شام میں 54برس پر محیط سیاہ رات کا خاتمہ بالخیر ہوگیا ۔ یہ انقلاب کس طرح وقوع پذیر ہوا؟ یہاں نصف صدی سے جاری تحریک مزاحمت عرب سپرنگ سے ہوتے ہوئے کن مراحل سے گزری؟ ظاہر ہے اس کی طویل داستان ہے اور آج دنیا کیلئے اس سے بھی اہم یہ سوال ہے کہ شام میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ کیا شام موجودہ انتشاری حالات میں اپنی علاقائی سالمیت قائم رکھ سکے گا؟ یہ نیا انقلاب کیا شامی عوام کیلئے امن و سلامتی اور ترقی خوشحالی کا پیغام لے کر آئے گا یا مزید بربادی، خونریزی اور خانہ جنگی پر منتج ہو گا؟ اس انقلاب کے پس پشت کون سی قوتیں کارفرما ہیں؟ نئی باغی قیادت کا اسرائیل کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ کیا خود کش حملوں یا دہشت گردی جیسی کارروائیوں کی نئی شروعات ہوگی یا امریکی تعاون سے امن و سلامتی کی کوئی نئی صورت نکلے گی؟ بہت سے احباب غلط طور پر اس نوع کے جائزے پیش فرما رہے ہیں کہ شام میں اتنی بڑی تبدیلی قطعی حیران کن اور غیر متوقع تھی درویش کیلئے یہ جو کچھ ہوا ہے یہ سب زمینی حقائق کی عین مطابقت میں ہے۔ طیب اردوان ایسے معاملات میں کبھی گرجاہےاور کیا اسے برسنا چاہیے بھی؟ اس حوالے سے اس نے بڑی حد تک درست اقدام اٹھایا ہے، درویش کو 2015ءمیں استنبول میں شامی پناہ گزینوں کےمسائل جاننے کا موقع ملا۔ یہ لوگ 2011 کی عرب سپرنگ کے نتیجے میں ہونے والی مزاحمت اور اسدحکومت کے استبداد پر اپنا ملک چھوڑنے اور یہاں پناہ گزین بننے پر مجبور ہوئے۔ آج جب بشارالاسد کے جبر کے باغیوں نے شام پر قبضہ کیا ہے تو دمشق کی نواحی جیلوں سے ایسی مشینیں برآمد ہوئی ہیں جن سے اسد استبداد کے باغیوں کا مثلہ کیا جاتا تھا۔ 1970 سے سن 2000 تک فوجی ڈکٹیٹر حافظ الاسد کے تیس سالہ ظلم و ستم کی بہت سی کہانیاں بیان کی جاتی تھیں مگر جب جون 2000ء میں لندن سے پڑھ کر آنے والے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر بشار الاسدنے اقتدار سنبھالا تو لوگوں کی توقعات تھیں کہ وہ اپنے باپ جیسا نہیں ہوگا مگر وہ باپ کا باپ نکلا۔ داعش کے علاوہ القاعدہ کے النصرہ فرنٹ کی کارروائیوں کو اس پس منظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے بلا شبہ ان گروپوں نے بھی دہشت گردی کی لیکن عوام سینڈوچ بنے رہے، کتنی بڑی شامی آبادی ملک بدر ہوئی مزاحمتی تحریک کو جس ظالمانہ طور پر کچلا گیا اس سے عوامی غم و غصے کا ادراک کیا جا سکتا ہے شامی عوام مناسب موقع کی تلاش میں تھے شام کی آبادی مذہبی طور پر 80فیصد سے زائد شافعی الفقہ سنی العقیدہ ہے جبکہ علوی شیعہ 10سے 13فیصد ہیں۔ مڈل ایسٹ میں روسی مفادات بھی علوی حکمرانی کو شروع سے تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں حالیہ 10 روزہ مزاحمتی بغاوت کے دوران ابتدا شامی حکومت سے مل کر روسی طیاروں نے باغیوں پر فضائی حملے بھی کیے لیکن عوامی سطح پر اسد رجیم کے خلاف نفرت اس قدر شدید تھی کہ باغی دنوں میں آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ شامی افواج نےان کے خلاف کھڑے ہونے یامزاحمت سے انکار کر دیا۔ باغیوں کی قیادت کرنے والے ’’ہئیت تحریر الشام‘‘ جس کے معنی ہیں ’’تنظیم آزادیء شام‘‘مختلف النوع گروپوں کا مجموعہ ہے جسکی قیادت ماضی میں امریکا کو مطلوب ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں جو 1982میں ریاض سعودی عرب پیدا ہوئے کیونکہ ان کا خاندان وہاں ہجرت کر گیا تھا مگر پھر جلد ہی شام واپسی کی راہ لی اور جولان ہائٹس کے علاقے میں ان کی پرورش ہوئی اصل نام احمد الشرع ہے جولان کے حوالے سے اپنا نام الجولانی اختیار کیا اب پھر اپنے اصل نام پر آنا چاہ رہے ہیں۔ اپنی کامیابی کے بعد انہوں نے دمشق کی تاریخی اموی مسجد میں جو خطاب کیا وہ بڑی حد تک صلح جوئی پر مبنی بہت متوازن ہے۔ دمشق میں سوائے ایرانی سفارت خانے یا حافظ الاسد کے مجسموں کو توڑنے یا ایوان صدر میں لوٹ مار کےکہیں کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔بشارالاسد کے روس فرار کے بعد الجولانی نے ڈمی شامی پرائم منسٹر غازی الجلالی کے ساتھ مفاہمتی رویہ اپناتے ہوئے مستقبل کے سیٹ اپ کو پرامن طور پر طے کرنے کی پالیسی اپنائی ہے، اس طرح شام روایتی خون خرابے سے بڑی حد تک بچ گیا ہے البتہ اس دوران اسرائیل نے شامی اسلحہ اور خطرناک ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں، بفر زون میں فورسز داخل کرنے پر اسے عالمی تنقید کا بھی سامنا ہے اسرائیل اور امریکا کیلئے اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی ہے کہ شام سے روسی و ایرانی اثر کا قطعی خاتمہ ہو چکا ہے اب اگر یہاں باغیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد اسرائیل پر حملے ہوئے تو وہ ان کا ایسے ہی سدباب کریگا جیسے لبنان میں حزب اللہ کا کیا گیا جہاں تک شام کی علاقائی سلامتی کا سوال ہے اسے کرد ایشو کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے کرد ایسی بد نصیب مسلم قوم ہے جو چار ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے ان کی سالمیت کے حوالے سے کسی کو بھی تشویش نہیں۔ امید ہے کہ شام میں ظلم و استبداد کی سیاہ رات ختم ہونے کے بعد صبح کا ذب نہیں صادق طلوع ہوگی۔