• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر شروع ہوچُکا ہے۔ اِس کا ہر گزرتا دن جذبات و احساسات کی دُنیا میں مچی ہل چل میں اضافہ کردیتا ہے۔ وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا دُکھ، کچھ پانے، حاصل کرنے کی خوشی اور کچھ نہ کرپانے کی چُبھن دسمبر ہی کا خاصّہ ہے۔ دُنیا کے بیش تر حصّوں میں اس ماہ موسم سرد، دن مختصر اور راتیں طویل ہوتی ہیں۔ 

یہ تبدیلی خالقِ کائنات کی اس دُنیا میں تنوّع پیدا کر دیتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال بھر کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں طاری ہونے والی تھکن اُتارنے کے لیے ہمیں طویل راتوں کی نعمت عطا کی ہے۔ ماہِ آخر میں سورج بھی شاید آرام کی غرض سے جلدی اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ جاتا ہے اور صُبح اُس کی بھی آنکھ دیر سے کُھلتی ہے اور پھرطلوع ہونے کے بعد بھی شاید نیند ہی میں ڈوبا رہتا ہے۔ جب کہ شام کی چائے پیتے ہی رات کے رُتھ پر سوار ہو کر ’’الوداع‘‘ کہہ ڈالتا ہے۔

انسان کی زندگی مہ وسال کی گردش سے بندھی ہے اور اِسی گردش ہی میں اس کی عُمر بڑھتی یا شاید گھٹتی چلی جاتی ہے۔ یہ سفر بچپن سے شروع ہوکر بڑھاپے پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کبھی یہ سفر طویل ہوجاتا ہے اور کبھی اتنا مختصر کہ اچانک واپسی پیچھے رہ جانے والوں کو پچھاڑیں پرمجبور کردیتی ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ 

اِس دُنیا میں آنے کے بعد قدرت ہمیں ایک معیّنہ مدّت تک زندگی گزارنے کی مہلت دیتی ہے، البتہ اِس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اِسے نیکیاں کرتےگزارتے ہیں یا لہو و لعب کی نذر کردیتے ہیں۔ یوں تو زندگی، برائے بندگی ہی ہونی چاہیے، لیکن خاص طور پر جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ اب اُس کی واپسی کا وقت قریب آن پہنچا ہے، تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے ربّ کے حضور پیش ہونے کی تیاری بھی کرلے۔

البتہ جنہیں جینے کا ایک اور برس مل گیا ہے، تو وہ اِسے غنیمت جانیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جابجا زندگی کی حقیقت اور اُسے گزارنے کاطریقہ بتلایاہے۔بالخصوص ’’سورۂ عصر‘‘ میں مختصر الفاظ میں ایک کام یاب انسان کے اوصاف بتائے گئے ہیں۔ یعنی ایمان کی دولت، نیک اعمال کاخزانہ، اپنے گردو پیش میں بسنے والوں تک خیر وسلامتی کا پیغام پہنچانا، کسی گرتے ہوئے کو تھامنا اور لڑکھڑاتے قدموں کو صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کا سبق دینا ہی نجات کی کُنجی اور آخرت میں کام یابی کی کلید ہے۔ 

انسانیت کے محسنِ اعظم نبیٔ آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے دُنیا ہی کو مطلوبِ محض بنانے سے منع فرمایا اور بارہا اس بات کی تاکید کی کہ’’اس دُنیا میں مسافر کی طرح رہو، آخرت کا زادِ راہ سمیٹتے رہو اور غافلوں کی سی زندگی نہ گزارو۔‘‘

بلاشبہ، زندگی کا ہرہرلمحہ قیمتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اچھے اعمال سے اپنی کتابِ زندگی کو خُوب صُورت بنائیں۔ یوں تو ہمیں ہر وقت ہی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، لیکن اس آخری مہینےمیں تو اپنے پورے سال کی کارگزاری کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ہم نے سارا برس ربّ کی نافرمانی کرتے گزارا ہے، تو اِس سیاہ باب کومعافی کے آنسوؤں سے مٹانے کی ہر ممکن سعی کی جائے۔

اور نئے سال کا استقبال ایک نئےعزم، نئے ولولے اور نئے ارادوں سے ہو۔ سال کے اختتام پر ہمیں اس بات کا بھی پختہ عزم کرنا چاہیے کہ نئے برس میں ہم اپنے خالق سے اپنا تعلق مضبوط کریں گے۔ گُم راہی سے ہدایت کی طرف لوٹیں گے۔ دنیوی و اُخروی فلاح کے راستے پر گام زن ہوں گے اور اپنے تمام ترمعمولات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کی مطابق ڈھالیں گے۔

گزرنے والا برس ہمیں یہ پیغام دے کر جا رہا ہےکہ ہم نئےسال کااستقبال نئےعزم و حوصلے، نئےارادوں سے کریں۔ ایسی ترجیحات کا تعیّن کریں کہ جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے سُرخ رُو کریں اور روزِ قیامت اعمال کی کتاب ہمارے داہنے ہاتھ میں ہو۔ دسمبر کو الوداع کہتے اورجنوری کا استقبال کرتے ہوئے اپنی کتابِ زیست کے صفحات پر خُوب صُورت اعمال قلم بند کریں۔ اپنے روز وشب، اپنی مصروفیات اور سودوزیاں کا حساب کریں۔ 

یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کا وقت اور توانائیاں کن کاموں میں صَرف ہو رہی ہیں، آپ کی شخصیت میں کون کون سی خامیاں ہیں؟ نیز، عبادات، معاملات، رویّے اور اخلاق میں کس قدر بہتری کی ضرورت ہے؟ اس کےعلاوہ اپنے اہداف طےکریں اوراپنے فرائض کی بحُسن وخُوبی ادائی کے لیے باقاعدہ ایک شیڈول بنائیں۔ یاد رہے کہ ہر ادارہ سال میں ایک بار اپنا آڈٹ ضرور کرواتا ہے۔ 

سو، آپ بھی ماہِ دسمبر میں اپنی پیاری سی زندگی کا آڈٹ کریں۔ اگر آپ نے دُنیا اور آخرت میں کام یابی کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں ترتیب دی، تو آپ کے مہ وسال یوں ہی بےہنگم انداز میں گزرتے رہیں گے، جو سراسر خسارے کا سودا ہے۔ زندگی صرف ایک بارملتی ہے۔ اسے نفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے اطاعتِ خداوندی میں گزاریئےکہ بہرکیف، یہی جینےکا قرینہ ہے۔