• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شام کے اہم شہر حلب پر دوبارہ باغیوں کا قبضہ ہوگیا‘‘یہ خبر پوری دنیا، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے کسی’’دھماکے‘‘سے کم نہیں تھی۔حلب، دارالحکومت دمشق کے بعد سب سے اہم شہر ہے، جو اُس سے تقریباً80میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اِس قبضے نے ایک مرتبہ پھر بشار الاسد کی حکومت کو تو ہلا کر رکھ ہی دیا، لیکن ساتھ ہی اُن کے بڑے اتحادیوں ایران اور روس کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کر دیا، جو خود مختلف محاذوں پر جنگ میں مصروف ہیں۔

شامی اپوزیشن نے ناقابلِ یقین پیش قدمی کرتے ہوئے پَلک جھپکتے میں اہم تنصیبات پر قبضہ کرلیا اور پھر چند ہی روز میں حماۃ اور حمص جیسے اہم شہروں سے ہوتے ہوئے اس کے دستے دارالحکومت، دمشق میں داخل ہوگئے،جب کہ بشار الاسد اپنے خاندان سمیت وہاں سے فرار ہوکر ماسکو میں پناہ گزین ہوئے۔

گو کہ ابتدائی مرحلے پر روس نے اپوزیشن کو آگے بڑھنے سے روکنے اور مقبوضہ علاقے خالی کروانے کے لیے فضائی بم باری کی، جب کہ ایران کی جانب سے بھی اسد حکومت کی حمایت میں بیانات جاری ہوئے، نیز، ایرانی حمایت یافتہ جنگ جُو تنظیم ،حزب اللہ کے لڑاکوں کی عراق کے راستے شام میں داخل ہونے کی اطلاعات بھی آئیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی بشار حکومت کو گرنے سے نہ بچا سکا اور یکے بعد دیگرے یہ سب پیچھےہٹ گئے۔

اپوزیشن کی جانب سے اسد حکومت کے وزیرِ اعظم کو عبوری سربراہ بنایا گیا، جنھوں نے اقتدار باقاعدہ طور پر نئے فاتحین کو سپرد کیا۔ عالمی برادری نے صورتِ حال پر تشویش کے ساتھ، بشار حکومت کے خاتمے پر خوشی کے پیغامات جاری کیے، جب کہ دنیا نے شام میں ایک متفّقہ حکومت کے قیام پر بھی زور دیا۔ 

اچھی بات یہ ہوئی کہ اِتنی بڑی تبدیلی کسی بڑے خون خرابے کے بغیر عمل میں آئی، یہاں تک کہ دمشق بھی پُرسکون طور پر اپوزیشن کی جھولی میں آگیا۔ اسد حکومت کے خاتمے پر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور بھرپور جشن منایا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانچ دہائیوں سے قائم حکومت عوام میں نہایت غیر مقبول تھی۔

شام کی خانہ جنگی2011 ء میں’’عرب اسپرنگ‘‘ کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر شروع ہوئی۔ اسد افواج نے پہلے ہی احتجاج کو، جو اسکول کے بچّوں کا بتایا جاتا ہے، ٹینکس اور گولا بارود سے کُچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں احتجاجی تحریک، خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی اور ہر شہر بغاوت پر اُتر آیا۔ 

یاد رہے، بشارالاسد کے حامیوں کی تعداد محض دس فی صد تھی، جس میں فوج ایک بڑا عُنصر ہے کہ اُن کے والد حافظ الاسد صرف اپنے ہی لوگوں کو اس میں بھرتی کیا کرتے تھے۔ دس سالہ خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زاید شامی شہری ہلاک اور ایک کروڑ سے زیادہ آبادی بے گھر ہوئی۔ 

یہ اقوامِ متحدہ کے غیر جانب دارانہ اعداد وشمار ہیں۔ اِسے اِس صدی کی سب سے تباہ کُن جنگ قرار دیا گیا۔ مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد، جو تقریباً تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، تُرکیہ کی سرحد پر پناہ گزین ہوئی، جب کہ بیس لاکھ عراق اور اردن میں اقوامِ متحدہ کے کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ نے اِس ظلم و ستم پر شام کی رُکنیت معطّل کردی تھی، جسے بعدازاں بحال کردیا گیا۔روس اور ایران، اسد حکومت کے سب سے بڑے فوجی، اقتصادی اور سیاسی اتحادی رہے۔

روس کُھلے عام شہروں پر جدید طیاروں سے بم باری کرتا رہا اور ایران کی اتحادی ملیشیاز اسد افواج کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شریک رہیں۔کورونا وبا کے سبب شامی خانہ جنگی، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے خون ریز اور خوف ناک جنگ تھی، پس منظر میں چلی گئی، لیکن اِس جنگ کے شعلے بُجھے نہیں تھے۔پھر مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی دیگر جنگوں نے شامی خانہ جنگی کو منظر ہی سے غائب کردیا، مگر گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں ایک بار پھر شام سُرخیوں میں آگیا۔

سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور اس کے بعد اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جارحیت کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ یمن کے حوثیوں، لبنان کی حزب اللہ اور پھر ان کے سرپرست ایران سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہاں تک کہ جو ممالک اِس جنگ میں براہِ راست ملوّث نہیں ہیں، وہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائے۔ خطّے میں عدم استحکام کی کیفیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

شام کی جنگ کا دوبارہ شروع ہونا اور باغیوں کا دمشق پر قبضہ اسی کا حصّہ ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس آگ کے شعلے کہاں کہاں تک پھیل رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا تنازع کم نہیں ہو رہا، بلکہ اس میں مزید شدّت اور وسعت آتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے اُس جمود کو توڑ ڈالا، جو مشرقِ وسطیٰ میں بظاہر امن کی علامت بنا ہوا تھا۔ دس سالہ شامی خانہ جنگی، اس میں ملوّث کھلاڑی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سیاسی پیش رفت پر نظر ڈالے بغیر حالیہ پیش قدمی کو سمجھنا مشکل ہوگا۔

2011 ء سے جاری شامی جنگ میں جس بے رحمانہ انداز میں شہریوں کا قتلِ عام ہوا اور وہ بے گھر و بے در ہوئے، عالمی تاریخ کا ایک بدنُما داغ ہے اور اسے بھولنا ممکن نہیں۔ بشار الاسد کی فوج پہلے پانچ سال ہی میں اپوزیشن کے سامنے ڈھیر ہوگئی تھی اور شام کا ایک بڑا حصّہ اُس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، لیکن اُسی زمانے میں داعش نامی دہشت گرد تنظیم کا ظہور ہوا اور وہ دو سالوں میں عراق اور شام کی فوجوں کو شکست دے کر بیچ کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوگئی۔

اِس جنگ میں شروع ہی سے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں ملوّث رہیں، جس کے سبب معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے۔ شامی اپوزیشن کو، جس نے عرب اسپرنگ کے تسلسل میں احتجاج شروع کیا تھا، تُرکیہ، امریکا اور یورپ کی سپورٹ حاصل تھی۔

گو یہ زبانی زیادہ تھی، مالی اور فوجی کم، سوائے تُرکیہ کے، جس کے رہنما طیّب اردوان نے کُھل کر ان کا ساتھ دیا اور ان کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ اتحادیوں کی مدد سے اسد، اپوزیشن پر حاوی رہا، لیکن جب داعش نے اینٹری دی، تو حالات یک دَم بدل گئے اور اسد افواج ہر جگہ پسپا ہونے لگیں۔

ایران شروع ہی سے اسد حکومت کا سب سے بڑا اتحادی تھا، جب کہ عرب ممالک اپوزیشن کے ساتھ تھے، جسے مُلک میں نوّے فی صد اکثریت حاصل تھی۔ اس صورتِ حال کو’’عرب، ایران کنفلیکٹ‘‘ یا’’برتری کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا رہا۔ تاہم، داعش کی اینٹری کے بعد خطّے میں جس قسم کی دہشت گردی کا آغاز ہوا، اُس نے تمام عالمی و علاقائی طاقتوں کو اُس کے خلاف متحد کردیا۔

اِس خانہ جنگی کے دَوران اقوامِ متحدہ میں بار بار آزادانہ انتخابات کے لیے قراردادیں پیش ہوئیں، جن میں سے اکثر کو روس نے ویٹو کر دیا۔ بعد میں وہ خود بھی اس جنگ میں اسد حکومت کی طرف سے شامل ہوگیا۔ یاد رہے، روس، مشرقِ وسطیٰ سے تقریباً جاچکا تھا، لیکن شامی خانہ جنگی نے اُسے دوبارہ یہاں آنے کا موقع دیا اور اُس نے فوراً حالات سے فائدہ اُٹھایا۔

روس نے اسد حکومت کے ساتھ مل کر جس بے دردی سے شہروں پر فضائی بم باری کی، وہ ریکارڈ پر ہے، لیکن وہ اسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کہنے پر مُصر رہا۔ اُس وقت مغربی میڈیا نے پیوٹن کو’’آئرن مین‘‘اور اوباما کو’’ امریکا کا بے وقوف صدر‘‘ قرار دیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ غزہ میں بے گناہ افراد کی ہلاکت پر اسرائیل اور امریکا کی مذمّت کی جاتی ہے، جو کرنی بھی چاہیے، مگر روس نے شام میں جس سفّاکیت کا مظاہرہ کیا، اُس کی کوئی مذّمت نہیں کرتا۔ یورپ اور امریکا کے لیے اِس سے اچھی کوئی اور بات ہو ہی نہیں سکتی کہ روس اب تقسیم ہوکر دو محاذوں پر اپنی فوجی قوّت لگائے، یعنی یوکرین اور شام میں۔ اِسی لیے اپوزیشن کی یہ پیش قدمی روس کے لیے نہ صرف حیرت انگیز رہی بلکہ ایک آزمائش بھی ثابت ہوئی۔حزب اللہ اور ایرانی اتحادی ملیشیاز نے ماضی میں کُھل کر اسد افواج کا ساتھ دیا تھا۔

ایران کے فوجی جنرل باقاعدہ مشیر کے طور پر شام میں موجود رہے۔ اِسی سال ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے میں ایران کے فوجی جنرل ہلاک ہوئے، جن میں جنرل زاہدی جیسے مشہور فوجی بھی شامل تھے۔ اسے ایران نے اپنی سالمیت پر حملہ قرار دیا اور اسرائیل پر2000 میزائلوں اور ڈرونز سے اپنا پہلا براہِ راست حملہ کیا۔ ویسے شام پر اسرائیلی حملے پہلی بار نہیں ہوئے تھے، وہ وقتاً فوقتاً اِس طرح کی کارروائیاں کرتا رہتا ہے اور اسد حکومت کبھی ان کا کوئی جواب نہیں دے سکی۔ یہ حملے عموماً ایرانی تنصیبات یا مفادات ہی پر کیے جاتے رہے، جو شام میں موجود تھے۔

اِسی سلسلے کی ایک کڑی عراق میں جنرل سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت تھی، جو ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ پالیسی کے معمار اور اپنے مُلک کے دوسرے طاقت وَر ترین شخص مانے جاتے تھے۔ اسرائیل نے اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اسماعیل ہانیہ، حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار جیسے رہنماؤں کو شہید کر کے ایرانی اتحادی تنظیموں کو گہرا نقصان پہنچایا۔

حزب اللہ اور شامی فوج لبنان کے بحران میں فوجی مداخلت کرتے رہے ہیں۔ شامی فوج تو وہاں دس سال سے زیادہ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ پیجر حملوں اور حسن نصراللہ کے مارے جانے کے بعد حزب اللہ کے لیے کوئی بڑی پیش قدمی ممکن نہیں رہی، اِسی لیے لبنان، اسرائیل معاہدہ ہوا، جس میں پہلی بار حزب اللہ کا کردار بہت گھٹ گیا ہے۔

یہی وہ موقع تھا، جس کا غالباً شامی باغیوں کو انتظار تھا۔اُنہوں نے سب کو حیرت زدہ کرتے ہوئے فوجی پیش قدمی کی اور 27 نومبر کو شام کے دوسرے اہم اور بڑے شہر حلب پر قبضہ کر لیا۔ یوں شامی جنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔ جیسا کہ ہم نے بتایا تھا کہ یہ خانہ جنگی ختم نہیں ہوئی تھی، صرف شہ سُرخیوں سے ہٹ گئی تھی۔ اسد حکومت کا بڑے شہروں اور مرکزی شاہ راہوں پر قبضہ تھا، لیکن دُور دراز کے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گروپس موجود تھے۔ ان میں ادلیب کا علاقہ بھی شامل ہے، جہاں سے نکل کر’’حیات التحریر شام‘‘ نامی گروپ نے حلب پر قبضہ کیا اور پھر دمشق تک جا پہنچی۔

ادلیب کا صوبہ تُرکیہ کی سرحد سے منسلک ہے۔ حیات التحریر گروپ نے 2016ء میں داعش اور دوسرے انتہا پسند گروپس سے اپنا راستہ الگ کر لیا تھا، جس کے بعد ان کے بیانیے میں انتہا پسندی یا شدّت پسندی کی جگہ میانہ روی آنے لگی، شاید اسی لیے وہ عوام میں زیادہ قابلِ قبول ہوں۔ 

اس کے سربراہ ابو محمّد جولانی ہیں، جنھیں عراق اور شام کی جنگوں کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اُن کی جانب سے رواداری پر مبنی کئی بیانات سامنے آئے، جن سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ عوامی حمایت کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔تاہم، اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کی لسٹ میں وہ اب بھی دہشت گرد ہی کے طور پر شامل ہیں۔

شام کے شہری شدّت پسندی کے خلاف ہیں، اِسی لیے داعش کے آنے کے بعد اُنہوں نے تمام تر اختلافات کے باوجود بشار الاسد کو قبول کرلیا۔ شمالی شام میں، جہاں کُردوں کی اکثریت ہے،900امریکی فوجی تعیّنات ہیں، جو تُرکیہ کے احتجاج کے باوجود کُردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ تُرکیہ نے شروع ہی سے شامی اپوزیشن کی حمایت کی اور تیس لاکھ شامیوں کو اپنے مُلک میں جگہ بھی دی، جو جنگ میں بے گھر ہوئے تھے۔

تُرکیہ، سعودی عرب، مصر، اردن، یواے ای اور قطر سب ایک ہی پیج پر تھے اور اُن کا کہنا تھا کہ شامی عوام کو ووٹ دینے کا موقع دیا جائے۔ 2015ء میں جنیوا وَن اور ٹو میں اقوامِ متحدہ کی کاوشوں کے نتیجے میں ایک روڈ میپ منظور کیا گیا، جسے بشار حکومت نے بھی تسلیم کیا تھا۔ اُس روڈ میپ کے مطابق، شام میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی انتخابات ہونے تھے اور پھر منتخب نمائندوں کو حکومت سونپی جانی تھی۔

ظاہر ہے کہ اِس کا مطلب بشار خاندان کے اقتدار کا خاتمہ تھا، اِسی لیے اُس نے روس، ایران اور دوسری طاقت وَر ملیشیاز سے مل کر مخالفین کو غیر مؤثر کردیا اور اپنا اقتدار بحال رکھا۔ حافظ الاسد نے، جو بشار الاسد کے والد تھے، فوجی طاقت کے ذریعے تختہ اُلٹنے کے بعد تیس سال شام پر حُکم رانی کی، جب کہ اُن کے فرزند، بشار الاسد بھی بائیس سال اقتدار میں رہے۔

شام میں دوبارہ جنگ سے عالمی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں کہ جسے وہ بھول بیٹھے تھے، وہ ایشو اب بھی زندہ ہے۔ تارکینِ وطن کا مسئلہ، جس سے یورپ میں قوم پرستی کی لہر توانا ہوئی، اِسی شامی خانہ جنگی سے شروع ہوئی تھی، جب شامی مہاجرین نے قتلِ عام سے بچنے کے لیے بحرِ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونا شروع کیا۔

اُس زمانے میں روز خبریں آتیں کہ اِتنے افراد ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ یہ اقوامِ متحدہ اور یورپ کے لیے بڑا سنجیدہ مسئلہ بن گیا اور اسی نے ہیومن ٹریفکنگ کو باقاعدہ ایک عالمی تجارت بنا دیا۔ شام کے ساتھ پاکستان، افغانستان، عراق اور دوسرے مسلم ممالک کے لوگ بھی اس کا شکار بنے۔ کتنے ہی پاکستانی اس غیر قانونی سفر کے نتیجے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔

یورپ کے بڑے بڑے رہنما، جن میں چانسلر مرکل بھی شامل ہیں، شامی مہاجرین کو اپنے مُلکوں میں بسانے کی حمایت میں اقتدار سے نکالے گئے۔اِن تارکینِ وطن کے گرد گھومنے والی نفرت اور تفریق کی سیاست نے یورپ سے لے کر امریکا تک نت نئے مسائل کھڑے کردیئے۔ اِس پس منظر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شامی اپوزیشن کی پیش قدمی کا دوبارہ شروع ہونا کوئی معمولی معاملہ نہیں تھا۔

ماضی میں اِس کے دُور رَس اثرات مرتّب ہوئے اور اب بھی خطّہ مختلف مسائل کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ شام میں حکومت کی تبدیلی اِس بات کا بھی اشارہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسائل اور تنازعات ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور انھیں وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ مسائل کے حل کے لیے ایران اور عرب ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، ورنہ کرچیاں کہاں کہاں تک جا سکتی ہیں اور کس کس کو زخمی کر سکتی ہیں، یہ کہنا قبل از وقت تو ہوگا، لیکن اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔