھ روپے (جواُس وقت بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی) انعام کا بھی اعلان کردیا گیا۔ تیسرے روز پولیس نے کچھ مشکوک افراد حراست میں لے لیے۔
چوتھے روز ایک مفید clue مل گیا اور پانچویں روز بریک تھرو ہوگیا، محکمہ نہر ہی کےایک ملازم چک نمبر6 کے رہائشی، رشید نے اعتراف کرلیا کہ یہ واردات ضلع گجرات کے نصیر اور فیاض شاہ نے کی ہے، جو ایک رات قبل اُس کے گھر آکررہےتھے۔ میری سرکردگی میں پولیس پارٹی ملزمان کی تلاش میں بھلوال سے فیاض شاہ کے گاؤں (آزاد کشمیر کے بارڈر پر واقع پبّی) کے لیے روانہ ہوئی۔
آٹھ گاڑیوں کا قافلہ آدھی رات کوبھلوال سے روانہ ہوا، اندھیرے اور تیز رفتاری کےباعث ایک دوجگہوں پرگاڑیاں بمشکل اُلٹنے سے بچیں۔ ایک جگہ پہنچ کرفجر کی اذان سُنائی دی، تو مَیں نے قافلہ روک لیا اور سب سے کہا کہ ’’مِشن مشکل بھی ہے اور Risky بھی، لہٰذا کام یابی کے لیے سب ایک بار پورے سچّے دل سے اللہ سے مدد مانگیں۔‘‘
سب نے وضو کرکے نماز ادا کی اورخلوصِ نیّت سےاللہ تعالیٰ سے مدد کی درخواست کی۔ منہ اندھیرے ہم کھاریاں تھانےپہنچے، وہاں ایک اےایس آئی ڈیوٹی افسر کے طور پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس سے بات ہوئی تو قدرے بے نیازی سے بولا۔ ’’نصیرا آپ کو کہاں ملے گا، اُس کے پیچھے توپورے ضلع گجرات کی پولیس لگی ہوئی ہے۔ وہ فوج کا سابق کمانڈو ہے اور کئی سالوں سے اشتہاری ہے۔ اُس کے ساتھ تو مقابلہ ہی ہوناہے۔‘‘خیر، ہم رشید کو لے کر پّبی کی جانب چل پڑے۔
مجھے یاد ہے، طلوعِ آفتاب کے وقت ہم فیاض شاہ کے گاؤں پہنچ کر اُس کے گھر کا گھیراؤ کرچُکے تھے۔ گھر کی تلاشی لی گئی۔ فیاض شاہ تو نہ ملا، مگراُس کے گھروالے مل گئے،جن سے اُس کے دوستوں اور ملنے والوں سے متعلق کافی معلومات مل گئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ فیاض اور نصیر یہاں آئےتھے اوربتا کر گئے ہیں کہ آئندہ چند روز میں وہ دونوں فرانس چلے جائیں گے، چناں چہ پولیس کی ایک پارٹی اسلام آباد روانہ کردی گئی، پولیس افسروں نے فرانس کے سفارت خانے سے یہ معلوم کر لیا کہ ان دوناموں کی درخواستیں جمع ہوچُکی ہیں۔ فیاض کے گھروالوں سے اُس کے جاننے والوں کے جتنے بھی ایڈریسز ملے تھے، اُن پر ریڈ کی گئی۔ ملزمان کے ایک جاننے والے کی زبانی ہمیں معلوم ہوچُکا تھا کہ وہ راول پنڈی کے علاقے، ویسٹرج کے قریب کہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
مَیں بھلوال میں بیٹھا ہر آدھے گھنٹے بعد راول پنڈی بھیجی گئی پولیس پارٹی سے (جس میں مطیع اللہ جیسےنوجوان اوردلیرافسر شامل تھے) رابطہ کرتا۔ دل و دماغ پر ایک ہی دُھن سوار تھی کہ کسی طرح اتنی بڑی واردات میں ملوّث مجرم پکڑے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں بھی کر رہا تھا۔ ایک روزمیری بےچینی و اضطراب میں بہت اضافہ ہوا، تومَیں نے خُود پنڈی جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھے اتنا معلوم تھا کہ ہماری ٹیم میں سے کچھ افسرراول پنڈی پولیس لائنز میں رہ رہے ہیں۔
مَیں رات کو غروبِ آفتاب کے بعدراول پنڈی پولیس لائنزمیں داخل ہوا تو پوری لائنز اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، صرف ایک کمرے کا بلب جل رہا تھا۔ مَیں نے اُسی کمرے کے سامنے جاکر جیپ کھڑی کی اور اندر داخل ہوا، تو معلوم ہوا کہ وہ کنٹرول روم ہے۔ وہاں صرف ایک ملازم تھا، جو میسیج وصول بھی کر رہا تھا اور ریلےبھی کررہا تھا۔ مَیں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد اُس سے سرگودھا کی پولیس پارٹی سے متعلق پوچھا، تو اُس نے کہا۔ ’’سر! کچھ لوگ تو پولیس کالج سہالہ چلے گئے ہیں اور کچھ یہاں…‘‘ ابھی اُس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ وائرلیس کنٹرول روم میں ایک میسیج آیا۔
اُس میں نصیرکا نام سُن کرمَیں چوکنّا ہوگیا۔ پورا میسیج سُنتے ہی مَیں وہاں سے بجلی کی سی تیزی سے نکلا۔ ہماری ٹیم بھی نہ جانے کہاں کہاں سے چند منٹوں ہی میں پہنچ گئی۔ یوں لگا، کائناتوں کے مالک نے ہماری دُعائیں قبول کر کے فرشتوں کو حُکم دے دیا تھا، جنہوں نے راہ نمائی کی اورکسی غیبی مدد کے نتیجے میں چند ہی منٹوں بعد چار بےگناہ شہریوں کا قاتل نصیرا ہماری حراست میں تھا۔ فوری طور پراُس کی فراہم کردہ معلومات پر مختلف جگہوں پر ریڈ کی گئی۔
جہاں سے اُس کا ساتھی فیاض شاہ بھی پکڑاگیا۔ نصیرے کی نشان دہی پر کھاریاں اور لالہ موسیٰ سے اُس کی کلاشنکوف اور لوٹی ہوئی ساری رقم برآمد کرلی گئی۔ گاڑی میں اس سے پوچھا گیاکہ’’تمہیں پتا ہے کہ تمہاری فائرنگ سے کتنے بےگناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟‘‘ تواُس نے بڑی بےنیازی سے جواب دیا۔’’سُنیا اے تِن، چار بندے مارے گئے نیں۔‘‘(سُنا ہے، تین، چار افراد مارے گئے ہیں) پھراُس سے پوچھا کہ ’’اتنے سنگین جرم پر تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے؟‘‘ ’’گولی…‘‘اُس نے فوراً جواب دیا۔
اُس وقت موبائل فون کی سہولت میّسر نہیں تھی۔ اِس لیے سینئر افسران اِس ساری ڈویلپمنٹ سے بے خبر تھے۔ اس کے چند گھنٹوں بعد آدھی رات کے وقت تحصیل بھلوال کے تھانہ میانی کے قریب اشتہاری مجرم نصیرے کو اُس کے ساتھیوں نے چھڑوانے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی اور اس کی اطلاع پولیس وائرلیس کنٹرول پر چلی تو ایس ایس پی سرگودھا نے فوری طور پرمجھ سے رابطہ کرنا چاہا، مگر مَیں گریزکرتا رہا۔ وہ میرے روکنے کے باوجود سرگودھا سےچل پڑےاور جب موقعے پر پہنچے تو خطرناک ڈاکو اور بیسیوں بے گناہ شہریوں کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ چُکا تھا۔
مارتھ صاحب نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا مشکل کیس اس طرح حل ہوا ہے کہ اِس میں سے ایک بھی نمبر نہیں کاٹا جاسکتا۔ یعنی اصل مجرم بھی مل گئے، رقم بھی برآمد ہوئی، اسلحہ بھی برآمد ہوگیااورقاتل اپنےانجام کوبھی پہنچ گیا۔ دوسرے روز پوسٹ مارٹم کی خاطر لے جانے کے لیے نصیرے ڈاکو کی لاش تھانے کے باہر چوک میں رکھی گئی، تو دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ بیس ہزارکامجمع اکٹھا ہوگیا۔ اُس کا انجام دیکھ کر لوگوں کا ڈراورخوف اُترگیا۔ شہر کی رونقیں بحال ہوگئیں۔
اکلوتے بھائی کی سات بہنوں نے بھائی کے قاتل کی لاش دیکھی، تو اُن کے منہ سے نکلا۔ ’’اللہ تیراشُکرہے، تُونے ہمارے بھائی کے قاتل کو ہمارے سامنے سزا دے دی۔‘‘ شام کو میری جیپ کا ڈرائیور بازار سے سودا لےکر آیا، توکہنے لگا۔ ’’سر! آج مَیں بازار گیا تو دکان دار مجھے روک روک کر میرے ہاتھ چُوم رہے تھے۔ آج پولیس اہل کاروں کو عوام سے ایسی عزّت ملی ہے،جیسی1965 ء میں محاذ سے آنے واے فوجی جوانوں کو ملا کرتی تھی۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’الحمدُللہ، سب کچھ مالکِ کائنات کی راہ نمائی اور مدد ہی سے ممکن ہوا ہے۔ نصیرے ڈاکو کا انجام دیکھ کر جرائم پیشہ افراد خوف زدہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ بس ڈکیتی کے مجرم خُود آکر پیش ہوگئے۔ اِس کے بعد کافی عرصے تک بھلوال میں کوئی واردات نہ ہوئی۔
اِس واقعے کے دوہفتوں بعد ہمارا بَیچ پروموٹ ہوگیا اور مَیں ایس پی یعنی ’’پُلس کپتان‘‘ بن کر بھلوال سے لوگوں کی ڈھیرساری دُعائیں سمیٹ کے رخصت ہوا۔ اب میری اگلی منزل راول پنڈی قرار پائی۔ (جاری ہے)