مَیں پاک پتن، مظفّرگڑھ اور بھلوال میں اے ایس پی رہنے کے بعد 1989ء میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ’’پُلس کپتان‘‘ بن گیا۔ ایس پی بننے کے بعد چیف منسٹر کے اسٹاف آفیسر نذیر سعید نے(جو میرا جی سی کا کلاس فیلو اور دوست تھا) میرا ایس پی اوکاڑہ کے لیے پروپوزل بنایا، مگر وہاں کے ممبرانِ اسمبلی نےمخالفت کی،تو وہاں تعیناتی نہ ہو سکی، نذیرنےمجھ سےدوسری چوائس پوچھی، تومَیں نےکہا۔ ’’سیاست دان مجھے کسی ضلعے کا سربراہ تو لگنےنہیں دیں گے، لہٰذا اِس آپشن کوچھوڑدیں۔
راول پنڈی میں ایس پی ہیڈ کوارٹر کی اسامی خالی ہے، وہاں تعیّناتی ہوجائے، تو مَیں مطمئن ہوں۔‘‘ وہاں میری دل چسپی اِس لیے بھی تھی کہ اُس وقت میرے دونوں بھائی پنڈی میں تعینات تھے۔ ڈاکٹر نثار چیمہ نئے نئے ہولی فیملی اسپتال میں تعینات ہوئے تھے اور بڑے بھائی افتخار احمد چیمہ صاحب اسپیشل جج، اینٹی کرپشن تھے۔ چند روز بعد میری راول پنڈی تعیناتی ہوگئی اور مَیں سیدھا پولیس کلب پہنچ گیا۔
عملے کو پہلے سے اطلاع مل چُکی تھی، لہٰذا کلب میں فوراً کمرا مل گیا۔ راول پنڈی میں اُس وقت ایس ایس پی، شیخ اسراراحمد (مرحوم) تھے، میرے علاوہ کیپٹن زبیر ایس پی ٹریفک تھا۔ راول پنڈی شہرمیں کرائم کنٹرول اورامن وامان کی ذمّےداری مجھے دی گئی اور دیہی علاقے کی کیپٹن زبیرکے سپرد ہوئی۔
پچھلےدنوں پرانے البم سے ایک تصویر ملی، جس میں راول پنڈی کے ایم این اے شیخ رشید احمد 1989ء میں راقم کی دعوت پر پولیس لائنز راول پنڈی میں پولیس اور شہریوں کی مشترکہ افطارپارٹی میں کچھ دوسرےمعززینِ شہر کے ساتھ پہلی قطارمیں نظرآرہے ہیں۔ (تفصیلی ذکر آگےہوگا)راقم، منتحب ممبرز کو ہمیشہ عزت دیتا رہا ہے، مگر پولیس افسروں کی پوسٹنگ، ٹرانسفر یا کیسزکی تفتیش میں اُن کی دخل اندازی کبھی قبول نہیں کی۔ اُس وقت دوسرے بڑے شہروں کی طرح راول پنڈی میں بھی منشیات فروشی عروج پرتھی، ایک علاقہ ڈالڈا سرائے تو ’’راول پنڈی کا سہراب گوٹھ‘‘ کہلاتا تھا۔
مَیں نےمکمل معلومات اکٹھی کر کے ایک رات پولیس لائنز سے نئے تربیت یافتہ کمانڈوز ساتھ لیے اور مقامی تھانے کو اطلاع دیئے بغیر آپریشن شروع کردیا، جو تین راتیں اور تین دن جاری رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پورے شہر میں ہیروئن یا نشے کی ایک پُڑی، ایک گولی بھی ملنا بند ہوگئی۔ نشئی (addicts) نالیوں میں گرنے لگے، جنہیں کارپوریشن کے ملازم اُٹھا اُٹھا کراسپتال پہنچاتے رہے۔ جہاں مَیں نے ایم ایس صاحبان سےکہہ کر ان کے لیے اسپیشل وارڈز قائم کروادیئے۔
منشیات کے خلاف میرا ہدف صرف یہ رہا کہ drugs کی دست یابی زیرو ہوجائے۔ اُس وقت راول پنڈی کے ممبرانِ اسمبلی میں چوہدری نثارعلی اور شیخ رشید دونوں وزیرِاعلیٰ پنجاب، میاں نواز شریف کےقریب سمجھے جاتے تھے۔ چوہدری نثارخُود تو ایمان دار تھے، مگر پولیس اور انتظامیہ سے متعلق دونوں ہی کی سوچ ایک جیسی تھی، مطلب پولیس کوری فارم کرنے کے بجائے، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ انتظامیہ اور دیگر سِول سروسز سے متعلق بھی نظریہ یہی تھا۔ مَری سے شاہد خاقان عباسی ایم این اے تھے، جو بڑے سیدھے سادے اورکسی حد تک شرمیلےسےتھے۔ اُنہوں نے کبھی پولیس کے کام میں دخل دیا، نہ ہی کبھی کسی ملازم کی پوسٹنگ/ ٹرانسفرکی سفارش کی۔
پنجاب اسمبلی کے ممبرز میں کرنل یامین نمازی، پرہیزگار آدمی اور جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر افضل اعزاز بھی دیانت دار، باکردارشخص تھے۔ بس، اصل تُوتی شیخ رشید ہی کابولتا تھا۔ اُنہیں اپنے تین اوصاف کے سبب مختلف لیڈرز کا قُرب حاصل رہا۔ اوّل، اُن کا گلاَ، جس سے ٹَلّی جیسی گونجتی آواز نِکلتی۔ دوم، اُن کی عوامی یا بازاری زبان، جس کا وہ حُکم رانوں کی خوشامد اور سیاسی مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی کےلیے بےلگام استعمال کرتے۔
سوم، عوامی سیاست کی سوجھ بُوجھ۔ (ویسے سیاسی بقاء کے لیےتواُن کے اول الذکراوصاف ہی کافی تھےکہ حُکم رانوں کے کچھ کٹّر مخالف ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کےخلاف دشنام طرازی کے لیے اُنھیں گونج دار آواز کا حامل کوئی ایسا شخص درکارہوتا ہے، جو بدزبانی میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہو) اُن دِنوں وزیرِاعظم بےنظیر بھٹو اور وزیرِاعلیٰ پنجاب، میاں نواز شریف کے تعلقات سخت کشیدہ تھے، لہٰذا شیخ صاحب کی بدکلامی نے اُن کے لیے سیڑھی کا کام کیا اور وہ پنجاب حکومت کےچہیتے بن گئے کہ وہ ہر جگہ اپنے گلے اور زبان کابےلگام استعمال کرتے تھے۔ آج کل بھی مختلف پارٹیزکےکچھ نوجوان ٹی وی چینلز پر اُن کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد ائیرپورٹ (پرانا انٹرنیشنل) چوں کہ راول پنڈی کی انتظامی حدود میں واقع تھا، اِس لیے کسی بھی وی وی آئی پی موومنٹ کی سیکیوریٹی کے لیے ائیرپورٹ پر موجودگی بھی ہمارے فرائض میں شامل تھی۔ سو، ائیرپورٹ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وی وی آئی پیز کی آمدورفت کے موقعے پر کمشنر اور ڈی آئی جی بھی ائیر پورٹ آتےتھے۔ سعیدمہدی صاحب کمشنر تھے، وہ عمدہ شخصیت کے مالک اور خاصے خوش گفتار تھے، تو اُن سے ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں بڑی اچھی گپ شپ رہتی۔
مجھے یاد ہے، ایک باربھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی پاکستان کے دورے پر آئے، جنہیں اُس وقت کی وزیرِاعظم محترمہ بےنظیر بھٹو نے ریسیو کیا۔ گارڈ آف آنرکے بعدجب وہ کار میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگے، تو وہاں موجود تمام باوردی افسران نے اُنہیں سلیوٹ کیا۔ مَیں بھی ساتھ کھڑا تھا، مگرمیرے دِل میں بھارت کی جارحیّت سے وطنِ عزیز کا مشرقی بازو کٹنے کی ایسی ٹِیس اُٹھی کہ سلیوٹ کے لیے ہاتھ اُوپرنہ اُٹھ سکا۔
پولیسنگ کے عمل میں شہریوں کی شراکت یقینی بنانا شروع ہی سے میرا طریقۂ کار اور پالیسی کا اہم جُزو رہا ہے۔ سو، راول پنڈی میں بھی وارڈز کی سطح پرکُھلی کچہریاں منعقد کر کے شہریوں سے رابطے کا سلسلہ شروع کیا۔ ہرعوامی اجتماع میں، جہاں عام لوگ منشیات کے خاتمے پر پولیس کی کوششوں کو سراہتے، وہاں یہ بات بھی کرتے کہ شہر میں جُوئے کے اڈے سرِعام چل رہےہیں، جنہیں پولیس کی سرپرستی میسّر ہے۔
کئی لوگوں نےتوکُھل کرکہا کہ بدنام ترین اڈّا مقامی ایم این اے کی سرپرستی میں چل رہا ہے۔ مَیں نے ایس ایچ او کو ہدایات دیں، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، ڈی ایس پی کو بُلا کرحُکم دیا کہ اِن اڈوّں پرریڈ کر کے فوری ختم کرواؤ، مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ پھراچھی شہرت کے حامل ایک دو افسروں نے آکربتایا کہ ’’سَر! ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو تو مقامی ایم این اے ہی نےلگوایا ہے، وہ جُوئے کے اڈے پہ کیسے ریڈ کریں گے؟‘‘
تب مَیں نےدوسری حکمتِ عملی پرسوچنا شروع کیا۔ اِس دوران کئی سینئر افسروں، سوشیالوجی، سائیکالوجی کے ماہرین سے ملاقاتیں کیں توجُوئے کی کئی قباحتیں اورخطرناک اثرات آشکار ہوئے کہ اِسی سے چوری، ڈاکے اور کرپشن کو فروغ مِلتا ہے اور راتوں رات کروڑپتی بننے کی ہوَس میں کئی بدبخت پہلے نقدی، زیور اور پھربیویاں تک جُوئے میں ہارجاتے ہیں۔
چند روزبعد مَیں دفتر میں بیٹھا، پنڈی کے بدنام ترین جُوئےکےاڈّےکوSmash کرنےکا منصوبہ بنارہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب پولیس کے نئے ضلعی سربراہ، ایس ایس پی خواجہ خالد فاروق تھے۔ اُنہوں نے کسی قدر جلدی اور گھبراہٹ میں کہا۔ ’’آپ کو ایک اہم لیٹر بھیجا جا رہا ہے۔ اوپر سے فیصلہ ہوا ہے کہ آپ خُود اِس کی انکوائری کر کے رپورٹ بھجوائیں۔‘‘ مَیں نے خط کا مضمون جاننا چاہا، تو وہ گریزاں تھے۔ لگتا تھا، مضمون کچھ زیادہ ہی ’’حسّاس‘‘ نوعیت کا ہے، جس کے متعلق کسی کارروائی کی ذمّے داری ایس ایس پی خُود نہیں لیناچاہتے۔
چند منٹوں میں خط پہنچ گیا، جس کا مضمون مَیں لفافہ دیکھ کر ہی بھانپ چُکاتھا۔ جی ایچ کیو اور وزارتِ خارجہ کی طرف سے پنجاب حکومت سے کہا گیا تھا کہ ’’شیخ رشید احمد اپنی تقریروں میں اعلان کرتا پِھرتا ہے کہ اُس نے فتحِ جنگ کے قریب کشمیری مجاہدین کے لیے ٹریننگ کیمپس قائم کر رکھے ہیں، جن کے آس پاس ہرطرف مسلحّ سیکیوریٹی گارڈز تعیّنات ہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اگر کسی نے زمینی رستے سے قریب آنے یا فضائی جائزہ لینے کی کوشش کی، تو اُس پر فائرنگ کی جائے گی۔
ایسی خبروں سےعالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن خراب ہورہی ہے۔ پاک آرمی کو بھی اِس کے خطرناک نتائج سے متعلق تشویش ہے۔ حقائق دریافت کر کے بتائیں کہ ایم این اے کے فارم پر کیا ہورہا ہےاورکن لوگوں کو کس نوعیت کی ٹریننگ دی جارہی ہے؟‘‘اخبارات میں شیخ جی کے’’ٹریننگ کیمپ‘‘سے متعلق مسلسل ایسی خبریں چَھپ رہی تھیں،راول پنڈی کےتمام باخبر افراد جانتے تھے کہ1985 ء تک شیخ صاحب کی مالی حالت خاصی پتلی تھی اور وہ موٹر سائیکل پر پِھرتے تھے۔
چند سالوں میں سیاست کی برکت سے بیش قیمت سُوٹ پہننے،سگارپینے اور منہگی گاڑیوں میں گھومنے پِھرنے لگے، جب کہ کئی بنگلوں اور فتحِ جنگ کے قریب زمینوں کے مالک بھی بن گئے۔ اُن کے قریبی ذرائع بتاتے تھے کہ ایم کیو ایم کے سربراہ، الطاف حسین اُن کےآئیڈیل ہیں اور اُن کی خواہش ہےکہ وہ پنڈی کے الطاف حسین بنیں، جس کے کنٹرول میں ایک عسکری ونگ ہواورجس کی ایک کال پر سارا شہر بند ہو جائے۔
بہرحال، شیخ جی کےکیمپ اور ’’ٹریننگ‘‘ سے متعلق حقائق جاننےکے لیے مَیں نےخُود وہاں جانےکافیصلہ کیا۔ اپنا گن مین ساتھ بٹھایا اور اللہ کا نام لےکر فتحِ جنگ روڈ پر شیخ رشید کے فارم کی جانب چل پڑا۔ اللہ پر بھروسے کے علاوہ یہ بھی اعتماد تھا کہ اب شہر کے لوگ مجھے جانتے ہیں، تو پنڈی کا کوئی شخص مجھ پر حملہ یا فائر کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ راستے میں کہیں کہیں مسلّح افراد نظر آئے، حتیٰ کہ مَیں عین کیمپ کے’’مرکز‘‘میں پہنچ گیا، جہاں کچھ اورمسلّح لوگ بھی موجود تھے۔
مَیں وہاں کافی دیر گھومتا رہا اور حقائق معلوم کرکے بخیریت واپس آگیا۔ کسی بھی جگہ کسی شخص کو میری طرف بڑھنے یابدتمیزی کرنےکی جُرأت نہیں ہوئی۔ واپس پہنچا ہی تھا کہ اوپر سے فون آنا شروع ہوگئے۔ کمشنر سعید مہدی نے فون پر کہا کہ شیخ رشید نے چیف منسٹر ہاؤس کےتار ہلادیئے ہیں کہ ’’ایس پی نے میرے فارم پر ریڈ کرکےمیری توہین کی ہے۔‘‘ مجھے ہدایات دینے والے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی اس ’’ریڈ‘‘ سے لاتعلقی ظاہر کرنے لگے اور کمشنر کو خُود لاہور جا کروضاحت کرنی پڑی۔
ابھی اِس ’’توہین‘‘ کا پسینہ خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ مَیں نے مقامی ایس ایچ اواور ڈی ایس پی کو بتائے بغیر جُوئے کے بدنام ترین اڈّے پرخُود ریڈ کردی اور جواریوں کو لاکھوں روپے کی رقم سمیت گرفتار کر لیا، مزید گستاخی یہ ہوئی کہ پولیس نےاِن جواریوں کو(جو ایم این اے کے سپورٹر تھے) فوّارہ چوک لے جا کر سرِعام چھترول بھی کی۔ اِس پر تو شیخ جی آگ بگولا ہو کر چھت سے جا لگے، فوری لاہور پہنچے اور وزیرِاعلیٰ سے شکایت کی کہ ’’ایس پی نے مسلم لیگ کے ورکرز کو بہت بےعزت کیا ہے، اِسےفوراً تبدیل کیاجائے۔‘‘
وزیرِاعلیٰ نے اپنے معتمد کمشنر سے واقعے سے متعلق دریافت کیا تواُنہوں نے بتایا کہ ’’ایس پی نےجُوئے کا بدنام اڈا ختم کرکے بہت اچھا اقدام کیا ہے کہ یہ اڈا حکومت کی بدنامی کا باعث تھا۔‘‘ اُنہوں نے اپنےدیگرذرائع سےبھی حقائق دریافت کر لیے، تو وہ ایم این اےصاحب کا مطالبہ ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اب دوسری طرف باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ملزمان کے ورثاء لال حویلی جاپہنچے۔
کچھ نوجوانوں نے ایک ہاتھ شیخ جی کے گریبان، دوسرا اُن کی وِگ پر ڈال دیا، پولیس کی چھترول اوراپنی’’بِزتی‘‘ کی رُوداد بڑے دردناک لہجے میں سُنائی، تو ساتھ ہی شیخ جی پرکی جانے والی اپنی مالی investment کی واپسی کا مطالبہ کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی نے لاہورجاکر چیف منسٹر آفس میں ڈیرا لگا لیا۔
سی ایم سے کہا کہ’’سرجی!مَیں پنڈی شہرمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ اُنہوں نے اس حد تک ضِد کی کہ’’اگر ایس پی وہاں رہتا ہے،تومَیں کسی صُورت پنڈی نہیں جاسکتا۔ آپ کو میری عزّت کا پاس ہے، تو ایس پی تبدیل کریں۔‘‘ ظاہر ہے، اپنے اہم ساتھی کے مقابلے میں ایک سول سرونٹ کی کیا اہمیت ہوسکتی تھی، لہٰذا چیف منسٹر کو اُن کی ضد ماننی پڑی اور میرا تبادلہ کر دیا گیا۔
اب اُس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تو میرے تصوّر سےبھی باہرتھا۔ اخبارمیں میرے تبادلےکی خبر چَھپتے ہی شہر میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ شہریوں کی مختلف تنظیموں نے تبادلے کے خلاف جلوس نکالنے شروع کردیئے۔ چیمبر آف کامرس اور میونسپل کارپوریشن میں ایم این اے کے خلاف قراردادیں پاس ہوگئیں۔ تاجروں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ مَیں صُبح اُٹھا اور اخبار پر نظر ڈالی توششدد رہ گیا۔ اخبارات ایس پی کے تبادلے کےخلاف شہریوں کے احتجاج کی خبروں سے بَھرے ہوئے تھے۔
اگلے روز بھی ایساہی ہوا۔ تیسرے روز مقامی اخبار نے سُرخی جمائی’’ایک ایمان دار اور باضمیر پولیس افسر نے فرزندِ راول پنڈی کی مقبولیت کا بُت پاش پاش کردیا۔‘‘ تبادلے کا ایشو ہر گھر کا موضوع بن گیا۔ یہ جو نوجوان سِول سرونٹس سپورٹ نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں، اُنہیں یاد رکھنا چاہیےکہ اگردامن بے داغ ہو اور پوری نیک نِیّتی کے ساتھ قانون کی عمل داری کی کوشش کی جائے، تو اللہ کی مدد کے ساتھ عوام کی بھرپور حمایت اور سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے۔ اُنہی دنوں ایک ایم پی اے کے انتقال پر اظہارِ افسوس کے لیے نواز شریف راول پنڈی پہنچے۔
بعد میں اخبارات کےذریعےمعلوم ہوا کہ وہ شہر میں تین چار مختلف جگہوں پر گئے اور ہر جگہ لوگوں نےاُن سےایس پی کے تبادلے پر احتجاج کیا۔ وہ خاموش رہے اور شام کو واپس لاہور چلے گئے۔ رات گئے مجھے آئی جی صاحب کا فون آیا کہ ’’تمہیں کل صبح نو بجے وزیرِاعلیٰ صاحب نے بلایا ہے، وقت پر لاہور پہنچ جانا۔‘‘ چناں چہ صُبح کی پہلی فلائٹ پرسیٹ بُک کروالی اور وقت پر چیف منسٹر کے دفتر 90، شاہ راہِ قائدِاعظم پہنچ گیا۔ یہ میری میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ پہلی بالمشافہ (ون آن ون) ملاقات تھی۔
اُنہوں نے بڑی گرم جوشی سےمصافحہ کیا اورمیری کارکردگی کی تعریف کی۔ اِس کےبعد بولے۔ ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ بہت اچھے افسر اور کرائم فائٹر ہیں، ہمیں ایسے افسروں کی سخت ضرورت ہے۔ آپ بتائیں، آپ کوکس ضلعے کا انچارج لگایا جائے تاکہ آپ کی صلاحیتیں وہاں کام آئیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! تقرّری اور تبادلہ حکومت کی صوابدید ہے، مگر اِس وقت میرا تبادلہ جُوئے کےاڈّے ختم کرنے کا نتیجہ سمجھا جارہا ہے، اِس سےمنفی تاثرجائےگا اور نوجوان پولیس افسر بددل ہوجائیں گے، لہٰذا یہ تبادلہ کچھ دِنوں کے لیے موخر کردیں۔
اُس کے بعد جہاں چاہیں بھیج دیں۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہم آپ کو سزا نہیں دے رہے، پنڈی سے بہتر پوسٹنگ دے رہے ہیں۔ اِس لیے اِسے اچھے کام کا انعام بھی سمجھا جاسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے دو تین مرتبہ مجھ سے میری چوائس پوچھی، جس پرمَیں نے کہا کہ ’’میری کوئی چوائس نہیں، جہاں تبادلہ ہوگا مَیں وہیں جاکر کام شروع کردوں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’اگر کسی ضلعے میں نہیں لگنا چاہتے، تو پھر آپ کی صلاحیتیں لاہور میں کرائم کنٹرول کے لیے استعمال ہونی چاہئیں۔
لاہور میں جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ موجودہ ایس پی سٹی غیر موثّر ہے، آپ آکر لاہور کو ٹھیک کریں۔ آپ کو لاہورکا ایس پی سٹی لگایاجائے، تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘اور پھر میرا جواب سُننے سے پہلے ہی اپنے سیکریٹری جی ایم سکندر کو بُلا کر ہدایات دے دیں۔ دوسرے روز مجھے ایس پی سٹی لاہور تعینات کرنے کے احکامات جاری ہوگئے۔ (جاری ہے)