• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہاتما گاندھی ،مارٹن لوتھر کنگ ،نیلسن منڈیلا اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کو سول نافرمانی تحریک کے علمبرداروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میںآتے ہی نمک کی تجارت پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی تھی اور مقامی افراد کے نمک تیار یا فروخت کرنے پرپابندی عائد رہی ۔اس کے علاوہ نمک پر عائد ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا ۔اس ظالمانہ ٹیکس پر احتجاج بھی ہوتا رہا لیکن فرنگی حکومت پر کوئی اثر نہ ہوا۔آخر کار موہن داس کرم چند گاندھی نے سول نافرمانی تحریک کا آغاز کیا تو سب سے پہلے نمک سے متعلق بنائے گئے قوانین توڑنے کا اعلان کیا گیا۔گاندھی عدم تشددکے فلسفے کو ’’ستیاہ گرہ ‘‘کہا کرتے تھے یعنی ’’سچ کی فوج‘‘۔اور انہیں یقین تھا کہ ستیاہ گرہ کمزوری کی علامت نہیں بلکہ طاقتوروں کا ہتھیار ہے۔بہر حال سول نافرمانی کی تحریک جو 1930 ء میں شروع ہوئی تھی ،1931ء تک جاری رہی ۔اس دوران لگ بھگ 110افراد نے اپنی زندگیاں قربان کیں،گاندھی سمیت 60ہزار لوگ پابند سلاسل ہوئے ،آخر کارگاندھی کو رہا کردیا گیا تاکہ وہ ستمبر تا دسمبر 1931ء لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں شرکت کرسکیں ۔بعد ازاں لارڈ اِرون کے ساتھ بات چیت ہوئی تو گاندھی اِرون معاہدے پر دستخط ہوئے۔قائداعظم کا خیال تھا کہ سول نافرمانی تحریک احتجاج کا موثر ذریعہ نہیں ہے اور یہ راستہ تباہی و بربادی پر منتج ہوگا اور وہی ہوا۔اس تحریک کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جاسکے۔قیام پاکستان کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میںسول نافرمانی کی تحریک چلائی اوران کے بعد یہ اعزاز تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے حصے میں آیا۔احتجاج کی فائنل کال ناکام ہونے کے بعد وہ جیل سے سول نافرمانی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے مرحلے پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کہا جائے گا کہ وہ پاکستان میں ترسیلات زر بھیجنا چھوڑ دیں ۔جناب عمران خان کی حالیہ مہم جوئی کا نیلسن منڈیلا ،مارٹن لوتھر کنگ ،گاندھی یا پھر باچا خان سے موازنہ کرنے کے بجائے ان کی سابقہ تحریک کا انجام سامنے رکھنا چاہئے۔یادش بخیر،جناب عمران خان 2014ء میں دیئے گئے دھرنوں کے دوران بھی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا شوق پورا کرچکے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے کنٹینر پر نہ صرف بجلی کا بل جلایا تھا بلکہ اپیل کی تھی کہ کوئی شخص ٹیکس نہ دے ، بلوں کی ادائیگی کا سلسلہ روک دیا جائے اور سمند رپار پاکستانی پیسے بھجوانا چھوڑ دیں۔غیر ملکی ترسیلات زر سے متعلق مبالغوں اور مغالطوں پر بعد میں بات کرتے ہیں ،پہلے بلوں کی ادائیگی کا معمہ حل کرلیں ۔اگست اور ستمبر 2014ء میں بجلی کے بل ادا نہ ہونے پر اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بنی گالا کو بجلی کی فراہمی منقطع کردی۔البتہ لاہور زمان پارک میں عمران خان کی رہائشگاہ کا بل ادا کردیا گیا اور اس ضمن میں یہ وضاحت پیش کی گئی کہ چونکہ وہاں عمران خان کی ہمشیرہ رہتی ہیں اس لئے یہ بل ان کی طرف سے ادا کیا گیا ہے ۔یعنی بانی تحریک انصاف کی اپیل پر ان کی سگی بہن نے بھی کان نہ دھرے ۔ان کی ہمشیرہ ہی کیاشیخ رشید سمیت تحریک انصاف کے بیشتر اتحادیوں اور پارٹی رہنمائوں نے اس اقدام کو سنجیدگی سے نہ لیا اور پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہے۔لیکن بہت جلد انقلاب کو سردی لگ گئی ۔بنی گالا میں بجلی کا کنکشن بحال کروانے کیلئے واجب الادا رقوم جمع کروادی گئیں اور اس کی یہ توجیہہ پیش کی گئی کہ عمران خان تو برداشت کرلیں گے مگر بچے گیزر کے بغیر ٹھنڈے پانی سے نہیں نہا سکتے۔بتانے کا مقصد محض یہ ہے کہ سول نافرمانی ایسا ناکارہ اور چلا ہوا کارتوس ہے کہ اس سے کسی قسم کی کوئی اُمید رکھنا عبث ہے۔اب آتے ہیں غیر ملکی ترسیلات زر کی طرف جن کے حوالے سے طفلان انقلاب ہی نہیں خود بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔وہ پاکستانی شہری جو اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر پردیس جاکر محنت مزدوری کرتے ہیں یا پھر ایسے پاکستانی شہری جنہوں نے وہاں جا کر اپنا کاروبار کیا اور ترقی و خوشحالی کی منازل طے کیں ،یہ سب قابل قدر ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ وہ اپنی کمائی پاکستان بھیج کر ملک یا قوم پر کوئی احسان کر رہے ہیں ،سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔مجھے بتائیے کیا یہ رقوم حکومت پاکستان کے خزانے میںبھجوائی جاتی ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اگر ان پاکستانیوں کے عزیز و اقارب یہاں نہ ہو ں تو وہ پھوٹی کوڑی بھی نہ بھیجیں ۔غیر ملکی ترسیلات زر اس لئے بھجوائی جاتی ہیں کہ ان کے اہلخانہ روزمرہ کی ضروریات پوری کرسکیں۔وہ لوگ جن کے بیوی ،بچے ،ماں ،باپ اور بہن بھائی یہاں ہیں،اگر وہ چاہیں بھی تو کیا ایسا ممکن ہے کہ دو چار ماہ پیسے نہ بھجوائیں؟اگر یہ فیصلہ کربھی لیا جائے تو کتنی دیر تک اس پر کاربند رہا جاسکتا ہے؟آخر کار انہیں یہ پیسے بھجوانے ہوں گے تاکہ جن کی خاطر وہ پردیس کاٹ رہے ہیں ،وہ بھوکے نہ مرجائیں۔اب جب یہ بات کی جائے تو نونہالان انقلاب کہتے ہیں ضروری نہیں کہ پیسے قانونی طریقے سے بھیجے جائیں ،ہنڈی یا حوالہ کے غیر قانونی طریقے سے بھی رقوم بھجوائی جاسکتی ہیں۔بہت خوب،اسی دلیل سے اندازہ لگالیں کہ ان بزعم خود انقلابیوں کو آپ کی کتنی فکر ہے۔آپ کی محنت سے کمائی ہوئی دولت ہنڈی یا حوالہ جیسے غیر قانونی طریقے سے ڈوب جائے ،انہیں کوئی فکر نہیں۔انہیں تو بس یہ فکر ہے کہ کسی طرح موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنوں پر لایا جائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ سول نافرمانی تحریک نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی اور نہ اب اس سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے گا۔عمران خان ایک ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں سوچے سمجھے بغیر ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے کچھ توقف کی ضرورت ہے ۔لیکن وہ ایک مضطرب اور بے چین شخص ہیں جن کا خیال ہے کہ

میں ایک دل ہوں رُکوں گا تو مر ہی جائوں گا

مجھے سکوں نہ دے بے قرار رہنے دے

تازہ ترین