• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر تو ہر شخص، ہر قوم اور ہر مُلک کی یہی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو، تنازعات ختم اور جنگیں بند ہوں، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا ہوا، تو پھر اسلحہ تیار کرنے والے اُن ممالک کا کیا ہوگا، جو اِس کاروبار سے ہر سال اربوں ڈالرز کماتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کی ترقّی اور طاقت کا راز یہی اسلحہ سازی کی صلاحیت ہے۔

پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں اسلحہ بننا بند اور اس سے وابستہ تمام کاروبار ٹھپ ہوجائے۔ 2023ء اسلحہ سازی کے لحاظ سے نہایت منافع بخش سال تھا کہ اُس سال2022 ء کے مقابلے میں4.2 فی صد اضافہ ہوا اور یہ وہ منافع تھا، جو مختلف کمپنیز ریکارڈ پر لائیں۔ 

ماہرین اِس امر پر متفّق ہیں کہ اسلحہ سازی اور اس کی فروخت چوں کہ ایک انتہائی حسّاس معاملہ ہے، اِس لیے جو کچھ ریکارڈ پر آتا ہے، کاروبار یا منافع اُس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اسلحہ سازی میں یہ ریکارڈ اضافہ کورونا کے فوراً بعد آنے والے سال میں ہوا۔ ایک ایسی عالمی وبا، جو لاکھوں زندگیاں نگل گئی تھی اور جس نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا تھا، اُس زمانے میں تو ہر مُلک اور قوم کا یہی کہنا تھا کہ اگر اس آفت سے چھٹکارا مل گیا، تو یہ دنیا کے لیے امن و آشتی برقرار رکھنے کے ضمن میں ایک بڑا سبق ہو گا، لیکن دنیا کو یہ سبق بھولنے میں ایک سال بھی نہ لگا اور اسلحے کی دوڑ شروع ہوگئی۔

2023 ء میں سب سے زیادہ اسلحہ امریکی کمپنیز نے بنایا، جو دنیا کے کُل اسلحے کا پچاس فی صد تھا۔ امریکا نے اسلحے کی فروخت سے 317ارب ڈالرز کمائے، جب کہ چین دوسرے نمبر پر رہا، جس نے130ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا۔ روس اور اسرائیل نے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری میں ریکارڈ اضافہ کیا۔

’’اسٹاک ہوم انسٹی ٹیوٹ فار پیس‘‘ نے( جسے فوجی ماہرین کی زبان میں ’’سپری‘‘ بھی کہا جاتا ہے)،ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیز کی لسٹ جاری کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے2022 ء کے دَوران632 ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا۔ظاہر ہے کہ اِس کاروبار میں اضافہ یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے سبب بھی ہوا۔ ویسے افریقا سے لے کر جنوبی امریکا تک، تنازعات اور سیاسی بحرانوں کی کوئی کمی نہیں، جو کسی وقت بھی جنگ یا خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور جنہیں جاری رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں اسلحہ درکار ہوتا ہے۔

’’سپری‘‘ کی اِسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں دس ممالک ایسے ہیں، جو اسلحے کے کاروبار پر اجارہ داری رکھتے ہیں۔ ان ممالک میں امریکا، چین، روس، فرانس، برطانیہ، اٹلی،جنوبی کوریا، اسرائیل اور اسپین شامل ہیں۔اسرائیل کے علاوہ، باقی تمام ممالک اپنے عروج کے زمانے میں بڑی طاقتیں رہے اور یہ سب بڑی جنگوں کے لیے مشہور ہیں۔ اِس بار یوکرین اور غزہ جنگیں، ہتھیاروں کی مانگ میں اضافے کی وجہ بنیں۔ یوکرین جنگ تین سال سے جاری ہے، جب کہ غزہ کی جنگ کو بھی 15 ماہ ہونے کو ہیں۔

یوکرین میں60 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوچُکے ہیں، جب کہ اس کے آدھے شہر کھنڈر بن گئے ہیں۔ اُدھر غزہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے اور 45 ہزار سے زاید افراد اسرائیلی حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دنیا ٹرمپ کے اُس وعدے کے پورے ہونے کی منتظر ہےکہ وہ آتے ہی جنگیں بند کروا دیں گے۔ویسے وہ غزہ کے معاملے میں تو دھمکی دے چُکے ہیں کہ سیز فائر میں بہت کم وقت رہ گیا ہے، جلدی کرو، ورنہ میرے آنے کے بعد بہت بُرا ہوگا۔

امریکی محکمۂ دفاع کی رپورٹ کے مطابق اس کا اسلحہ اتحادی ممالک اور یورپ کو فروخت کیا گیا۔ ویسے امریکا اِس بات کا کُھلے عام اظہار کرتا ہے کہ وہ اربوں ڈالرز کا اسلحہ جنگ زدہ علاقوں میں سپلائی کرتا رہا۔ کچھ عرصہ قبل صدر جوبائیڈن نے ایک ایسے ہی امدادی بِل پر دست خط کیے، جس کا تخمینہ ایک سو بلین ڈالرز لگایا گیا اور اس کا بڑا حصّہ یوکرین اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی خریداری کے لیے دیا گیا۔

اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ میں جدید امریکی اسلحہ استعمال کیا اور اس کی مدد سے فضائی برتری حاصل کی۔اس کی ایک مثال اُس کا ایران پر دوسرا حملہ تھا، جس میں اُس نے جدید ترین لڑاکا بم بار طیارے، ایف35 کا استعمال کیا۔ یہ طیارہ اِس قدر نیا ہے کہ خود امریکا نے بھی اُسے شاید ہی کسی جنگ میں استعمال کیا ہو۔ 

اسرائیل نے اِن طیاروں کے ذریعے ایران کی بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی فیکٹریز اور نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنا کر اُنھیں خاصا نقصان پہنچایا۔یہ طیارہ ایک سو میل کی دُوری سے اپنے ٹارگٹ کو ہِٹ کرسکتا ہے۔ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلحہ بہت منہگا ہوگیا ہے۔

جن طیاروں کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ پاکستانی روپے میں اربوں روپوں کے ہیں اور ایک، ایک میزائل پانچ، پانچ کروڑ روپے کا ہے۔ اِسی سے دنیا میں اکنامکس وار کا نظریہ بھی فروغ پایا ہے۔کیا کسی مقصد یا ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے اِتنی زیادہ قیمت تو ادا نہیں کرنی پڑے گی کہ وہ فائدہ مند ہی نہ رہے یا بوجھ بن جائے اور جو آگے چل کے جنگ کرنے کی مجموعی صلاحیت پر اثر انداز ہو۔

نت نئے ہتھیاروں کی تیاری کے ضمن میں عمیق تحقیق جاری ہے اور اسلحہ سازوں کے منافعے میں ریکارڈ اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اسلحے کا یہ کاروبار کئی ممالک کی معیشت کا بڑا سہارا بنا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کسی بڑی پیداوار یا مال کی تیاری کے لیے مشہور نہیں، تاہم اِس کی اسلحہ ساز فیکٹریز دنیا کے چھوٹے، بڑے ممالک اور گروپس کو ہتھیاروں کی سپلائی کے ضمن میں خاصی نمایاں ہیں۔

ہتھیار سازی اور ان سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی فروخت اب ممالک کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت اور غاصبانہ قبضے کا عالمی طور پر سب ہی اعتراف کرتے ہیں، لیکن اس کے جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے بڑی بڑی طاقتیں اس سے اچھے تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں، جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔جدید زمانے میں ممالک کو اپنے دبائو میں لانے کے لیے ہتھیاروں اور ان کے اسپیئر پارٹس کی فروخت نہایت اہمیت اختیار کر چُکی ہے۔

اگر عین جنگ کے درمیان ہتھیاروں کی سپلائی یا فاضل پرزہ جات کی فراہمی رُک جائے، تو وہ مُلک جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اِس صُورتِ حال نے بھی اسلحے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں اضافہ کیا ہے، کیوں کہ ضرورت مند مُلک، اُس مُلک کے سامنے مجبور ہے، جو اُسے ہتھیار سپلائی کرتا ہے۔ کسی مُلک کے پاس لڑائی کے لیے کیسا اور کتنے دن کا اسلحہ موجود ہے، جنگوں میں اِس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ 

جذبات اور عزم خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، مگر جنگ، بغیر ہتھیاروں کے جاری نہیں رہ سکتی۔ غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی ناکامی کی بڑی وجہ جدید اسلحے کی کمی ہی ہے۔ اسرائیل نے ایران کو براہِ راست جنگ میں ملوّث کرکے ان کی ہتھیاروں اور مالی امداد کی سپلائی چین کاٹ دی، جس کی مدد سے وہ جنگ جاری رکھتے تھے۔ 

عام آدمی جنگ کی یہ حکمتِ عملی سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ جذبات سے مغلوب ہو کر حُکم رانوں کو جنگ میں ملوّث ہونے پر مجبور کردیتے ہیں، جس کے منفی نتائج جلد یا بدیر ظاہر ہوجاتے ہیں۔ بہت سی حکومتیں اپنا اقتدار بچانے کے لیے بھی جنگ کرتی ہیں، لیکن اسلحے کی کمی کی وجہ سے سب کچھ گنوا بیٹھتی ہیں، شام کے بشار الاسد اس کی حالیہ مثال ہیں۔

امریکا کی41 اسلحہ ساز کمپنیز نجی شعبے کی تحویل میں ہیں، تاہم اُن کے لیے پالیسی وضع کرنے کا اختیار امریکی حکومت کے پاس ہے کہ وہ حکومتی اجازت کے بغیر ایک گولی تک کسی مُلک کو فروخت نہیں کرسکتیں۔امریکا کی اسلحہ تیار کرنے کی صلاحیت بہت جامع اور وسیع ہے۔ 

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریز جنگی جہاز، راکٹ، میزائل، ٹینک، طیارے اور ڈرونز سمیت دوسرے بہت سے ہتھیار تیار کرتی ہیں، جنہیں ایک خاص پالیسی کے تحت دنیا میں فروخت کیا جاتا ہے اور خریداروں میں اتحادی ممالک، جیسے یورپ اور اسرائیل سرِ فہرست ہیں، جب کہ کچھ دوست ممالک کو بھی اسلحہ فروخت کیا جاتا ہے، تاہم اُنھیں سخت شرائط تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ پاکستان، امریکا کا بہت قریبی اتحادی رہا ہے، اُس کے ساتھ دوطرفہ دفاعی معاہدوں اور ملٹی لیٹرل ڈیفینس پیکٹس جیسے سیٹو اور سینٹو کا بھی رُکن رہا۔

اس کی فوج کے پاس جدید امریکی اسلحہ ہے، تاہم سرد جنگ کے دَوران امریکی پالیسی سازوں کا کہنا تھا کہ یہ اسلحہ صرف کمیونسٹ یا امریکا مخالف ممالک ہی کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔1965 ء کی جنگ کے عین دَوران امریکا نے پاکستان اور بھارت کو اسلحہ سپلائی کرنے پر پابندی عاید کر دی۔

پاکستان نے اس پر زبردست احتجاج کیا، جس میں وہ حق بجانب بھی تھا، کیوں کہ بھارت تو روس اور دوسرے کمیونسٹ ممالک سے ہتھیار لیتا رہا، جب کہ پاکستان کا انحصار صرف امریکا اور مغربی ممالک پر تھا، تو ظاہر ہے کہ اس پابندی نے جنگ کا پانسا بھارت کے حق میں کرنے کی کوشش کی۔

آج الیکڑانک وار فیئر کا زمانہ ہے اور جنگوں میں ڈرونز ٹیکنالوجی بڑے مؤثر طریقے سے استعمال کی جاری ہے۔یہ ڈرونز جنگ کے علاہ، سنگل ٹارگٹس کو نشانہ بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ ایرانی پاس دارانِ انقلاب کے کمانڈر اور مُلک کی دوسری سب سے طاقت وَر شخصیت، جنرل قاسم سلیمانی کو ایک امریکی ڈرون حملے ہی میں ہلاک کیا گیا، جب وہ بغداد میں موجود تھے۔ اس جانی نقصان نے ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ خارجہ پالیسی متاثر کی۔یاد رہے، الیکڑانک وار فیئر میں روس نے بھی بڑی کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ ڈرونز کی سب سے بڑی خاصیت تو یہ ہے کہ یہ بغیر انسان کے حملہ کرتا ہے۔ اِس کی دو اقسام ہیں۔

ایک وہ جو نگرانی کا کام کرتے ہیں، انہیں ’’میدانِ جنگ کی آنکھ‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ دوسری قسم کے ڈرونز حملے میں کام میں آتے ہیں۔ڈرونز، یوکرین جنگ میں ایک بنیادی ہتھیار اور فوجی حکمتِ عملی کا حصّہ بنے اور اس نے جدید جنگ کے طریقۂ کار کو بہت حد تک متاثر کیا۔

نگراں ڈرونز دراصل ’’فضائی کھوجی‘‘ کا کام کرتے ہیں اور اگلے مورچوں میں فوجیوں کی نقل وحرکت اور حملے کی تیاریاں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ ڈرونز نگرانی کے دَوران کسی ہدف کو دیکھتے ہیں، تو اس کی نشان دہی کرتے ہیں، جسے پھر توپ خانے سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اِن ڈرونز کے ذریعے ٹینکس کی پیش قدمی پر بھی نظر رکھی جاتی ہے اور اِس طرح آرمرڈ دستے بھی خطرے میں آجاتے ہیں۔وہ ڈرونز، جنہیں حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے، توپ خانے کے ساتھ بم برسانے کے کام آتے ہیں۔ روس نے اِن ڈرونز کی مدد سے یوکرین کے حملے بڑی کام یابی سے روکے اور اپنا نقصان بہت کم ہونے دیا۔ یوکرین نے تُرکیہ کے تیار کردہ ڈرونز استعمال کیے اور بہت سے روسی حملے روکنے میں کام یابی حاصل کی۔ اب دونوں اطراف سے ڈرونز کا بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ 

اِسی الیکٹرانک وار فیئر میں روس نے حملہ آور میزائل روکنے کا نظام بھی تیار کر لیا، جو دس میل تک کسی بھی میزائل یا طیارے کو روک سکتا ہے۔یہ آئرن ڈوم اور پیٹریاٹ جیسے بھاری بھر کم اور منہگے طریقوں کے مقابلے میں حملے روکنے کا ایک سَستا نظام ہے۔ اِس نظام کی مانگ اُن ممالک میں بڑھ رہی ہے، جو سَستے سسٹم سے اپنا فضائی دفاع مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ میں اِس سسٹم کا عملی مظاہرہ دراصل روس کے لیے اسلحے کی نئی مارکیٹس کھولنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ’’سپری‘‘ کے مطابق، روسی کمپنیز کو یوکرین جنگ سے بہت فائدہ ہوا اور اُنہوں نے تقریباً 25ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کیے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں40 فی صد زیادہ ہے۔ ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیز میں چین کی 9 کمپنیز بھی شامل ہیں، جنہوں نے تقریباً 103 ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا۔ چین کی معیشت سُستی مائل ہے، جس کا اثر اُس کی اسلحہ فروخت کرنے کی منڈی پر بھی ہوا۔

اسرائیل نے غزہ کی جنگ سے اسلحہ فروخت کرنے میں بڑی کام بیاں حاصل کیں اور اس کی فروخت14 ارب ڈالرز کے قریب رہی، جو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی سیل ہے۔ یاد رہے، اس کی تین کمپنیز، ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیز کی فہرست میں شامل ہیں۔ تُرکیہ نے حالیہ سالوں میں ڈرونز کی تیاری میں بڑی پیش رفت کی اور ان کی فروخت سے اُس کے منافعے میں24 فی صد اضافہ ہوا۔ بھارت کی تین کمپنیز بھی اسلحہ فروخت کرنے والوں میں شامل ہیں، تاہم ابھی تک اُسے ہتھیار بنانے والے چھوٹے ممالک ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔اس نے تقریباً ساڑھے چھے ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا۔

دفاعی ماہرین اور عالمی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تنازعات کا جاری رہنا اور پھر ان کا جنگ میں بدل جانا، اسلحے کی مانگ میں اضافے کا سبب ہے۔ دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ کا انتظار ہے، جو ایک تاجر صدر ہیں اور جنہیں’’مین آف دی پیس‘‘ ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ دیکھتے ہیں، وہ جنگوں کے خاتمے کا وعدہ کب اور کیسے پورا کرتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید