ہمارے عہد کی ایک بڑی شخصیت بلکہ نامور تاریخی شخصیت جناب حکیم محمد سعید صاحب مرحوم سے میری پہلی ملاقات نہایت دلچسپ تھی۔ یہ ملاقات جب بھی یاد آتی ہے میں مسکرانے لگتا ہوں اور کبھی کبھی تنہائی میں مختصر سی ہنسی بکھیر دیتا ہوں۔ ہوا یوں کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے آنرز پولٹیکل سائنس کا طالب علم تھا اور امتحانات قریب آچکے تھے۔ آنرز میں چند مخصوص یا لائق طلبہ کو ہی داخلہ ملتا تھا اور آنرز کا امتحان پاس کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ امتحانات قریب آچکے تھے۔ میں دن رات پڑھائی میں مصروف تھا اور بیک وقت کئی کتابوں کے مطالعے میں غرق رہتا تھا۔ میری ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ میں امتحان کی تیاری کرنے کی بجائے علم بڑھانے لگتا چنانچہ مخصوص نصابی کتابوں کو چھوڑ کر اس موضوع پر اہم کتابوں کے مطالعے سے تشنگی بجھانے لگتا تھا۔ ایک دن میں نے آنکھیں بند کر کے غور کیا اور ذہن کے دریچوں میں جھانکا تو محسوس ہوا کہ میں نے بے شک پڑھا بہت ہے لیکن مجھے اسکا ایک تہائی بھی یاد نہیں ..... اس احساس کے ابھرتے ہی امتحان میں کم نمبروں کے خوف نے مجھے گھیر لیا اور میں ایک انجانی پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ مجھے یوں ہوا جیسے میرا حافظہ کمزور ہوچکا ہے۔ جو پڑھتا ہوں یاد نہیں رہتا۔ پریشانی کے اس دھندلکے میں حکیم محمد سعید صاحب کی تصویر میرے تخیل میں ابھری اور میں نے ان سے علاج کے لئےرجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان دنوں حکیم صاحب ہفتے میں ایک روز ہمدردواخانہ انارکلی لاہور میں لاہوری مریضوں کو دیکھنے کراچی سے تشریف لایا کرتے تھے۔ میں مطب پہنچا اور مریضوں کے ہجوم میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مقررہ وقت پر حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنا مسئلہ بیان کیا تو حکیم صاحب نے اپنی جھکی ہوئی نظروں کو اوپر اٹھایا، مجھے غور سے دیکھا اور ایک ہلکی سی شریر مسکراہٹ کےساتھ فرمایا ’’عزیزم آپ کو علامہ اقبالؒ کا کوئی شعر یاد ہے؟‘‘ میں نے جھٹ سے علامہ کے چار پانچ اشعار داغ دیے۔ ان کے نورانی چہرے پر ایک دل آویز مسکراہٹ ابھری۔ انہوں نے نہایت محبت بھرے لہجے میں کہا ’’بیٹا۔ کبھی آپ ناشتہ کرنا یا کھانا کھانا بھولے ہیں؟‘‘ میں ان کی شخصیت کے سحر میں گم تھا اور اس سوال نما ’’حملے‘‘ کے لئے تیار نہ تھا۔ میں نے نہایت بھولپن سے عرض کیا کہ ’’جی نہیں‘‘۔ حکیم صاحب نے یہ فرما کر مجھے رخصت کردیا کہ ’’جس روز آپ ناشتہ کرنا یا کھانا کھانا بھول جائیں، اس روز میرے پاس آیئے گا تو میں آپ کے حافظے کی کمزوری کا علاج کروں گا۔‘‘ اب جبکہ سر کے بالوں کی سپیدی عمررواں کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور مجھے کبھی کبھی یاداشت کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے تو حکیم صاحب بہت یاد آتے ہیں اور میں سوچتا ہوں کاش حکیم صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا کہ حضور ناشتہ اور کھانا تو میں نہیں بھولتا لیکن اب کوشش کے باوجود نئے اشعار یاد نہیں ہوتے، پرانی پڑھی ہوئی باتیں اور واقعات ذہن میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار وقت کے دبائو کے سبب ’’غلط العام‘‘ کا شکار ہو کر غلطیاں دہرا جاتا ہوں۔ بعدازاںحکیم صاحب سے میرا ذاتی ارادت اور احترام کا رشتہ قائم ہوگیا تھا اور ان سے خط و کتابت کا سلسلہ آخری وقت تک قائم رہا اس لئے شاید اب اگر حکیم صاحب زندہ ہوتے تو مجھے ناشتہ بھولنے کی شرط پر فارغ کرنے کی بجائے مروت میں کوئی مقوی حافظہ دوا دے کر مطمئن کردیتے لیکن میری بدقسمتی کہ حکیم صاحب شہید ہو کر داغ مفارقت دے گئے اور ڈاکٹر حضرات اس مرض کو مرض سمجھتے ہی نہیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں اب یہ مرض لاعلاج مرض کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
مجھے اس تمہید کے لئے معاف کیجئے گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمہید کے بغیر تحریر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ ساری رام کہانی آپ کو اس لئے سنائی کہ میں شیروں کے درمیان بیٹھا ہوں جہاں معمولی سی آنکھ جھپکنے پر بھی حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ماشاء اللہ ہمارے قارئین اتنے عالم و فاضل اور پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ جب وہ گرفت کرتے ہیں تو غلطی کا احساس ہوتا ہے اور پھر میں کوشش کرتا ہوں کہ دوبارہ وہ غلطی نہ دہرائوں۔ اس طرح سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ یقین کیجئے کہ میں غلطی کی نشاندہی کرنے والے قارئین کو اپنا دوست، خیرخواہ اور ایک طرح سے اپنا استاد سمجھتا ہوں اور ان کا ممنون اور احسان مند ہوتا ہوں کہ انہوں نے میری راہنمائی کی۔ میں اس بات میں خلوص نیت سے یقین رکھتا ہوں کہ انسان ساری زندگی سیکھتا ہی رہتا ہے، کچھ وہ کتابوں سے سیکھتا ہے اور باقی زندگی کی کتاب سے کیونکہ زندگی نہایت خود بہت بڑا استاد ہے۔ حدیث مبارکہ کہ علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لے کر گور تک۔ ہمارے لئے روشنی کا مینار ہے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو عقل کل اور اتنا عالم و فاضل نہ سمجھ لو کہ علم پر دروازے بند کرلو، اکثر اوقات معمولی یا پڑھا لکھا یا جاہل شخص بھی ایسی بات کر جاتا ہے جو ہمارے لئے حکمت کا ذریعہ ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی شخص خلوص نیت سے غلطی کی نشاندہی کرے، کسی کمی کا احساس دلائے یا بہتر مشورہ دے تو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور کھلے دل سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ میں ان حضرات کو قابل رحم سمجھتا ہوں جو اس کا برا مناتے، غصے میں آتے یا اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایک بار میں نے زار روس کی بیگم کے حوالے سے لکھا تھا کہ جب بھوکے ہجوم نے محل کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے روٹی یا ڈبل روٹی کا مطالبہ کیا اور ملکہ کو یہ بتایا گیا تو اس نے نہایت معصومیت سے جواب دیا کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائو...... میں نے یہ واقعہ کتابوں کے علاوہ اخبارات میں پڑھا ہوا ہے۔ میرے ایک محترم قاری ، جنہیں میں ذاتی طور پرنہیں جانتا نے ای میل کے ذریعے اصلاح فرمائی کہ یہ واقعہ انقلاب فرانس سے منسوب ہے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ واقعہ اصل ہے یا انقلاب کے اہم پہلوئوں کو ڈرامائی رنگ دینے کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو علم ہے کہ یورپی ممالک انگلستان، جرمنی، فرانس، روس حتی کہ سویڈن ہالینڈ وغیرہ کے شاہی خاندان آپس میں خونی رشتوں میں منسلک تھے اور بادشاہوں اور ان کی بیگمات کی سوچ ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔
کچھ اشعار حافظے کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسان یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ ان میں کوئی ’’کا‘‘ ’’کے‘‘ کی غلطی ہوگی۔ علامہ اقبال کا درج ذیل شعر مجھے عرصے سے اسی طرح یاد ہے۔ چنانچہ میں نے گزشتہ دنوں اسی طرح لکھا تو ایک قاری نے ای میل کے ذریعے میری اصلاح کی۔ شعر درج ذیل ہے
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
میں ہمیشہ اغماض کے بعد ’’تو‘‘ لکھتا رہا۔ اس ای میل کے بعد کلیات اقبال کھولی تو راز کھلا کہ اغماض کے بعد ’’تو‘‘ نہیںبلکہ ’’بھی‘‘ ہے۔ اگر میرے یہ محترم قاری اصلاح نہ فرماتے تو میں بقایا عمر اسی طرح غلط شعر لکھتا رہتا۔
مختصر یہ کہ میں غلطیاں نکالنے اور اصلاح کرنے والے قارئین کو اپنے محسن اور استاد سمجھتا ہوں اور میرا اس بات پر ایمان ہے کہ اصلاح اور بہتری کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہئیں، سیکھنے کا عمل زندگی بھر جاری رہنا چاہئے، نیک مشورہ دینے اورماننے میں بخل نہیں کرنا چاہئے، کسی کے مشورے، غلطی کی نشاندہی، اصلاح یا نصیحت کا برا منانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کو عقل کل سمجھتے ہیں اور آپ نے یہ اپنی بہتری کے راستے بند کردیئے ہیں۔ اس سے کسی کا نقصان نہیں ہوگا، آپ کا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ آپ کا مخالف یا دشمن بھی تنقید کرے تو اس پر غور کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی کسی صحیح کمزوری پر تیر چلا رہا ہو۔ آپ اس کمزوری کو رفع کر کے بہتر انسان بن سکتے ہیں اور اس میں آپ ہی کا بھلا ہے۔ دیے سے دیا جلاتے رہیں ان سے زندگی کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔