آہ ،صدیق الفاروق بھی رُخصت ہوگئے۔ احسان دانش نے کہا تھا:
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیںمت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
سانحہ ارتحال کی خبر ملتے ہی یوں محسوس ہورہا ہے جیسے یادوں اور باتوں کا سیلا ب اُمڈ آیا ہو۔گزشتہ برس دسمبر میںسواں گارڈن راولپنڈی میں ان کی رہائشگاہ پر آخری بار ملاقات ہوئی ۔دراصل علالت کی اطلاع ملنے پر بیمارپرسی کیلئے حاضر ہوا تھا۔دن بھر دھوپ میں بیٹھے رہے ،دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ۔وہی گرجدار کھنکتی ہوئی آواز ،لب ولہجے اور انداز و اطوار سے قطعاً اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ یہ شخص طویل عرصہ سے بستر علالت پر ہے۔اس بات پر مطمئن تھے کہ بچوں کے لئے گھر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔لوئر مڈل کلاس لوگوں کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے ۔واضح طور پر اظہار تو نہ کیا مگر شاید وہ اپنے دوستوں بالخصوص مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی طرف سے نظر انداز کردیئے جانے پرنالاں تھے ۔مجھے یاد ہے ،جب میاں نوازشریف اپنے خاندان کے ہمراہ جلاوطنی قبول کرکے جدہ کے سرور پیلس چلے گئے تو ان کی سیاست اور بیانئے کا بوجھ دو افراد کے کندھوں پر آپڑا۔جاوید ہاشمی اور صدیق الفاروق۔ صدیق الفاروق کو تو 12اکتوبر1999ء کی کارروائی کے دوران حاکمان وقت کسی کال کوٹھڑی میں پھینکنے کے بعد بھول ہی گئے تھے۔تنگدستی کا یہ عالم کہ گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے مگر فوجی ڈکٹیٹر کو للکارنے سے باز نہ آتے۔جب جنرل پرویز مشرف کی خود نوشت ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘شائع ہوئی تو صدیق الفاروق نے ’’سرخرو کون‘‘جیسی شاہکار تصنیف کے ذریعے اس کے پرخچے اُڑا کر رکھ دیئے۔نوازشریف کے پہلے دورِ حکومت میں صدیق الفاروق کو ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کامنیجنگ ڈائریکٹر تعینات کیاگیا تو انہوں نے چند ماہ میں HBFCکی حالت بدل کر رکھ دی۔2اکتوبر 2014ء کو انہیں متروکہ وقف اِملاک بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ۔ صدیق الفاروق کی تعیناتی سے پہلے یہاں ایسی اندھیر نگری تھی کہ الامان ، الحفیظ ۔
جب صدیق الفاروق کی تعیناتی ہوئی تو متروکہ وقف املاک بورڈ کا سالانہ خسارہ 15کروڑ روپے تک پہنچ چکا تھا مگر جن افراد نے نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں ایچ بی ایف سی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی دیکھی تھی انہیں یقین تھا کہ یہ شخص جو اسم بامسمیٰ ہے،کوئی انہونی ضرور کر دکھائے گا۔اور وہی ہوا،محض نو ماہ بعد ہی پہیہ الٹا گھومنے لگا اور جو ادارہ خسارے کا شکار تھا،وہ 13.5کروڑ سرپلس ہو گیا۔ناجائز قابضین سے 160ایکڑ 11کنال اراضی واگزار کروائی گئی،نااہل اور کام چور افراد کو فارغ کیا گیا اور یوں مجموعی طور پر ریونیو میں 371.12ملین کا اضافہ ہوا۔دستیاب معلومات کے مطابق گرونانک ننکانہ صاحب میں ’’امرت جل‘‘ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا ہے۔رنجیت سنگھ کی سمادھی میں 200کمروں کی تز ئین و آرائش کا سلسلہ جاری ہے،کٹاس راج میں چیئرلفٹ لگائی گئی ہے،چڑیا گھر اور جھیل بنانے کے منصوبے مکمل کئے گئے۔صدیق الفاروق کی خصوصی دلچسپی سے ننکانہ صاحب میں گرونانک یونیورسٹی اور ٹیکسلا کے قریب گندھارا یونیورسٹی بنانے کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔صدیق الفاروق کہا کرتے تھے کہ یہ کام اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہیں۔سکھوں اور ہندئوں سے زیادہ گوتم بدھ کے پیروکاروں کو مذہبی یاترا کیلئے پاکستان کی جانب مائل کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد 27ملین ہے مگر بدھ مت کے پیروکاروں کی تعداد 300سے 500ملین بتائی جاتی ہے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔تھائی لینڈ، میانمار، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا، ویتنام، جاپان، تائیوان، کمبوڈیا سمیت بیسیوں ممالک میں آباد بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے پاکستان میں ان گنت مقدس مقامات ہیں۔اگر تخت بائی،سوات اور ٹیکسلا میں موجود بدھ عبادت گاہوں اور دیگر تاریخی مقامات تک رسائی کو آسان اور باسہولت بنا دیا جائے تو ہماری معیشت چیونٹی کی مانند رینگنے کے بجائے خرگوش کی رفتار سے دوڑنے لگے۔اب ٹوراِزم انڈسٹری کا انحصار بڑی حد تک ان زائرین،عازمین اور یاتریوں پر ہے جو عبادت کی غرض سے طویل سفر کر کے بیرون ملک جاتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق منتیں مُرادیں پاتے ہیں۔یورپ کا چھوٹا سا شہر ویٹی کن اسلئے خوشحال ہے کہ ہر سال کم از کم پچاس لاکھ مسیحی یہاں حاضری لگوانے آتے ہیں۔اٹلی جو سیاحت کے اعتبار سے سرفہرست دس ممالک میں شمار ہوتا ہے وہاں 65فیصد ٹورسٹ مذہبی مقامات کی زیارت کرنے آتے ہیں۔مکہ اور مدینہ میں حج اور عمرے کی نیت سے جانے والے عازمین سے سعودی عرب کو سالانہ 16.5ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جو اس کی جی ڈی پی کا 3فیصد ہے۔یروشلم میں پابندیوں کے باوجود بیت المقدس دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز ہے۔شیعہ زائرین باقاعدگی سے دمشق، تہران، نجف،مشہد،کربلا اور کوفہ کا رُخ کرتے ہیں۔اس رپورٹ میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا کہ روایتی سیاحتی شعبہ تو عالمی کساد بازاری جیسے مسائل کا شکار ہوتا ہے مگر مذہبی یاترا (Religious Tourism) کا سلسلہ بلا توقف وبلا تعطل جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ لوگ عین عبادت سمجھ کر عازم سفر ہوتے ہیں۔لہٰذا دنیا بھر میں یہ رجحان ہے کہ مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کی تزئین و آرائش کا اہتمام کر کے سیاحوں کو اپنی جانب مائل کیا جاتا ہے۔پاکستان میں مذہبی یاترا کے وسیع اور لامحدود مواقع موجود ہیں۔یہاں ہندوئوں، سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کیلئے اس قدر تاریخی مقامات ہیں کہ اگر ایک مرتبہ ان کی توجہ مبذول کرو الی جائے تو یہ ملک سکھوں کا ویٹی کن،ہندوئوں کا قبلہ و کعبہ اور بدھ مت کے پیروکاروں کا مرکز بن سکتا ہے۔کراچی سے لسبیلہ روڈ پر 270کلومیٹر کے فاصلے پر ہنگلاج ماتا جی ’’تیرتھ‘‘ ہے۔مندر اور تیرتھ میں فرق یہ ہے کہ مندر تو کہیں بھی بن سکتا ہے ۔
اگر متروکہ وقف اِملاک بورڈ کو مختصر مدت میں منافع بخش بنایا جاسکتا ہے تو مذہبی یاتر یوں کو مائل کرنے کی اس منزل کا حصول بھی ناممکن نہیں۔ہاں اس کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اس ادارے کے اشتراک سے ملکر کوششیں کرنا ہونگی اور محکمہ سیاحت پر قابض بدعنوان افراد سے نجات حاصل کر کے دیانت دار،اہل اور فرض شناس افراد کو آگے لانا ہوگا۔صدیق الفاروق کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا کیونکہ ثاقب نثار نے حسد میں آکر انہیں چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کے عہدے سے ہٹا دیا۔