• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم جاری ہے اور 22 دسمبر تک ملک بھر میں مجموعی طور پر 45لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں گزشتہ تیس سال سے پولیو کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اسکے باوجود تاحال یقین سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ ہمیں اس میں کامیابی کیلئے مزید کتنا عرصہ درکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد ممالک ہیں جہاں اب تک پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پولیو کیسز کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں رواں سال جنوری سے اب تک 63اور افغانستان میں 23پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ برسہا برس کی کوششوں کے باوجود ہمیں اب بھی انہی مسائل کا سامنا ہے جو آج سے تیس برس پہلے تھے۔ حکومتی کوششوں اور عالمی اداروں کی معاونت کے باوجود اب بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پولیو ورکرز پر حملے اور تشدد کے واقعات بھی اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی پولیو مہم کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کے خدشات کے پیش نظر پولیو ٹیموں کی حفاظت کیلئے ہزاروں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک پولیو ٹیم پر شدت پسندوں کے حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ایک پولیو ورکر زخمی ہو چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تیس سال میں 200سے زائد پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں پولیو کو ختم کرنے کی راہ میں جو بڑے چیلنجز ہیں ان میں گڈ گورننس کا فقدان، سیاسی عدم استحکام، جغرافیائی عدم تحفظ، تعلیم کی کمی اور پولیو ٹیموں کی دور دراز علاقوں تک رسائی میں رکاوٹیں شامل ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے توجہ طلب بات یہ ہے کہ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ابھی تک پولیو ویکسین کے حوالے سے عام لوگوں کی غلط فہمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں اب بھی پولیو ویکسین سے بچوں کو بانجھ بنانے یا ان میں مائیکرو چپس لگانے جیسی افواہوں پر یقین رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں پولیو سے بچائو کیلئے جاری قومی پروگرام کی وجہ سے ملک میں پولیو کیسز میں 99فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ تاہم ابھی تک پاکستان پولیو کے مرض پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکا ہے بلکہ ہر چند سال بعد ہمیں ’’پولیو فری‘‘ پاکستان کی منزل کے قریب پہنچ کر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں اور ان وجوہات یا عوامل کی نشاندہی کر کے ان کا تدارک کریں جو پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پولیو کے خلاف جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار پولیو ویکسین ہے جو بل گیٹس فاونڈیشن کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے اور ملک بھر میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلانے کیلئے تین لاکھ 39 ہزار 521 پولیو ورکرز فعال ہیں۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کو دنیا کے سب سے بڑے نگرانی کے نظام کی خدمات حاصل ہیں اور معلومات کے حصول اور تجزیے کے اعلیٰ معیار کا نیٹ ورک، جدید ترین لیبارٹریز، وبائی امراض کے بہترین ماہرین اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پبلک ہیلتھ کے نمایاں ماہرین بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں۔ بل گیٹس فائونڈیشن اور پولیو ورکرز کی انتھک محنت سے سال 2021ء میں پاکستان بھر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا جس پر بل گیٹس خود پاکستان آئے تھے۔ اس موقع پر بل گیٹس نے وزیر اعظم سے ملاقات کے علاوہ پولیو ورکرز، ہیلتھ ورکرز اور والدین کے وفود سے بھی ملاقاتیں کر کے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان کے ساتھ پولیو پروگرام میں تعاون جاری رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی ملک میں اگر لگاتار تین سال تک کوئی پولیو کیس رپورٹ نہ ہو تب ہی اسے پولیو سے پاک ملک قرار دیا جاتا ہے۔

ان حالات میں جہاں ملک کے اندر انسداد پولیو کی سرگرمیوں کو پوری تندہی سےجاری رکھنے کی ضرورت ہے وہیں افغانستان سے اس وائرس کی پاکستان منتقلی کا سدباب بھی ضروری ہے کیونکہ ستمبر میں افغان طالبان نے ملک بھر میں انسداد پولیو مہم معطل کر دی تھی۔ اس وجہ سے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی پولیو کے خاتمے کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔ پولیو وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور جن بچوں کو پولیو کی ویکسین نہیں لگائی جاتی ان کے پولیو کا شکار ہونے اور ان سے یہ وائرس دوسرے بچوں تک منتقل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر جہاں پاکستان کے مثبت تشخص کے لئے ایک دھچکا ہے وہیں اس سے پاکستان کی بزنس کمیونٹی بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ ہر پاکستانی کیلئے بیرون ملک سفر کیلئے پولیو ویکسی نیشن کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس طرح بیرون ملک سے جو سرمایہ کاری وفود پاکستان آتے ہیں ان کیلئے بھی یہ پہلو پاکستان سے متعلق منفی تاثر کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے ہمیں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو ہر صورت جلد سے جلد کامیاب بنانا ہے تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل یہ رکاوٹ ختم ہو سکے۔

تازہ ترین