• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مستقبل ہمارا ہے‘‘یہ پیغام شام کے نئے رہنما اور’’ ہیت تحریر الشام‘‘ کے سربراہ، احمد حسین الشرع نے اپنی وکٹری اسپیچ میں شہریوں کو دیا، جو گزشتہ چھے عشروں سے اسد خاندان کی آمریت کے ظلم تلے زندگی گزارتے گزارتے تھک چُکے تھے۔ احمد شرع نے، جنہیں ابو محمّد جولانی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، دمشق کی فتح کے بعد وہاں کی مرکزی جامع مسجد اموی میں خطاب کرتے ہوئے پالیسی بیان دیا۔

اُنہوں نے سات دنوں میں برق رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے شام کے تمام اہم شہروں پر اپنا تسلّط قائم کیا۔ عبوری وزیرِ اعظم، محمّد البشیر نے کہا کہ’’ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ امن و استحکام کا لُطف اُٹھائیں۔‘‘ بشار الاسد کو بدترین شکست ہوئی اور اُن کی فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیئے، جب کہ خود بشار الاسد اپنے خاندان سمیت طیارے میں بیٹھ کر روس فرار ہوگئے، جہاں صدر پیوٹن نے اُنہیں ایک ذاتی حکم کے ذریعے سیاسی پناہ دی۔

یاد رہے، روس، اسد حکومت کا سب سے بڑا اور اہم اتحادی تھا، جس کی فوج، توپ خانہ اور ائیر فورس اسد حکومت کے شانہ بشانہ شامی شہروں پر پانچ سال تک دن رات بم اور گولے برساتی رہیں۔ شام کے شہریوں نے بشار الاسد کے فرار اور عبرت ناک شکست کو مُلک اور اپنی آزادی قرار دیا۔دمشق اور دوسرے شہروں میں اِس جیت کو’’ جشنِ آزادی‘‘ کے طور پر منایا گیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسد خاندان کے54 سال عوام پر کس قدر بھاری اور اذیّت ناک گزرے۔

بیرونِ مُلک مقیم شامی شہریوں نے بھی نہ صرف اِس آزادی پر بے انتہا خوشی کا اظہار کیا بلکہ اُنھوں نے واپسی کا سفر بھی شروع کردیا، جس کے باعث شاہ راہوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اُن کے لیے ایسا کرنا بشار حکومت میں ممکن نہیں تھا۔ہزاروں قیدیوں کو اُن کے رشتے داروں نے بدنامِ زمانہ عقوبت خانوں اور جیلوں سے تلاش کر کر کے آزاد کروایا۔ ان قیدیوں میں بچّے، عورتیں، نوجوان اور بوڑھے سب ہی شامل تھے۔یوں شام میں کم ازکم ایک سیاہ باب تو بند ہوا۔

شام میں اسد اقتدار کا خاتمہ ایک انتہائی اہم واقعہ ہے، جس کے علاقائی اور عالمی سطح پر بڑے دُور رس نتائج مرتّب ہوں گے۔ شام، مشرقِ وسطیٰ میں اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل مُلک ہے۔ 13 سال کی خانہ جنگی سے جہاں اس کے شہریوں کی زندگی برباد کی اور مُلک تباہ ہوا، وہیں مُلکی حالات باقی دنیا پر بھی مختلف پہلوؤں سے اثرانداز ہوئے۔

بلاشبہ یہ اِس صدی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق پانچ لاکھ سے زاید شامی شہری اِس خون ریز خانہ جنگی میں ہلاک ہوئے، جب کہ ایک کروڑ سے زاید افراد در بدر ہیں۔ یاد رہے، شام کی کُل آبادی دو کروڑ ہے، گویا آدھی آبادی بے گھر ہوئی۔ شام کی سرحدیں عراق، لبنان، اردن، اسرائیل اور تُرکیہ سے ملتی ہیں، جب کہ اس کی اہم بندر گاہیں بحرِ روم اور بحرِ ہند پر موجود ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں روس کے واحد فوجی اڈّے شام ہی میں ہیں۔شامی خانہ جنگی نے مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کو تقسیم کردیا اور یہ تقسیم تین سطحوں پر ہوئی۔مشرقِ وسطیٰ، اسلامی اُمّہ اور عالمی طاقتیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو اسد حکومت کے اتحادی ایران اور اس کی ملیشیاز تھیں، جن میں سب سے آگے حزب اللہ رہی، جب کہ تمام عرب ممالک، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، بحرین، مصر اور اُردن وغیرہ اپوزیشن کے ساتھ تھے۔ 

اُنہوں نے خانہ جنگی میں عوام کی بڑھتی ہلاکتوں پر اسد حکومت کو عرب دنیا کے سب سے بڑے فورم، عرب لیگ سے نکال دیا تھا اور کچھ عرصہ قبل ہی رُکنیت دوبارہ بحال کی گئی تھی۔مسلم اُمّہ میں اس خانہ جنگی نے نہایت تکلیف دہ دراڑیں ڈالیں۔ اسے سعودی عرب، ایران کنفلیکٹ یا برتری کی جنگ کہا گیا۔ مسلم دنیا کے لیے عرب اور ایران کے درمیان توازن قائم رکھنا مشکل ہوگیا، اِس ضمن میں خود پاکستان نے کافی نقصانات برداشت کیے۔

کس کا ساتھ دیں، مسلم دنیا کے لیے یہ سوال آزمائش بن گیا تھا۔ تُرکیہ نے شروع ہی سے اپوزیشن کا ساتھ دیا اور تقریباً30 لاکھ شامی مہاجرین اس کی سرحدوں پر آج بھی پڑے ہیں، جو دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2019ء کے بعد روس کی مدد سے صُورتِ حال پلٹی اور اسد حکومت مستحکم ہونا شروع ہوگئی، تو روس کی ثالثی میں تُرکیہ نے بھی اسد حکومت کو مجبوراً تسلیم کرلیا، یوں اپوزیشن تنہا ہوگئی۔ امریکا اور مغربی ممالک نے ابتدائی دنوں میں شامی اپوزیشن کا بھرپور ساتھ دیا۔

مغربی میڈیا نے مسلسل اسد مظالم کی مذمّت کی اور اُنہیں دنیا کے سامنے لاتا رہا۔ یہ اوباما دورِ حکومت تھا، جو اسد کو خون ریزی کا ذمّے دار قرار دیتے چلے آ رہے تھے۔ اُنھوں نے اپوزیشن کا ساتھ تو دیا، لیکن اُس طرح نہیں، جیسے روس اور ایران نے اپنے اتحادی اسد حکومت کا دیاتھا۔ شاید اس کی ایک وجہ داعش جیسے دہشت گرد گروپس کی شام میں دخل اندازی اور مسلسل پیش رفت بھی تھی۔

اوباما نے بھی بدترین یعنی داعش کی جگہ بُرے، اسد کا انتخاب کرتے ہوئے اُن کی حکومت تسلیم کرلی۔ اِسی دِوران جنیوا وَن اور جنیوا ٹو مذاکرات ہوئے۔اسد حکومت ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ شام میں خون ریزی رُکوانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں کئی قرار دادیں پیش کی گئیں، لیکن پہلے روس اور پھر چین نے اُنہیں ویٹو کردیا، جب کہ شامی شہری بے گھر اور ہلاک ہوتے رہے۔ اسد حکومت نے ان کے خلاف کیمیائی ہتھیار تک استعمال کیے۔

بعدازاں۔ عالمی دباؤ پر اسد نے وعدہ کیا کہ وہ یہ ہتھیار تلف کردیں گے۔یہ وہی زمانہ تھا، جب شامی مہاجرین نے یورپ کا رُخ کیا۔ اقوامِ متحدہ نے متفّقہ طور پر ایک روڈ میپ بھی منظور کیا، جس میں اُس کی زیرِ نگرانی عام انتخابات اور ایک منتخب حکومت کا قیام شامل تھا، لیکن بشار الاسد بعد میں اس سے مُکر گئے۔

اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے، تو ایک طرف افریقی ممالک کے ساحل ہیں اور دوسری طرف یورپ کی بندر گاہیں، بیچ میں بحرِ روم ہے۔شامی مہاجرین افریقا، خاص طور پر لیبیا کے ساحل سے کشتیوں اور ٹرالز کے ذریعے یورپ کا رُخ کرنے لگے۔ سیکڑوں کشتیاں ڈوب گئیں اور ہزاروں افراد سمندر کی نذر ہوگئے۔یورپی ممالک شروع میں تو ان شامی مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر پناہ دینے پر تیار ہوئے، لیکن جُوں جُوں اُن کی تعداد بڑھتی گئی، اُنہوں نے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا۔

اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ اِن لاکھوں شامیوں کا یورپی معاشرے میں ضم ہونا مشکل تھا، تو دوسری طرف ان کی آمد سے میزبان ممالک کی معیشت پر پڑنے والا دباؤ ناقابلِ برداشت ہو گیا۔یورپ میں قوم پرستی کی ہوائیں چلنے لگیں، جن کا نشانہ مہاجرین ہی تھے۔ یہ ہوائیں ایک تند و تیز سیاسی مخالفت اور نفرت میں بدل گئیں۔ یورپ میں دیکھتے ہی دیکھتے وہ جماعتیں مقبول ہونے لگیں، جو ان تارکینِ وطن کے خلاف تھیں۔دوسری طرف، افریقی ساحل انسانی اسمگلرز کے لیے جنّت بن گئے، جنہوں نے ڈالرز کے بدلے انسانی جانوں کا سودا کیا۔ 

یہ سفّاک دس افراد کی گنجائش والے ٹرالر میں سو، سو افراد کو ٹھونس کر بحرِ ہند کی تند و تیز لہروں کے حوالے کردیتے۔ جو خوش قسمت بچ جاتے یا بچا لیے جاتے، وہ مہاجر بن کر یورپی ممالک کے کیمپس میں چلے جاتے۔ اب صُورتِ حال یہ ہے کہ یورپ کے زیادہ تر ممالک میں مہاجرین مخالف حکومتیں برسرِ اقتدار آگئی ہیں، جن کے منشور کا بنیادی نکتہ کسی بھی غیر قانونی مہاجر کو پناہ نہ دینا ہے۔ قوم پرستی کی یہ لہر شامی خانہ جنگی کا براہِ راست نتیجہ ہے، جس کا ذمّے دار بشار الاسد ہی ہے، جس نے اپنے شہریوں پر چڑھائی کر کے اُنھیں گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ 

اسائلم لینے والے نفرت سے دیکھے جاتے ہیں اور اُن پر مُلک بدری کی تلوار لٹکی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی اسد حکومت کے خاتمے کی خبر سامنے آئی، غیر ممالک میں رہنے والے شامی مہاجرین نے اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیا۔یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ ہمارے ہاں کچھ سیاست دان، تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے خود ساختہ ماہر ہر مُلک کے عدم استحکام کو مثال بنا کر اپنے شہریوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بس پاکستان کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔ 

عرب اسپرنگ آئی، سری لنکا میں بدامنی ہوئی اور اب بنگلا دیش میں حسینہ واجد اور شام میں اسد کا تختہ اُلٹا، لیکن بہت سے افراد کی خواہش کے باوجود پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا، کیوں کہ اُن ممالک اور پاکستان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ کورونا وبا کے اثرات، عالمی منہگائی کی تباہ کاری اور معاشی اہداف کو نظر انداز کرنا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ اب تمام بڑی چھوٹی جماعتیں اِن مسائل پر قابو پانے کے لیے یک جا ہیں، بس انہیں کام کا موقع ملنا چاہیے۔ ویسے بھی ہم اپنے حصّے کی آمریتیں، انقلاب اور بدترین گورنینس پہلے ہی بُھگت چُکے ہیں۔

شامی المیے کی داستان بڑی خوں چکاں ہے، جس میں اپنوں اور غیروں، دونوں کی بے وفائی شامل ہے۔پہلے امریکا کے صدر، اوباما نے شامی اپوزیشن کا ساتھ چھوڑا اور روس کو کُھلی چھوٹ دی کہ وہ شامی شہروں پر کُھلے عام بم باری کر کے شہریوں کا قتلِ عام کرے تاکہ بشار الاسد، روس، ایران اور اس کے جنگ جُو گروپس کی مدد سے ہاری بازی جیت جائے۔ 

یاد رہے، خانہ جنگی کے شروع میں اسد زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول کھو بیٹھے تھے۔ افسوس کے داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے دخل اندازی کر کے عوامی احتجاج کو ایک ایسا رنگ دے دیا، جس سے دنیا، خاص طور پر مغرب کو موقع ملا کہ وہ شامی مظلوموں کی حمایت سے دست بردار ہوجائے۔روس اور ایران کی بھرپور مدد نے بالآخر اسد حکومت کو فتح دلوا دی۔

مسلم اور عرب دنیا، جو شروع میں ظالم اسد انتظامیہ کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ تھی، وہ بھی خاموش ہوگئی۔یوں شامی عوام کا احتجاج بھی خاموش ہوگیا اور پھر کورونا وبا نے اُسے مکمل طور پر پس منظر میں دھکیل دیا۔ یہ خانہ جنگی پس منظر میں چلی گئی، ختم نہیں ہوئی تھی۔ جیسے ہی حماس اور اسرائیل جنگ شروع ہوئی، تو خطّے پر اس کے اثرات مرتّب ہونے لگے۔حزب اللہ، جس کے سپاہی اسد افواج کے شانہ بشانہ شامی شہریوں کے خلاف لڑتے رہے تھے، اب اپنے لیڈر حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد خاموش ہوگئے۔

ایران کا ایک طرف اسرائیل سے براہِ راست تصادم شرع ہوگیا، تو دوسری طرف کم زور ترین اقتصادی صُورتِ حال نے بھی اسے خاصا محدود کردیا اور یوں اُسے بھی اسد حکومت کی مدد کے قابل نہ چھوڑا۔روس، یوکرین جنگ اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے بے حال ہے، وہ صرف اِتنا ہی کر سکا کہ بشار الاسد کو فرار ہونے کے لیے ایک فوجی طیارہ فراہم کردے اور سیاسی پناہ دے دے۔شام کی صُورتِ حال مسلم دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ اور اس کی دانش و سیاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔

وہ غیر مسلموں سے جنگ میں ہلاک ہونے والے مسلم ممالک کے شہریوں پر تو طوفان برپا کردیتے ہیں(جو غلط بھی نہیں ہے)، لیکن جب شام جیسا المیہ سامنے آتا ہے، جس میں لاکھوں شہری ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہو جاتے ہیں، شہر کھنڈر بن جاتے ہیں، برسوں شہروں کے محاصرے جاری رہتے ہیں، جس کے باعث بچّے، بوڑھے اور عورتیں درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں (جیسا کہ اسد دور میں حلب میں ہوا) تو وہ فرقہ واریت یا مصلحتوں کے خوف سے خاموش ہوجاتے ہیں۔

شامی شہریوں کے ساتھ ظلم و سفّاکیت پر مغربی ممالک اور وہاں کا میڈیا بہت فعال رہا،جب کہ مسلم دنیا پر سکتہ طاری رہا۔لاکھوں شہریوں کے قتلِ عام اور کروڑوں افراد کی بے گھری پر کہیں بھی ریلیاں نہیں نکل سکیں۔ کیا یہی مسلم اتحاد کی بنیادیں ہیں اور کیا انسانیت پر مصلحت اِسی طرح غالب رہے گی۔گزشتہ13 سال شام میں اسد حکومت نسل کُشی کی بدترین مثال تھی، جب کہ اس ظلم و سفّاکیت پر دنیا کی بے حسی کی بھی کم ہی مثال ملتی ہے۔

اپوزیشن گروپس نے جس برق رفتاری سے اسد حکومت کو شکست دی، وہ سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔شام میں اِس طرح کی تبدیلی کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ وہ مسلم اکثریتی مُلک ہے، تاہم اقلیتوں کی بھی مؤثر تعداد ہے، جس میں عیسائی سب سے زیادہ ہیں۔یہ ایک ملٹی کلچرل مُلک ہے۔ اسلام سے پہلے بازنطینی حکومت کا دارالحکومت تھا، جس کی تعمیرات اور کلچر کی باقیات کی جَھلک اب بھی دیکھی جاسکتی ہے، جو یورپ سے آنے والوں کے لیے بڑی کشش کی حامل ہیں۔

اسلام کی آمد کے بعد یہ اموی خلافت کا مرکز رہا، جس دَور میں مسلم دنیا نے ایک سُپر پاور کا اسٹیٹس حاصل کیا، جو مغربی ایشیا میں سندھ، وسطی ایشیا میں تاشقند، بخارا، افریقا میں مراکش اور یورپ میں اسپین تک موجود تھی۔ روس کے تناظر میں یورپ کی شام میں کافی دل چسپی ہے اور سب سے پہلے اُسی کی جانب سے ردِ عمل سامنے آیا۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اپنے ردِ عمل میں اسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا اور نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا۔

روس کے لیے یہ ایک واضح شکست اور ناکامی ہے۔ اب مشرقِ وسطیٰ میں اس کا باب فی الحال ایران تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ امریکا کے نو منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ روس کو اِس شکست کے بعد اب یوکرین میں بھی جنگ بندی کرنی چاہیے، جب کہ جوبائیڈن حکومت کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گرد گروپس، جیسے داعش وغیرہ کو اِس صُورتِ حال سے فائدہ نہیں اُٹھانے دے گی۔

سلامتی کاؤنسل کے ہنگامی اجلاس میں تمام ممالک نے شام کی سالمیت کا اعادہ کیا اور ایسی حکومت کے قیام پر زور دیا، جس میں سب کی نمائندگی ہو۔ تُرکیہ کے صدر اردوان نے واضح کیا کہ یہ ایران کے لیے تکلیف دہ لمحات ہیں کہ اُس کی جارحانہ خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ ایران کے کلیدی حلیف، حماس نے بھی اِس فتح پر ہیت تحریر الشام کو مبارک باد دی۔ایرانی پاس دارانِ انقلاب کے سپاہی اسد فوج کے شانہ بشانہ وہاں کے عوام سے لڑتے رہے اور اس لڑائی میں جنگ جُو بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے، جس کا جواب ایران کو اپنے عوام کو دینا ہوگا۔

تاہم، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے ابتدائی ردِ عمل میں کہا کہ وہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہیں اور مل کر چلنا چاہیں گے۔ پاکستان حالیہ شامی بحران سے دُور رہا، لیکن جب ماضی میں عرب، ایران مقابلہ شروع ہوا، تو اسے تنی رسی پر چلنا پڑا۔ صدر اردوان نے ایک بیان میں کہا کہ’’ شامی عوام کی آزادی، استحکام اور سالمیت پر کسی قسم کا حملہ ہوا، تو حملہ آور ہمیں اپنے مخالف کھڑا دیکھے گا۔‘‘