• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں محمد نواز شریف کی سالگرہ منانے لندن پہنچنے والے خواجہ آصف نے ارشاد فرمایا کہ بانی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔ ادھر اطلاع ملی کہ جنرل فیض علی چشتی 97برس کی عمر میں انتقال کر گئے، جنرل ضیاء الحق جنہیں ”مرشد“ کہا کرتے تھے۔نون لیگ، تحریکِ انصاف اور طاقتوروں کے درمیان معاملات جس کشیدگی سے گزر رہے ہیں، خواجہ صاحب کو اس میں ہاک کا کردار سونپا گیا ہے۔ ایاز صادق اور حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ کبوتر ہیں۔ یہ حالات کا خوفناک جبر ہے، متحارب طاقتوں کو جس نے مذاکرات کا ڈول ڈالنے پر مجبور کیا۔ استحکامِ پاکستان پارٹی تخلیق کرنے اور انصافی لیڈروں کو اس میں شامل کرانے والے وگرنہ پی ٹی آئی کے خاتمےکا فیصلہ کر چکے تھے۔

تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی بیل کس طرح منڈھے چڑھے گی۔ حکومت کا اپنا اختیار تو کوئی ہے نہیں۔ تحریکِ انصاف کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اس کا مینڈیٹ اسے واپس کیا جائے۔بانی پی ٹی آئی پر عائد مقدمات ختم کر کے انہیں رہا کر دیا جائے۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ نون لیگ ہی نہیں، پیپلز پارٹی اور خود طاقتور حلقوں کو بھی لپیٹ دیا جائے۔

دوسری طرف مگر مخمصہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور تحریکِ انصاف کی بساط لپیٹنا بھی ممکن نہیں۔ جس قدر دباؤ پیدا کیا جا سکتا تھا، کر کے دیکھ لیا گیا۔ تیس بتیس ارب ڈالر زرِ مبادلہ بیرونِ ملک پاکستانی ہر سال بھیجتے ہیں۔ بیرونی قرضہ 133ارب ڈالر سے بڑھ چکا۔ بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ تین سال میں کل 7ارب ڈالر پیکیج کیلئے ملک آئی ایم ایف کے سامنے سربسجود ہو گیا۔ اس وقت جب کہ ملک پائی پائی کامحتاج ہے، سب سے مقبول سیاسی جماعت کی طرف سے زرِ مبادلہ روک دینے کی کال کا وہ متحمل نہیں۔ادھر دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کے درمیان محاذ آرائی جس شدت پہ پہنچ چکی ہے،سب اس سے واقف ہیں۔ بھٹو کی پھانسی سے لے کر جنرل مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی جلاوطنی اور 2017ء میں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے تک، اتنی مزاحمت کا کبھی طاقتوروں کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جواب ہو رہا ہے، وہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔جو چیز رونما ہی پہلی بار ہو رہی ہے، اس کے انجام کا کوئی کیا اندازہ کر سکتاہے۔

2018ء میں جب عمران خان کو وزیرِ اعظم بنایا گیا تو طاقتور حلقے ہی آصف علی زرداری، ان کی سندھ کابینہ اور شریف خاندان کی کرپشن کے ثبوت کپتان کو بہم پہنچایا کرتے تھے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں وہ تھیں، برسوں جنہوں نے طاقت والوں سے مار کھائی۔ آپس میں بالآخر انہوں نے میثاقِ جمہوریت بھی طے کیا۔ وہ کون تھا جو مقصود چپراسی کی صورت میں شریف خاندان اور ڈاکٹر عاصم حسین کی صورت میں زرداری صاحب کی مبینہ لوٹ مار کے ثبوت منظرِ عام پر لایا کرتا۔ اسکے باوجود دونوں جماعتیں قطعاً بدمزہ نہ ہوئیں۔ جیسے ہی موقع ملا، نہ صرف طاقتوروں سے جھک کر انہوں نے ہاتھ ملایا بلکہ اپنے ہاتھوں سے چھبیسویں آئینی ترمیم سمیت سارے اختیارات طاقتوروں کے حوالے کر دیے۔ بانی پی ٹی آئی کی جگہ زرداری یا شریف خاندان ہوتا تو ”مجھے کیوں نکالا“ جیسی ہلکی پھلکی مہم چلا کر خاموش ہو جاتا۔ اس عمر میں کبھی جیل کاٹنا قبول نہ کرتا۔ عمران خان نے مگر ایک طوفان برپا کر دیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، اڑھائی برس سے جیسی خوفناک محاذ آرائی تحریکِ انصاف نے کی ہے، کوئی اور سیاسی جماعت کبھی ایسا نہ کر سکتی۔اب لیگی حکومت مذاکرات کرے تو کس بات پر کرے۔ اپنے اقتدار کے خاتمے اور اپنی سیاسی موت کے بارے میں؟ سب جانتے ہیں کہ الیکشن ہوا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ کیا تنازعے کا فریق بھی کبھی منصف ہو سکتا ہے؟

ادھر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے میں اظہارِ تشویش کرتے پائے جا تے ہیں۔ ادھر بیس جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانا ہے۔ حلف اٹھانے سے قبل ہی ان کے قریبی حلقے جو اشارے دے رہے ہیں، وہ سب جانتے ہیں۔ طاقتوروں کا مخمصہ مگر یہ ہے کہ عمران خان کی مانیں تو ان کے پلے کیا رہ جائے۔

ادھر دوسری طرف دہشت گردی کا عفریت پوری قوت سے پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ تین روز قبل طالبان نے افغان سرحد کے قریب 16پاکستانی جوانوں اور افسروں کو شہید کر دیا۔ ملک جس خوفناک صورتِ حال میں پھنس چکا ہے، اس میں حل ایک ہی ہے۔ آج نہیں تو کل سارے فریق اسی نتیجے پر پہنچیں گے اور وہ ہے نیا الیکشن، خواہ طاقت کے مراکز اور سیاسی جماعتوں کو جتنی بھی تکلیف سے گزرنا پڑے۔کینسر جب پھیل جاتا ہے تو بعض اوقات مریض کی جان بچانے کیلئے معدے سمیت کئی اعضا آدھے کاٹ دیے جاتے ہیں۔آنتیں نکال پھینکی جاتی ہیں اور مریض ایک نئے طرزِ زندگی کے ساتھ زندہ رہنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ایک نیا الیکشن ہی وہ واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے زندہ بچاجا سکتاہے۔ یہ ضمانت البتہ درکار ہے کہ کوئی فریق کسی سے کوئی انتقام نہ لے۔ تمام حلقوں نے ایک دوسرے کو اگر عام معافی نہ دی تو موت ہماری منتظر ہے۔ ہمارا کام تھا بتانا، اگے تیرے بھاگ لچھیے!

تازہ ترین