پاکستان میں ترقی پسند خیالات کے داعی ایک ایک کرکے بچھڑتے چلے جارہے ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست اور ترقی پسند ادب کی مایۂ ناز شخصیت، سعیدہ گزدر بھی7نومبر 2024ء کو81 برس کی عُمر میں مُلکِ عدم سدھارگئیں۔ وہ 1943ء کو بھارت کے شہر الٰہ آباد میں پیدا ہوئیں۔ قیام ِپاکستان کے بعد کراچی ہجرت کی اور اسی شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ بعدازاں، ایک اعلیٰ پائے کی افسانہ نگار اور شاعرہ کے رُوپ میں اُبھریں۔ اُن کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا، جس میں ڈاکٹرز (پی ایچ ڈی بھی)، فلم ساز، دانش وَر، صحافی اور اساتذہ سب ہی شامل تھے۔
اُن کے بڑے بھائی،1950کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کے سرکردہ رہ نما اور معروف صحافی، بینا سرور کے والد اور پروفیسر ذکیہ سرور کے شوہر تھے، جب کہ سعیدہ کے شوہر مشتاق گزدر، معروف دانش وَر، ترقی پسند سیاست کے سرگرم کارکن، فلم ساز و فلمی مو ٔ رخ تھے۔ دُبلی پتلی، گندمی رنگت کی حامل، مدہم لہجے میں گفتگو کرنے والی سعیدہ گزدر کی تخلیقی صلاحیتیں اُن کے فلم اسکرپٹس میں بھی نظر آتی تھیں اور شاعری اور افسانوں میں بھی۔
انھوں نے1970ء کے عشرے میں اُردو کے نام وَر ترقی پسند صحافی اور ادیب سبطِ حسن کے ساتھ مل کر کراچی سے ایک ماہانہ ادبی رسالہ ’’پاکستانی ادب‘‘ جاری کیا، جس کے ’’امیر خسرو نمبر‘‘ اور امریکی تحریروں پر مشتمل خاص شماروں نے مقبولیت کی سَند حاصل کی۔
مزاحمتی ادب کی تخلیق میں انھوں نے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جب دیگر تخلیق کار علامتی انداز اپنارہے تھے، انھوں نے خم ٹھونک کر لکھا اور خوب لکھا۔ سعیدہ ایک اچھی مترجم بھی تھیں، اُنھوں نے عالمی ادب کے کئی شاہ کار تراجم اپنی وراثت میں چھوڑے۔
بنگالی مصنّف، شہید اللہ قیصر تقسیمِ ہند سے قبل مشرقی بنگال اور پھر مشرقی پاکستان میں جمہوری جدوجہد کےحوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔1958ء میں وہ قید کرلیے گئے اور پسِ زنداں انہوں نے 1962ء میں ناول ’’سارنگ بو‘‘ لکھا، جسے سعیدہ گزدر نے ’’ملّاح کی بیوی‘‘ کے عنوان سے اُردو میں منتقل کیا، تو اُسے بہت سراہا گیا۔ ’’ملاح کی بیوی‘‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے، جو اپنے خاوند کی سمندر سے واپسی کا انتظار کرتی ہےاور اس انتظار میں کئی برس گزر جاتے ہیں۔
اُس دوران وہ اپنی عزت و آبرو کی مکمل حفاظت کرتی ہے، مگر اُس کا خاوند واپس آکر اس پر آبرو باختہ ہونے کا الزام دھر دیتا ہے۔ ناول کے اختتام میں اس ظلم و ناانصافی پرقدرت اس طرح انصاف کرتی ہے کہ سیلاب کی لہریں اُن کے گھروں اور دیہات کو تباہ و برباد کردیتی ہیں۔ بلاشبہ، سعیدہ گزدر نےاس ناول کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ اُن کے الفاظ کا چناؤ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں وہاں ہونے والی ناانصافیوں اور جبر و استبداد کا پورا ادراک تھا۔
سعیدہ گزدر نے1970ء اور 1980ءکے عشروں میں کراچی میں بائیں بازو کی سیاست میں بھرپور حصّہ لیا اور ترقی پسند ادبی حلقوں کے ساتھ مصروفِ عمل رہیں، جب جنرل ضیاء الحق1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد اقتدارپر قابض ہوئے،توسعیدہ گزدر جمہوری جدوجہد کرنے والوں کی صفِ اوّل میں تھیں، جب کہ اُن کے شوہر، مشتاق گزدر بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعےآمریت کا سیاہ پردہ چاک کررہے تھے۔
سعیدہ نے1979ء میں اپنے شوہرکی فلم’’They Are Killing the Horse‘‘( وہ گھوڑوں کو قتل کررہے ہیں) کا اسکرپٹ بھی تحریر کیا۔ اس دستاویزی فلم میں ایک ایسی جوان لڑکی کی کہانی پیش کی گئی تھی، جس کے جذبات بے دردی سے کچلے گئے۔ مذکورہ فلم میں مشتاق اور سعیدہ نے اپنا تخلیقی فن استعمال کرتے ہوئے خواتین پر ہونے والے سماجی جبر کو واضح کیا۔ نیز، صرف آدھے گھنٹے کی اس فلم میں آمریت کے خلاف بھی بڑا واضح پیغام دیا گیا۔ ’’آگ گلستان نہ بنی‘‘ سعیدہ کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا، جو 1980ءمیں شائع ہوا۔
گرچہ اُس وقت کی مارشل لا حکومت نے کتاب پر پابندی عائد کردی تھی، تاہم1985ء میں جونیجو حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعد یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ بعدازاں، 1995ء میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے عرصہ اقتدار کے دوران ’’پاکستان اکادمی ادبیات ‘‘نے مزاحمتی ادب کا خاص شمارہ شائع کیا، تو اُس میں سعیدہ گزدر کا ایک افسانہ ’’کوئل اور جنرل‘‘ بھی شامل ہوا، جس کے پیش لفظ میں بتایا گیا کہ اس کتاب پر پابندی کیوں لگی۔ مذکورہ افسانے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ایک جنرل اور اس کی بیوی ایک اسکول کی تقریب میں جانے کی تیاری کررہے ہیں، جہاں جنرل صاحب مہمانِ خصوصی ہیں۔
اسکول کا عملہ بڑا مسرور ہے کہ اتنی بڑی شخصیت اُن کی تقریب میں تشریف لارہی ہے۔ لڑکیاں مارچ پاسٹ کررہی تھیں۔ ’’لیفٹ رائٹ، لیفٹ رائٹ، لیفٹ لیفٹ لیفٹ.....‘‘کہ آج جنرل نے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں اور طالب علموں کی سزاؤں کے فیصلوں کی توثیق کی تھی۔دراصل سعیدہ گزدر نے ہماری تاریخ کے ان ہول ناک واقعات و سانحات پر کہانیاں رقم کیں، جن پر لکھنا آسان نہ تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتیں، تو ایسے بہت سے حالات و واقعات ’’غیر سیاسی ادب‘‘ کی ڈھیر میں کہیں گُم ہوجاتے۔
سعیدہ گزدر کے افسانے صرف سیاست و جبر ہی کے ارد گرد نہیں گھومتے تھے، بلکہ کچھ افسانے ناسٹلجیاسے بھی بھرپور ہیں اور تقسيم سے قبل کے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔ اُن کے افسانے ’’ہندوستانی،پاکستانی‘‘ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، جو لندن سے شروع ہوتی ہے، جہاں ایک پاکستانی مرد، احمد اور ایک بھارتی عورت نجمہ طویل عرصے بعد ملتے ہیں۔ بہت سال پہلے انہوں نے لندن میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی تھی اور اب وہ اپنے بیتے ہوئے دن یاد کرتے ہیں، جب وہ لندن میں زیرِ تعلیم تھے۔ پاکستان نیا نیا معرضِ وجود میں آیا تھا اور احمد، جو بھارت سے لندن آیا تھا، اُس کا خاندان پاکستان ہجرت کرچکا تھا۔
احمد کو کراچی یونی ورسٹی میں ملازمت کی پیش کش ہوچکی تھی، مگر نجمہ اُسے واپس بھارت لے جانا چاہتی تھی۔ اُن ہی دنوں وہ ریڈیو پر خبر سنتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی صورتِ حال بہت نازک ہے اور ہر طرف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں، لیکن اس کے باوجود احمد چاہتا ہے کہ نجمہ اُس کے ساتھ پاکستان چلے۔ پھر احمد اپنے تصوّرات میں کھو جاتا ہے کہ چار سال قبل جب وہ بمبئی سے لندن گیا تھا، تو اس وقت وہ ہندوستانی شہری تھا، مگر اب وہ ایک نئے مُلک کی بندرگاہ کراچی پر اُترنے والا تھا۔
کہانی میں آگے چل کر بتایا جاتا ہے کہ کراچی یونی ورسٹی میں ملازمت کے بعد احمد پر سب سے پہلا اعتراض جو کیا گیا، وہ یہ تھا کہ وہ ’’آداب‘‘ کیوں کہتا ہے، سلام کیوں نہیں کرتا۔‘‘احمد ایک روشن خیال، ترقی پسند استاد تھا، جسے ذہین طلباء و طالبات کو پڑھانے میں مزہ آتا تھا۔ مگرجب وہ جامعہ کراچی کے کتب خانے کے لیے مزید کتابیں منگوانا چاہتا ہے، تو وائس چانسلر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سب ’’کمیونسٹ پروپیگنڈے‘‘ پر مبنی کتابیں ہیں۔ احمد پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی کلاس میں کارل مارکس کے بہت حوالے دیتا ہے اور روسی انقلاب اور انقلابِ فرانس کی باتیں کرتا ہے۔
تب احمد کو محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی تعلیمی ادارے سے زیادہ کوئی جاسوسی ادارہ ہے، جہاں متبادل خیالات کی کوئی گنجائش نہیں۔ وائس چانسلر کا بھی اصرار ہے کہ صرف اسلامی نظریات اور نظریۂ پاکستان ہی کی تعلیم دی جائے۔ جواباً احمد کہتا ہے کہ اس طرح تو یونی ورسٹی ایک مدرسے کی شکل اختیار کرلے گی، جامعات میں مکالمے کا ماحول نہیں ہوگا، تو طلبہ کے ذہنوں کو قفل لگ جائے گا۔
جب کہ وائس چانسلر کے دفتر کی دیوار پر ایک بڑی تصویر آویزاں تھی، جس میں جنرل ایوب خان کو اعزازی شیڈپیش کی جارہی تھی۔ بالآخر احمد مُلک چھوڑنے کا فیصلہ کرکے ایک بین الاقوامی ادارے میں ملازمت شروع کردیتا ہے۔مطلب،’’انتہا پسندی‘‘ کے جس کلچر کا ہم آج رونا رو رہے ہیں، سعیدہ جیسے مصنّفین60,50 کے عشرے میں اس کا ادراک رکھتے تھے۔
سعیدہ گزدر کے ایک اور شاہ کار افسانےکا عنوان ’’آخری منزل‘‘ ہے۔اس افسانے کی کہانی کا آغاز ایک خبر سے ہوتا ہے، جس میں کسی زیرِ تعمیر عمارت کے گرنے سے پانچ مزدوروں کی ہلاکت کی اطلاع دی جاتی ہے۔ ایک اٹھارہ سالہ مزدور کی موت کے سرٹیفکیٹ پر لکھا ہے۔ نام: نامعلوم۔ باپ کا نام : نامعلوم۔ پتا: نامعلوم۔
کہانی آگے بڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دیہی علاقے سے کراچی آنے والے ایک میاں بیوی کو سڑک پر ایک گُم شدہ بچّہ روتا ہوا ملتا ہے، جسے وہ اپنے گاؤں لاکر اور پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، جب اس لے پالک بچّے کا باپ فوت ہوجاتا ہے، تو ماں اُسے اصل کہانی سُنا کر شہر واپس روانہ کرتی ہے کہ اپنے اصل باپ کو تلاش کرو۔اسی طرح ’’آگ گلستاں نہ بنی‘‘ بھی ایک بہت اچھا افسانہ ہے، اس کا آغاز، سومیرین تہذیب کی’’داستانِ گیل گمش‘‘ سےہوتا ہے، جس میں انکیدو نامی ایک کردار ظلم و جبر کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
سعیدہ گزدر اس افسانے میں بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک طالب علم لڑکی کا دوست جمہوریت کے لیے لڑتا ہے اور اب اُس لڑکی کو تفتیشی افسروں کا سامنا ہے، جو اس سے ، اُس کے دوست سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں۔ افسران معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آمریت کے خلاف لڑنے والے کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں، مگر لڑکی ثابت قدم رہتی ہے اور کچھ نہیں بتاتی۔
لڑکی یاد کرتی ہے کہ وہ دونوں کس طرح ایک لائبریری میں ملے تھے اور اُن کی دوستی پروان چڑھی تھی ۔ اُسی لڑکے نے اپنی دوست کی غیر سیاسی شخصیت کو بتدریج سیاسی شعور دیا ۔جب کہ کہانی کے ایک حصّے میں ایک گدھے کو بُری طرح تشدّد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو گدھا گاڑی پر لدے بھاری بوجھ کو کھینچ نہیں پاتا، تو اُس بے چارے کو مار مار کر اَدھ موا کردیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی کھال سے خون رسنے لگتا ہے۔اس منظر میں ایک ایسی قوم کا علامتی نقشہ کھینچا گیا ہے، جو آمریت کے کوڑوں سے لہو لہان ہے۔ اُن کا ایک اور بہترین افسانہ ’’چڑھاوے کی چادر‘‘ ہے۔
جس میں ایک لڑکی کی شادی ایک عمر رسیدہ شخص سے کردی جاتی ہے اور جب لڑکی حاملہ نہیں ہوپاتی، تو اُسے ایک مزار سے دوسرے مزار لے جایا جاتا ہے اور اُسے بانجھ ہونے کے طعنے بھی دیئے جاتے ہیں۔سعیدہ کے دیگر افسانوں میں ’’دھارا، نیلم، لدتی اور تمغہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں، جب کہ ’’آگ گلستاں نہ بنی‘‘ تو اُن کے افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے، جسے دورِ حاضر کی نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے، مگر افسوس ناک امَریہ ہے کہ پاکستان کے کسی کالج یا اسکول میں شاید ہی یہ کتاب دست یاب ہو۔
1982ء میں ان کی شاعری کا مجموعہ ’’طوق و دار کا موسم‘‘ شائع ہوا،ان کے اگلے مجموعۂ کلام،’’ زنجیر ِروز و شب‘‘ میں ’’صبح ہونے والی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے، جس میں اُس رات کا ذکر ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی دی گئی۔؎ صبح کے دو بجنے والے ہیں.....لیکن رات کا اندھیرا ہے.....شدید حبس اور وحشت بھرا سنّاٹا ہے.....خوابوں میں ڈوبی گہری نیند سے جگانے آئے ہیں.....اُٹھو نہا دھو لو.....اور جو کہنا ہے کہہ ڈالو.....مالک تو گواہ ہے.....یہ سزا نہیں، قتل ہے۔
سعیدہ گزدربظاہر تو 7نومبر کو دنیا سے رخصت ہوئیں، لیکن وہ ایک طویل عرصے سے صاحبِ فراش تھیں۔ گرچہ خاموشی اُن کا مسلک نہ تھا۔ انھوں نے قہر و جبر کے خلاف آواز ہی نہیں، ایک چیخ بلند کی۔ ایسی چیخ، جس نے بارہا ’’قصرِشاہی‘‘ میں گونج پیدا کی، ’’ایوانِ عدل‘‘ کی زنجیر کو لرزا ڈالا۔ اور آج بھی اُن کی معرکتہ الآرا تحریریں، شاعری ’’مزاحمتی ادب‘‘ کا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔ ایسا اثاثہ، جو اُنھیں کبھی گم نہ ہونے دے گا۔