یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ فروری2024 ء کے عام انتخابات مُلکی تاریخ کے متازع ترین انتخابات میں سے ایک تھے۔ ان انتخابات سے جنم لینے والی پارلیمینٹ کی طرف سے ایک سال میں غیرمعمولی آئینی ترامیم سمیت 27 قانونی بِلز منظور کیے گئے۔
اگر قانون سازی کی تعداد دیکھیں، تو یہ اچھی خاصی ہے، یعنی ہر پارلیمانی مہینے میں کم و بیش دو قوانین منظور کیے گئے، مگر آئین کی رُوح کے مطابق بعض اہم نوعیت کے قوانین پر کسی قسم کی اجتماعی دانش استعمال کی گئی اور نہ ہی بحث کا بنیادی راستہ چُن کر قوانین میں خامیاں دُور کی گئیں۔
سچ یہ ہے کہ جمہوری پارلیمانی نظام کو ایک ہائبرڈ نظام میں بدلنے کا باضابطہ آغاز تو سال2014 ء کے دھرنے سے ہوا، مگر اس پر مکمل عمل درآمد سال2018 ء اور پھر سال2024 ء کے انتخابات کی صُورت ہوا۔2024 ء کے انتخابات کے بعد پارلیمینٹ میں کی جانے والی قانون سازی میں قومی اہمیت کے قوانین کی منظوری سے قبل پارلیمینٹ کے اندر کُھلے عام بحث کی بجائے خفیہ پن یا سیکریسی کا اصول مدّ ِنظر رکھا گیا۔
اس کا سب سے اہم ثبوت پارلیمینٹ کی4نومبر2024 ء کی کارروائی ہے، جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرّری کے طریقۂ کار، آئینی عدالت یا آئینی بینچ کے قیام کے ساتھ، تینوں مسلّح افواج، برّی، بحری اور فضائی سروسز کے چیفس کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے قوانین میں بڑی تبدیلیوں یا ترامیم سے قبل ان قوانین کو ایوان میں ارکان کے سامنے پیش کیا گیا، نہ متعلقہ کمیٹیز اور ایوان میں کوئی سیر حاصل بحث کی گئی۔ یعنی جوسامنے لایا گیا، اُسے جُوں کا تُوں منظور کرلیا گیا، ہینگ لگی نہ پھٹکری اور قانون سازی مکمل۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمینٹ میں قانون سازی سے قبل بحث کا مقصد ارکانِ پارلیمان کی اجتماعی دانش کے ذریعے مجوّزہ قوانین میں موجود سقم اور خامیوں کو دُور کرنا ہوتا ہے تاکہ قومی امور پر کی جانے والی قانون سازی میں کسی قسم کی کوئی کم زوری نہ رہے اور مُلک و قوم اس قانون سازی کے ثمرات مؤثر انداز سے سمیٹتے رہیں، لیکن یہاں تو اجتماعی دانش کا اصول گویا ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔’’طاقت وَروں‘‘ کے سامنے پارلیمینٹ ایسی بے بس نظر آئی، جیسے کوئی میمنا ہو، مگر ظاہر ہے، اِس کیس میں میمنا بھی اِتنا معصوم نہیں، کیوں کہ متنازع انتخابی نتائج کے بعد ارکانِ پارلیمان، بالخصوص حکومتی اراکین کی اخلاقی حیثیت پر بھی بہرحال ایک سوالیہ نشان تو ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم سمیت غیرمعمولی ترامیم،27قانونی بلز کی منظوری
ایسا نہیں کہ سال2024 ء میں صرف اُنہی قوانین کی ترتیبِ نو کی گئی، جو فوجی اسٹیبلشمینٹ یا حُکم ران اشرافیہ کی ضرورت تھے، کچھ عوامی اور ادارہ جاتی مفادات کے لیے بھی قانون سازی ہوئی۔ لیکن ظاہر ہے، اس میں صرف محدود اراکین ہی نے دل چسپی ظاہر کی، جس میں قانون سازی کے مجوّزہ طریقۂ کار پر تو عمل ہوتا نظر آیا، تاہم اس عمل میں بھی قانون کی رُوح نظر انداز کر دی گئی۔
قانون سازی کے عمل میں اراکین کی عدم تیاری اور عدم دل چسپی بھی کسی بڑے مسئلے سے کم نہ رہی۔دونوں ایوانوں کی طاقت اس کی قائمہ کمیٹیاں ہوتی ہیں، جن کا بنیادی مقصد اداروں کی نگرانی و احتساب کے علاوہ مجوّزہ قوانین کے ہر پہلو پر غوروغوض کرنا ہوتا ہے تاکہ مجوّزہ قانون سے متعلقہ ماہرین کی رائے ملحوظِ خاطر رکھ کر وسیع تر قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ کمیٹیوں میں ہونے والی قانون سازی میں اراکین کی عدم دل چسپی غالب رہی، تاہم اکّا دکّا اراکین ایسے بھی تھے، جو واضح طور پر اس عمل میں دل چسپی لیتے رہے۔
پارلیمینٹ کی کارروائی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے۔ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ ایوان میں جہاں معمول کی کارروائی پُرامن طریقے سے آگے لے جانے کے ذمّے دار ہوتے ہیں، وہیں اُن پر ایوان اور اس کے ارکان کی عزّت وآبرو کی پاسبانی کی ذمّے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حُکم ران اتحاد نے اپنی تمام کمیوں اور کجیوں کے باوجود، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے عُہدوں کو مدبّر اور سُلجھے ہوئے سیاست دانوں کے ساتھ پُر کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی تجربہ کار سیاست دان ہیں اور دونوں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے، مگر مجموعی ہائبرڈ ماحول میں وہ دست یاب صُورتِ حال میں ایک حد سے زیادہ نہیں جاسکے، تاہم ایوان میں موجود اپوزیشن کے ارکان نجی محفلوں میں دونوں کی تعریفیں کرتے رہے۔
ستمبر 2024ء کو دورانِ سیشن پی ٹی آئی اراکین کو پارلیمینٹ کے احاطے سے گرفتار کرنے کا معاملہ سامنے آیا، تو اس پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کُھل کر اپنا کردار ادا کیا اور محبوس اراکانِ پارلیمان تو بازیاب کروا لیے گئے، مگر اغوا کاروں کا ظاہر ہے، کچھ نہیں ہوسکا۔
اجلاس کے ایجنڈے ارکان سے خفیہ رکھے گئے
نہ صرف یہ بلکہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریکِ انصاف کے اراکین نے مُلک کے مختلف حصّوں سے اپنے گھروں پر چھاپوں کی شکایات کیں، بعض اراکین کے پُراسرار طور پر جبری اغوا کی خبریں بھی آئیں، جن میں ریاستی محکموں پر انگلیاں اُٹھائی گئیں، مگر اسپیکر اِس حوالے سے کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔
یہ الگ بات کہ اسپیکر قومی اسمبلی اب تک اپنا کردار کافی حد تک غیر جانب دارانہ انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپوزیشن، حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کے درمیان مذاکرات کے لیے بھی راہ ہم وار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چیئرمین سینیٹ کے عُہدے پر تجربہ کار سیاست دان اور سابق وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی فائز ہیں۔
اُن کے زیرِ انتظام سینیٹ مؤثر انداز میں چل رہا ہے۔ اُنھیں اُن دشواریوں کا سامنا نہیں رہا، جن کا سامنا قومی اسمبلی یا اس کے اسپیکر کرتے رہے۔ سینیٹ کے ایوان میں ماحول پُرامن رکھنے اور اپوزیشن کو اس کا بھرپور کردار ادا کرنے کا برابر موقع دینے پر یوسف رضا گیلانی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمینٹ میں، جو صدر، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں پر مشتمل ہے، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے بظاہر ہائبرڈ اور متنازع انتخابات سے جنم لینے والی پارلیمینٹ میں جمہوری اقدار بچانے کی خاصی کوششیں کی ہیں، مگر زخمی اور کم زور جمہوریت ابھی تک وینٹی لیٹر ہی پر ہے، جسے اس مقام پر پہنچانے میں فوجی اسٹیبلشمینٹ، سیاسی قیادت، بالخصوص عمران خان اور عدلیہ، یعنی سب نے اپنے اپنے حصّے اور طاقت کے مطابق کردار ادا کیا ہے۔
وزیرِ اعظم قومی اسمبلی میں کم کم، اسحاق ڈار بیش تر اوقات سینیٹ میں نظر آئے
پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں لیڈرز آف دی ہاؤس اور لیڈرز آف اپوزیشن کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف وزیرِ اعظم اور قائدِ ایوان ہیں، جب کہ لیڈر آف دی اپوزیشن یا قائدِ حزبِ اختلاف کا کردار عُمر ایّوب نبھا رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم، شہباز شریف قومی اسمبلی کے ایوان میں ضرورت پڑنے ہی پر نظر آتے ہیں، وہ ایوان کی بجائے وزیرِ اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر اجلاسوں میں شرکت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عُمر ایوب لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں اور متعدّد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اُن کے دادا، جنرل ایّوب مُلک کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر تھے، مگر اس کم زور پس منظر کے باوجود وہ قومی اسمبلی میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بالادستی کی آواز اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔
تاہم، پارلیمانی سال کے دَوران اُن کی طرف سے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کا کوئی عندیہ دیا گیا اور نہ ہی ایوان کے اندر کارروائی کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے کوئی کردار ادا کیا گیا۔ البتہ، اپوزیشن کے چیف وہیپ، عامر ڈوگر ایک تجربہ کار سیاست دان کے طور پر سامنے آئے اور اُنہوں نے متعدّد امور پر پارٹی کو ٹکراؤ سے بچایا۔
سال2024 ء کے دَوران قومی اسمبلی اجلاس کا ایجنڈا مشاورت سے طے کرنے کے لیے لیڈر آف دی اپوزیشن کی طرف سے اسپیکر کی زیرِ صدارت ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاسوں میں براہِ راست شرکت کی گئی، تاہم ایجنڈے پر اختلافات برقرار رہے۔ عُمر ایوب کسی بھی جگہ پارٹی کے بانی رہنما، عمران خان کو زمینی صُورتِ حال پر قائل کرنے میں ناکام نظر آئے تاکہ ایوان میں ایک حکمتِ عملی کے ذریعے ہم آہنگی پیدا کرکے معاملات آگے بڑھائے جاسکیں۔
اسپیکر، چیئرمین سینیٹ نے ماحول خوش گوار رکھنے کی کوششیں کیں
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں4 نومبرکو فوجی قیادت سے متعلق کی گئی ترامیم کے موقعے پر کم و بیش چار بار ایجنڈا بدلا گیا۔ ابتدائی ایجنڈوں میں مذکورہ قانون سازی کا تذکرہ ہی موجود نہ تھا اور اسے خفیہ رکھا جارہا تھا، جسے آخری وقت پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں اراکانِ قومی اسمبلی کے سامنے لایا گیا۔ بہرحال اِس سارے معاملے پر زیادہ ذمّے داری اسپیکر آفس ہی کی ہے، جن کی طرف سے ایجنڈا ایک روز پہلے فائنل کرنا ضروری ہے۔ اِس معاملے پر پی ٹی آئی نے بھی کوئی بڑا اعتراض نہ کیا۔
ایوان کے اندر کم و بیش پانچ پی ٹی آئی ارکان نے متنازع آئین سازی اور قانونی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالا، مگر پی ٹی آئی یا اپوزیشن لیڈر کی طرف سے اس پر کوئی واضح یا ٹھوس حکمتِ عملی نہیں اپنائی گئی۔
دوسری طرف سینیٹ میں نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار قائدِ ایوان اور ممتاز مزاحمتی شاعر احمد فراز کے بیٹے، شبلی فراز لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں۔ اسحاق ڈار ایوان میں نظر آتے رہے اور وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے مصروفیات کے باوجود ایوان میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
شبلی فراز نے سینیٹ میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی منفی کردار ادا نہیں کیا۔ متعدّد اراکانِ پارلیمان ان کے اسٹیبلشمینٹ سے قریبی روابط کا تذکرہ کرتے ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شبلی فراز بھی ایوان اور مجموعی سیاسی منظرنامے پر جاری تناؤ کی اس کیفیت میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔
پارلیمانی سال کے آغاز میں صدر آصف علی زرداری نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے شور شرابے اور احتجاج کے دَوران اپنی صدارتی تقریر کی۔ صدر آصف علی زرداری اقتدار کے بند دروازوں کے پیچھے خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وہ اپنے بیٹے بلاول بھٹّو کو آگے لانے کے لیے اور بھی زیادہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تاہم، صدر کی حیثیت سے وہ خاموشی کے ساتھ بھی اپنا پارلیمانی کردار ادا کر رہے ہیں۔
سال2024 ء میں پارلیمینٹ کی مجموعی کارکردگی کو اسی سال کے آغاز میں ہونے والے متنازع انتخابات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحول سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2014ء سے2024 ء تک کے دس سالوں میں مُلک شدید سیاسی اضطراب کا شکار رہا۔ فوجی اسٹیبلشمینٹ کی ایما پر سال2014 ء میں عمران خان کی طرف سے شروع ہونے والے دھرنے نے اُس وقت کی نواز شریف حکومت کے جسم پر ایسے کارے وار کیے کہ 2017ء میں عدلیہ نے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اُن کی حکومت ختم کی۔
پھر2018ء کی ربر اسٹیمپ اسمبلی کے بعد2024 ء کی ربر اسٹیمپ پارلیمینٹ آئی، جو2018 ء کی اسمبلی سے زیادہ کم زور ثابت ہوئی۔ اِس سارے ماحول میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا کردار کم ہوا، عدلیہ کم زور ہوئی، جب کہ اسٹیبلشمینٹ، بالخصوص آرمی چیف کی طاقت میں اور زیادہ اضافہ ہوا۔ یہ الگ بات کہ خیبر پختون خوا،بلوچستان میں جاری دہشت گردی اور مُلک کے مجموعی سیاسی کھنچاؤ میں اسٹیبلشمینٹ کی سیاسی بالادستی ٹوٹی، تاہم مُلکی پارلیمینٹ ہائبرڈ نظام کی قید میں رہی۔
اپوزیشن واضح حکمتِ عملی طے کرنے میں ناکام رہی
پارلیمینٹ کے اندر مجموعی طور پر10 سیشنز ہوئے، جس میں حکومت اور اپوزیشن کے بعض چیدہ چیدہ ارکان ہی سامنے آکر کردار ادا کرتے رہے، تاہم یہ کردار زیادہ تر الزامات اور الزامات کے جواب میں الزامات کے سِوا کچھ نہ تھا، جس کے نتیجے میں کوئی صحت بخش سیاسی فضا قائم نہ ہوسکی کہ جس سے پارلیمینٹ ہائبرڈ نظام کی قید سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال پاتی۔
ظاہر ہے، اس سب کی بڑی ذمّے داری ضدّی عمران خان ہی پر عائد ہوتی ہے، جو آج بھی سیاست دانوں اور پارلیمینٹ سے زیادہ اعتماد اور اُمید اسٹیبلشمینٹ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں، بقول میر تقی میر؎میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب…اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔
یوں تو سارا سال حکومت اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے درپے رہے، بالخصوص پی ٹی آئی نے کبھی حکومت کی جائزیت کو قبول ہی نہ کیا۔ تاہم سال کے آخری ہفتوں میں اسپیکر قومی اسمبلی کی کوششوں سے حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر بیٹھ ہی گئے، جو بہرحال سالِ نو کے لیے ایک نئی اُمید ضرور ہے۔
2024 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی پارلیمینٹ کے پہلے پارلیمانی سال میں کی گئی اہم قانون سازی
پیر4 نومبر، سپریم کورٹ ججز کی تعداد ترمیمی بل۔پیر4 نومبر، سپریم کورٹ عملی طریقۂ کار ترمیمی بل۔ پیر4 نومبر، اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل۔پیر4 نومبر، پاکستان آرمی ترمیمی بل۔پیر4 نومبر، پاکستان ایئر فورس ترمیمی بل۔ پیر4 نومبر، پاکستان نیوی ترمیمی بل۔بدھ23 اکتوبر، قانونی امداد و انصاف اتھارٹی ترمیمی بل۔
منگل22 اکتوبر، بینک کاری کمپنیز ترمیمی بل۔منگل22 اکتوبر، بیج ترمیمی بل۔ پیر21اکتوبر،26ویں آئینی ترمیمی بل۔ پیر 21اکتوبر، سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل۔ جمعہ 18اکتوبر، خصوصی عدالت بیرونِ مُلک پاکستانیوں کی جائیداد کے قیام کا بل۔ جمعہ 18اکتوبر، ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل۔ پیر 9ستمبر، نیشنل یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی ترمیمی بل۔ جمعہ6 ستمبر، الیکشنز ترمیمی بل۔
پیر2 ستمبر، اپاسٹیل بل۔پیر 2ستمبر، کینابیس کنٹرول اور ریگولیٹری اتھارٹی بل۔ پیر2 ستمبر، ٹیلی کمیونی کیشن اپیلیٹ ٹریبیونل کے قیام کا بل۔ پیر2 ستمبر، نج کاری کمیشن ترمیمی بل اور رپورٹ۔ پیر26اگست، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری مقامی حکومت ترمیمی بل۔
بدھ10جولائی، سرکاری انٹر پرائزز(حکمرانی اور آپریشنز) ترمیمی ایکٹ۔ جمعہ28 جون، الیکشنز ترمیمی بل۔ پیر10جون، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ترمیمی بل۔ پیر10جون، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل۔ پیر10جون، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ ترمیمی بل۔پیر10 جون، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ترمیمی بل۔ پیر 29 اپریل، ٹیکس قوانین (ترمیمی) ایکٹ۔