درویش نے لبرل ہیومن فورم کی بنیاد 17اکتوبر 2006 ءکو ڈاکٹر جاوید اقبال کی سرپرستی میں رکھی مقصد یہ تھا کہ عدم برداشت اور مذہبی بنیاد پرست سوسائٹی میں مذہبی ہم آہنگی و آزاد فکری، روشن خیالی، آزادی اظہار ،حریت فکر، ہیومن رائٹس بالخصوص اقلیتوں اور خواتین کے حقوق، رواداری اور وسعت قلبی و نظری پر محیط خالص انسانی سوسائٹی کی تشکیل کی جائے، لبرل سیکولر انسانی اقدار پر نہ صرف یہ کہ بحث مباحثے، مذاکرے و مکالمے ہوں بلکہ ان انسان نواز آدرشوں یا اقدار کو سماج میں سرایت کرنے کے لیے جو ممکن ہوں وہ سب کاوشیں کی جائیں۔ ہمارا طریق کار یہ ہے کہ کسی بھی ایشو پر مہارت یا قابلیت رکھنے والی سینئر شخصیت یا شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے اور پھر محض بھاشن دینے یا سننے کی بجائے مختلف النوع سوالات اٹھائے جاتے ہیں جن سے نسل نو میں علم و آگاہی اور شعوری و فکری بیداری و بلندی آئے۔ اقبال نے تو کہہ رکھا ہے’’ خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں... مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر ‘‘مگر درویش نے فرزند اقبال سے مل کر عصری تقاضوں کی مطابقت میں یہ مشن اپنایا ہے کہ ’’جنوں کے طوفاں اٹھا چکا میں ....میرے مولا مجھے صاحب خرد کر‘‘ جن شخصیات کو اب تک مدعو کیا گیا ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے بہرحال گزشتہ روز سویڈن سے تشریف لائے پاکستانی پولیٹکل سائنٹسٹ معروف محقق و مصنف پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمدلبرل ہیومن فورم کے مہمان بنے تو یہ محفل قدرےطویل ہوگئی مکالمے کی خوبصورتی کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب اس میں ہم سب کی ہر دلعزیز شخصیات محترم سہیل وڑائچ ،محترم وجاہت مسعود ،محترم لیاقت علی اور ڈاکٹر عبدالقادر صاحبان نے نہ صرف یہ کہ خصوصی طور پر شرکت فرمائی بلکہ ڈاکٹر اشتیاق صاحب کی کتابوں کے حوالے سے دلچسپ سوالات بھی اٹھائے، اس مکالمے پر اظہار خیال سے قبل بہتر ہوگا کہ محترم ڈاکٹر اشتیاق صاحب کی شخصیت اور تحقیقی کام پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کا بچپن یہیں لاہور کے علاقے مزنگ ٹمپل روڈ پر گزرا آپ کی پیدائش پارٹیشن کے برس 24 فروری 1947کو اسی مقام پر ہوئی ۔آپ کی ابتدائی تعلیم بھی سینٹ انتھونی ہائی اسکول میں ہوئی جبکہ گریجویشن ایف سی کالج سے 1968ءمیں کی وہیں سے آپ نے اعلیٰ نمبروں کیساتھ مہتا چونی لال گولڈ میڈل جیتا۔ 1970ءمیں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں ماسٹر کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی فروری 1972ءسے جون 1973ءتک گارڈن کالج راولپنڈی میں بطور لیکچرر کام کیا، اس کے بعد سویڈن چلے گئے جہاں سٹاک ہوم یونیورسٹی سویڈن سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی اور پھر وہیں پڑھاتے ہوئے 2010ءمیں پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے مابعد آپ معروف تعلیمی اداروں میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز سنگاپور کے وزٹنگ ریسرچ آفیسر رہے نیشنل یونیورسٹی سنگاپور ،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور لمز یونیورسٹی لاہور میں بھی تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ویسے تو آپ کی تصانیف میں The Punjab Blooded Partition اور Pakistan:The Garrison State کو بڑی شہرت و پذیرائی ملی ان کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے لیکن آپ کی تصانیف میں جو شہرت Jinnah: His Success, Failure and role in history کو حاصل ہوئی وہ ان کی دیگر شاہکار تصانیف کو بھی کاٹ گئی ہے۔ ہمارا تازہ مکالمہ یا مباحثہ اسی حوالے سے تھا درویش نے اپنےافتتاحی یا تمہیدی کلمات میں عرض کی کہ ہم محترم ڈاکٹر اشتیاق صاحب جیسے بڑے قد کاٹھ کے دانشور کو لبرل ہیومن فارم میں تشریف آوری پر خوش آمدید کہتے ہیں،ہم سب آپ سے محبت رکھتے ہیں حالانکہ مجھے اور لیاقت صاحب کو دوسروں کے کام میں خامیاں یا کوتاہیاں ڈھونڈنے کی فکر زیادہ رہتی ہے بجائے محبت یا ستائش کے، ڈاکٹر صاحب! آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ہمیں مطالعہ پاکستان کے روایتی پروپیگنڈے سے چھٹکارا دلایا ہمارے نونہالوں کے اذہان میں منافرت کا جو زہر پون صدی سےانڈیلا جا رہا تھا ،جھوٹ کے جو پلندے دماغوں میں ٹھونسے جا رہے تھے اگرچہ اس زیادتی پر اور بھی بہت سے لوگوں نے کام کیا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دلائل اور ریفرنس کے ساتھ اس منافرت بھرے بیانیے یا موقف کو توڑا۔
ہم ٹاؤن ہال لاہور میں برسوں لبرل ہیومن فورم کے تحت 11 اگست کو ایک پروگرام کرواتے رہے ہیں’’جناح کا پاکستان‘‘ اس میں ہم یہ موقف پیش کیا کرتے تھے کہ’’جناح کا پاکستان‘‘قطعی طور پر وہ نہیں تھا جو مولانا مودودی والا تھا جناح تو بڑےلبرل سیکولر آدمی تھے، اس کا کریڈٹ ڈاکٹر اشتیاق صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے ہم سب کو اس سارے مغالطے یا الجھاؤ سے نکالا۔ 11 اگست کے مخمصے سے باہر لاتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جناح صاحب کی کوئی ایک ایسی تقریر نہ اس سے پہلے ملتی ہے اور نہ اس کے بعد ایسا کوئی بیان موجود ہے تو پھر یہ ان کا موقف کیسے ہو سکتا ہے؟؟
جناح قطعی لبرل سیکولر نہ تھے وہ خالص اسلامی نظریے کے علمبردار تھے اور پاکستان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی ریاست یا اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے اس سلسلے میں جناح اور مولانا مودودی کی سوچ میں جوہری طور پر کوئی فرق نہ تھا، ڈاکٹر صاحب نے ’’پاکستان دی گیریژن اسٹیٹ‘‘ تحریر کرتے ہوئے ہم پر بہت سی اصلیتیں واضح کیں اور پھر پنجاب کی’’بلڈی پارٹیشن‘‘ پر جو دکھ اور درد بیان کیا جس طرح امریتا پریتم نے وارث شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے نوحہ لکھا وہ ساری باتیں آپ نے دلائل کیساتھ پیش فرما دیں۔(جاری ہے)