• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب بہار کا آغاز تیونس سے ہوا تھا۔ یہاں سے یہ لیبیا، مصر، یمن، شام اور بحرین تک پھیل گئی۔ تیونس میں زین العابدین، مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں معمر قذافی اور یمن میں علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ آج سے ایک دہائی پہلے شام کی جنگ پر ایک کالم لکھا تھا۔ لب لباب اس کا یہ تھا کہ شام میں برسرِ پیکار ہر فریق اپنی جگہ ایک بھیڑیا ہے، جسے جہاد کی شرائط سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ کئی سال لہو بہتا رہے گا۔ بالآخر سب سے زیادہ خونخوار بھیڑیا جیت جائے گا۔ روس کے یوکرین جنگ میں دھنسنے کے بعد یہی ہوا؛ اگرچہ جشن منانے والوں کی آنکھوں پر فرقہ ورانہ تعصب کی عینک دھری ہے۔

اخوان گو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنے والی تنظیم ہے لیکن یاد کراتا چلوں کہ مصر میں حسنی مبارک سے نجات کا انجام کیا نکلا تھا۔ ”انقلاب، انقلاب“ کے نعروں سے پاکستان گونجتا رہا۔ آج کہاں ہیں، مصر کے انقلاب پر جشن منانے والے؟ وہ شام کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ایک دن مگر کہرام برپا ہوگا۔

جشنِ طرب مناؤ گے کہرام کی طرح

شام کی فتح سرآنکھوں پر لیکن اس سے قبل مصر کی فتح سے ہمیں کیا ملا؟

دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو

ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے

آج شام کے حالات کا اگر کوئی سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے چند دنوں میں شام کو جنگی طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ شام میں مجاہدین کی یہ کیسی فتح ہے، دانت نکال کر جس کا کریڈٹ بنجمن نتن یاہو لینے کی کوشش کر رہا ہے۔

شام وہ بدقسمت ملک ہے، جہاں پچھلی ایک دہائی میں القاعدہ اور داعش سے لے کر ایران، روس اور متحارب عرب گروہوں نے انسانیت کے ہی پرخچے اڑا کے رکھ دیے۔ لاکھوں بے کس افراد متحارب گروہوں کی انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بھوک سے بلکتے اورسردی سے ٹھٹھرتے ہوئے بچے اور عورتیں۔ کسی کو ان پر رحم نہیں آیا۔ اس سب کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بشار الاسد اور اس کی افواج میں انسانیت کی کوئی رمق پائی جاتی ہے۔ اس سفاک خاندان کے طویل اقتدار کا کوئی ادنیٰ سا جواز بھی موجود نہ تھا۔

عرب بہار برپا ہوئی تو نیٹو کی صورت میں امریکہ اور یورپ اس پہ ٹوٹ پڑے۔ ہر ملک میں انہوں نے اس انقلاب سے اپنے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مصر اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں غیر ملکی قوتیں کامیاب رہیں۔ انقلاب کیلئے نکلنے والوں کو چھنکنا بھی نہ ملا۔ الٹا کئی ممالک میں مظاہرین بعد میں پچھتائے۔

پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے، زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ عرب بہار سے ہم نے کیا سیکھنا ہے،مشرقی پاکستان سے ہم نہ سیکھ سکے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے پندرہ سال خون کی ندیاں بہا ئیں۔ علیحدگی کے ہنگام جماعتِ اسلامی کے لیڈروں کو پھانسی چڑھانا شروع کیا، علیحدگی کے وقت جن کی عمریں پندرہ سولہ برس تک تھیں۔ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ انجام اگر خود شیخ حسینہ واجد کے قتل پر منتج ہوا تو حیرت نہ ہو گی۔ دنیا کے ہر ملک کا ڈکٹیٹر یہ سمجھتا ہے کہ حالات کو وہ کنٹرول کر لے گا۔ ایک دن پھر اسے شیخ حسینہ واجد یا بشار الاسد کی طرح بھاگ جانا یا موت کے گھاٹ اترجانا ہوتا ہے۔

اس سے پہلے سری لنکا میں کیا ہوا۔ عوامی بے چینی بالآخر ایک بم کی طرح پھٹتی ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ افغانستان میں جب امریکی شکست کا جشن منایا جا رہا تھا، عرض کیا:امریکی سبکی پر جشن ضرور منائیے، مگر اس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ مسلمانوں کو کو ئی تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ایک بار جا کر افغانستان کا حال ضرور دیکھیں۔ نائن الیون کے بعد ملاعمر نے ہر حال میں اسامہ بن لادن کے دفاع کا عزم کیوں کیا، جب کہ دہشت گردوں کی تمام خصوصیات القاعدہ میں بدرجہ ء اتم پائی جاتی تھیں۔ بعد ازاں انہی میں سے کئی جنگجو داعش میں شامل ہوئے اور اپنے القاعدہ اور طالبان بھائیوں کا گلا کاٹنے لگے۔ اس پر ایک جہادی نے یہ لکھا کہ جن جہادیوں کو روس اور امریکہ شکست نہ دے سکے،انہیں داعش کے فتنے نے نگل لیا۔ خوں ریزی کی جسے لت لگ جائے، وہ کیا جانے کہ رسالت مآب ﷺ کی طرف سے بیان کر دہ جہاد کی شرائط کیا ہیں۔ بعد ازاں طالبان نے امریکہ کے حضور تسلیم کیا کہ القاعدہ کو اپنے ملک میں وہ ٹھکانے بنانے نہ دیں گے۔

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

جہاں تک میں سمجھتا ہوں، پاکستان پہ مسلسل ایک مستحکم قبضہ برقرار رکھنے والوں کے سامنے مصر ماڈل ہے۔ کیا وہ اس میں کامیاب ہوں گے، امکان بہت کم ہے۔سری لنکا، بنگلہ دیش اور نہ مصر، پاکستان میں کسی ملک کا ماڈل فٹ نہیں ہوسکتا۔ ہر ملک میں احتجاجی قوتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں مزاحمت عمران خان کر رہے ہیں۔

بہرحال ہر ملک کا اپنا ایک الگ ماڈل ہوتا ہے۔ پاکستان میں کیا ہوگا؟ کیا تابہ ابد طاقتوروں کا کنٹرول باقی رہے گا یا مظاہرین سب کچھ بہا لے جائیں گے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ آگ اور خون کا وہ کھیل ہے، جسے آپ شروع تو کر سکتے ہیں، ختم یہ اپنی مرضی سے ہوتا ہے۔ جہاں تک دلوں میں پکتی نفرت کی فصل ہے تو وہ پوری طرح اگ چکی۔ آگے دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ شام کا جشن منانے والوں کوبہرحال ایک ذرا تامل سے کام لینا چاہئے۔

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل

کل نہ پہچان سکے گی گلِ تر کی صورت

تازہ ترین