• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ نو ایک استعارہ ہے…وقت ہر ایک سا ہمارا ہے…سال ہوتے ہیں، موسموں کی طرح… ہمیں سب موسموں نے مارا ہے…وقت نے تو فقط پلک جھپکی…آنکھ میں ہوبہو نظارہ ہے… حال بگڑا ہے اور بھی اپنا…ہم نے جتنا اسے سنورا ہے… اپنے سائے کے ساتھ چلتے رہے …اور سمجھتے رہے، تمہارا ہے…جو محبت کرے، وہی جانے…اس میں اِک مستقل خسارہ ہے…زندگی ہم خرید بیٹھے تھے…قرض ہر سانس نے اُتارا ہے…کیا مناؤں میں سالِ نو ابرک…جب وہی سال پھر دوبارہ ہے۔ (اتباف ابرک) سچ بھی یہی ہے کہ حِرماں نصیب قوموں کی زندگیوں میں ’’سالِ نو‘‘ کا مطلب محض ہندسے کی تبدیلی ہی ٹھہرتا ہے۔

ہمارے لیے 2024ء، 2025ء ہی تو ہوا ہے اور کیا بدلا ہے۔ گرچہ سالِ رفتہ اس اعتبار سے ایک بےحد منفرد سال تھا کہ آج تک کی معلوم تاریخ میں کبھی کسی ایک برس میں دنیا کے اتنے زیادہ ممالک میں انتخابات نہیں ہوئے۔(ویسے یہ دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال بھی قرار پایا) تب ہی اُسے ’’دی مدر آف آل الیکشن ایئرز‘‘ کا ٹائٹل دے گیا۔ 

واضح رہے، دنیا کے 195ممالک میں سے لگ بھگ100ممالک میں انتخابات ہوئے اور قریباً4 ارب20 کروڑ افراد نے الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا۔ سرِفہرست ممالک میں امریکا، روس، برطانیہ، بھارت، انڈونیشیا، فرانس، جرمنی، تُرکی، ایران، برازیل، اسپین، اٹلی، پولینڈ، جنوبی کوریا، تائیوان، میکسیکو، نیدرلینڈز، سری لنکا، بنگلا دیش اور پاکستان شامل تھے، جب کہ تین ممالک میں (برطانیہ، فرانس، ایران) یہ انتخابات بہ وجوہ قبل ازوقت بھی ہوئے۔ 

ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں باعزت واپسی ہوئی، پیوٹن پانچویں مرتبہ صدربن گئے۔ کیئر اسٹارمر کی جیت سے برطانیہ میں قریباً14برس بعد لیبر پارٹی اقتدارمیں آئی۔ نریندر مودی، نہرو کے بعد تیسری ٹرم کے لیے منتخب ہونے والے پہلے وزیرِاعظم بن گئے، گرچہ اُن کے انتخابی نعروں ’’اب کی بار 400 پار‘‘ اور ’’مودی کی گارنٹی‘‘ کی خاصی ہَوا، اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے ہاتھوں (جسے راہول گاندھی لیڈ کررہے تھے) ہزیمت کی صُورت نکلی، یہاں تک کہ پریانکا گاندھی نےلوک سبھا میں پہلی اینٹری ایک ’’فلسطینی بیگ‘‘ کے ساتھ دی، جس پر فلسطینی پرچم، تربوز، فاختہ کی علامات نمایاں تھیں۔ 

ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹرحادثے میں ہلاکت کے بعد اصلاح پسند مسعود پزشکیان صدارتی انتخاب جیتنےمیں کام یاب ہوئے۔ بنگلادیش میں انتخابات کے بعد ایک ایسی طوفانی طلبہ تحریک کا آغاز ہوا کہ جو بالآخرحسینہ واجد کے16 سالہ آمرانہ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ اُن کے مُلک سے فرار ہی پہ جا کےمنتج ہوا۔ 

بعدازاں،84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے۔ مگر اِس بظاہر ’’خرابی‘‘ میں ہمارےلیے جو تعمیرکی صُورت مضمر تھی، وہ یہ کہ عبوری حکومت کے نتیجے میں قریباً دو دہائی بعد پاکستان اور بنگلا دیش کے مابین براہِ راست تجارتی روابط بحال ہوگئے۔

2010ء سےجو’’عرب اسپرنگ‘‘ کا آغاز ہوا تھا، اُسی تناظر میں سالِ رفتہ کی غالباً سب سے حیران کُن خبر یہ رہی کہ نومبر کے وسط میں تیونس، لیبیا، مصر، یمن اور سوڈان کے بعد بالآخر شام کے مطلق العنان صدر، بشارالاسد کا بھی لگ بھگ چار دہائیوں پر محیط اقتدار کا سورج غروب ہوہی گیا۔ گرچہ10 سالہ خون ریز خانہ جنگی کے نتیجے میں 15لاکھ سے زائد شامی شہری ہلاک اور ایک کروڑ کے قریب (جب کہ شام کی کُل آبادی ہی2 کروڑ تھی) بےگھر ہوگئے اور یہ موجودہ صدی کی تباہ کُن جنگ کہلائی۔ 

پھر7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جارحیت و بربریت بھی سالِ گزشتہ اپنےعروج کوپہنچ گئی۔ معصوم، نہتّے فلسطینیوں کا خونِ ناحق حقیقی معنوں میں پانی کی طرح بہایا گیا۔ ہلاکتوں کی تعداد50 ہزار تک ہوگئی، تو زخمیوں اور کھنڈر بنے مکانات کی تو کوئی گنتی، قطارشمارہی نہیں۔ رحمان فارس نے ’’بیادِ شہدائے پشاور‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شاید خونِ دل سے لکھی تھی۔

وہ معصوم فلسطینیوں، خصوصاً بچّوں پر ہر روز ٹوٹتی اِک نئی افتاد پر رہ، رہ کے یاد آتی ہے ؎ ’’تسلیم ہے کہ موت سے ممکن نہیں فرار…مانا کہ زندگی بالکل نہیں وفا شعار…ہرمنبعٔ حیات پہ ہوگا اجل کا وار…خُوشبو ہے دیرپا، نہ کوئی پھول پائیدار…لیکن ابھی یہ رنگ تو کچّے تھے ہائے ہائے…کم سِن تھے، بےگناہ تھے، بچّےتھے ہائے ہائے…تھے چودھویں کے چاند، وہ معصوم نونہال… عُمریں قلیل، ننھے بدن، بھولے خدوخال… بے فِکریوں کا دَور تھا، بچپن کے ماہ و سال… واحسرتا! کہ ہوگئے اپنے لہو میں لال…گل پیرہن تھے اور کفن پوش ہوگئے…گودی سے اُترے، قبر میں رُوپوش ہوگئے…اب داستانِ رنج والم کیا کروں بیاں… وقتِ وداع، نزع کا عالم، وہ ہچکیاں…ننھے لبوں پہ تازہ لہو کی وہ پپڑیاں…وہ شکوہ سنج آنکھیں، وہ خاموش سسکیاں…ماں، باپ کو پکارا تو ہوگا کہ آئیے…اپنے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے اٹھائیے…دوڑے تو ہوں گے ہائے وہ بچّے اِدھر اُدھر…دیکھا تو ہوگا سُوئے فلک بھی بہ چشمِ تر…چیخوں سے اُن کی کانپ اُٹھے ہوں گے بام و دَر…لیکن کہیں سے آئی نہ امداد وقت پر۔‘‘ 

اور شاید المیے سے بڑا المیہ، سانحے سے بڑا سانحہ یہی ہے کہ خونِ مسلم اس قدر ارزانی سے بہتا رہا اور ’’ایک جسم‘‘ کہلانے والی ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ ساحلِ نیل سے کاشغر کی خاک تک خوابِ خرگوش ہی کےمزے لُوٹتی رہی، بلکہ بےکس، بےیار و مددگار فلسطینیوں کو خاک و خون میں نہلانے، اُن کی بےبسی کا تماشا دیکھنے والے بھیڑیوں، درندوں کے منہ کو تو کچھ ایسا خون لگا کہ اِس یک طرفہ جنگ کا دائرۂ کارلبنان، ایران تک بڑھا دیا۔ حسن نصراللہ، اسماعیل ہانیہ، یحییٰ سنوار کو شہید کیا گیا اور بعدازاں، شام کی صُورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں تک قابض ہوگئے۔ 

یوکرین جنگ بھی ساری دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہونے کے باوجود بدستور جاری ہے۔ نو منتخب امریکی صدر کا دعویٰ تو ہے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی جنگیں بند کروا دیں گے۔ مگر وہ کیا ہے کہ ؎ آہ کوچاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک…کون جیتا ہے، تِری زلف کے سر ہونے تک۔ امریکا، فرانس ہی کی ثالثی سے لبنان، اسرائیل مابین ایک کاغذی امن معاہدہ ہوا بھی تو، اُس کے پرخچے ہی اُڑتے رہے۔

سالِ گزشتہ کے مُلکی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں، تو ہمارے توسال کا آغاز ہی کچھ خُوش کن نہیں تھا۔ 16جنوری کو مُلکی تاریخ میں پہلی بار ایران کی طرف سے میزائل حملے کی صُورت کھلی سرحدی دہشت گردی ہوئی، جواباً پاک فوج نے بھی حساب چُکتا کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ ’’آپریشن مرگ بار سرمچار‘‘ کے تحت فوری جوابی کارروائی عمل میں آئی، توایران کو گویا لینے کے دینے پڑ گئے۔ 

بعدازاں، ایرانی صدر نے اہلیہ کے ساتھ پاکستان کا3 روزہ سرکاری دورہ کیا۔ ماہِ فروری بھی مُلک میں ہونے والے عام انتخابات کے سبب خاصا ہنگامہ خیز رہا، جب کہ حسبِ روایت لگ بھگ تمام ہی جماعتیں انتخابات کے نتائج سے ناخوش، نامطمئن دکھائی دیں۔ وہی غیرمنصفانہ، دھاندلی زدہ الیکشن کا رونا، سیاپا ایک بار جو شروع ہوا، تو پورا سال ہی احتجاجوں، جلسوں، جلوسوں، الزامات، دشنام طرازیوں ہی کی نذر ہوگیا۔ سیّد محمد جعفری کی ’’الیکشن‘‘ کے عنوان سے نظم کا ایک شعر ہے ؎ جمہوریت کے پاؤں میں جھانجھن ہے آج کل…یہ مُلک اِس کے ناچ کا آنگن ہے آج کل۔ 

تو بھئی، بہت رو پیٹ کے جیسے تیسے ایک ’’اتحادی حکومت‘‘ کا قیام تو عمل میں آ ہی گیا، مگر پورا مُلک ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ کی عملی تفسیر ہی بنا رہا۔ خصوصاً قیدی نمبر 804 کی جماعت اور ایک صوبے میں بننے والی حکومت نے تو سارا سال ناچ ناچ کے اپنی جھانجھنیں ہی توڑ ڈالیں۔ 

کبھی کہیں دنیا میں دیکھا، سُنا ہے کہ کسی مُلک کے ایک صوبے کا وزیرِاعلیٰ آئے روز وفاق پر یلغار کی نہ صرف دھمکیاں دے بلکہ کرائے کےغنڈوں کے ساتھ کنٹینرز پہ چڑھ، گنڈاسہ لیے حملہ آور ہی ہوجائے۔ بہرکیف، 24 نومبر کو جب اس ’’سرکس‘‘ کی فائنل کال کو ’’فائنل ٹچ‘‘ دیا گیا تو تب سے تادمِ تحریر کچھ ’’آرام‘‘ ہے۔ 

اب یہ آرام کب تک ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ جب سے ’’تحریکِ انتشار‘‘ نے مُلکی سیاست میں قدم جمائے ہیں، عوام النّاس تو سرے سے امنِ عامہ کے معنی ہی بھول گئے ہیں۔ ’’ایبسلیوٹلی ناٹ‘‘ کے فراڈ سے لے کر ’’دل والے ’’دلہنیا‘‘ لے کے جائیں گے‘‘ تک سارا سفر انفراق وانتشار، تخریب و پراگندگی ہی کا ہے۔ وہ کیا ہےکہ؎ جو چال ہم چلے، نہایت بُری چلے۔ 

یہاں تک کہ خاندانوں میں پُھوٹ ڈلوا دی، بھائی کوبھائی سے لڑوا دیا۔ بہرکیف، ’’اتحادی حکومت‘‘ کی نظامت شہباز شریف کے حصّے آئی۔ صدارت کے عُہدے پر آصف علی زرداری دوسری بار متمکّن ہوئے، تو مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی باگ ڈور مُلکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون، مریم نواز شریف نے سنبھالی۔ 

سُنتے توہیں کہ مُلک ایک بار پھر تعمیر و ترقی کے رستے چل پڑا ہے۔ چینلز کی بریکنگ نیوز، اخبارات کی سُرخیاں مثبت اشاروں کی نوید سُناتی ہیں، لیکن عملاًعوام النّاس تک ثمرات کب پہنچیں گے، پھر وہی بات کہ ؎ دامِ ہر موج میں ہےحلقۂ صد کامِ نہنگ…دیکھیں کیا گزرے ہے، قطرے پہ گہر ہونے تک۔ یہ بھی سُنتے ہیں کہ پنجاب میں بہت کام ہورہا ہے۔ 

ہورہا ہوگا، اہلیانِ خیبر پختون خوا کی قسمت میں تو صرف ’’بڑھکیں‘‘، بلوچستان واسیوں کے نصیب میں دہشت گردی،جوابی کارروائیاں اور اہلیانِ سندھ، خصوصاً کراچی کےباسیوں کےمقدرمیں محض ’’کھڈے‘‘ ہی لکھےگئے کہ معروف شاعر انور مسعود کو کہنا پڑگیا ؎ ہماری ریاضی ہے کم زورایسی… ہمیں کچھ بتاتی، سمجھاتی نہیں ہے…کراچی کی سڑکوں میں کتنے گڑھے ہیں…ہمیں اتنی گنتی تو آتی نہیں ہے۔ 

اور بقول انورشعور؎ بدانتظامیوں کی کوئی انتہا نہیں… یہ انتظامیہ ہے کہ بدانتظامیہ۔ اندازہ لگائیں، کراچی میں صرف اسٹریٹ کرائمز کی رپورٹڈ وارداتوں کی تعداد65 ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی، جب کہ ظلم کی انتہا یہ ہےکہ اِن وارداتوں میں 107 گھرانوں کے چشم وچراغ گُل کردیئے گئے۔ نیز، خستہ حال سڑکوں، بدترین ٹریفک جام وغیرہ کے سبب صرف ٹریفک حادثات میں800 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

سال کے اُفق سے جو چند ایک اچھی خبریں بھی طلوع ہوئیں، اُن میں پاکستان کے سیٹلائٹ ’’آئی کیوب قمر‘‘ کا چاند کےمدار میں داخل ہونا بڑی پیش رفت تھی۔ ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے سربراہی اجلاس کا کام یاب انعقاد، گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا افتتاح اچھی خبریں رہیں۔ پیرس اولمپکس میں مَردوں کے جیولین تھرو مقابلے میں میاں چُنوں کے ارشد ندیم نے92.97 کی تھرو پھینک کے مُلک وقوم کا نام ہی روشن نہیں کیا، عوام کے دِلوں کے بھی مکیں ہوگئے۔ 

دنیا کی طاقت وَر، مضبوط ترین100 خواتین کی فہرست میں دو پاکستانی خواتین حدیقہ کیانی، ماہ رنگ بلوچ نے جگہ بنائی، تو پاورفُل بزنس ویمن کیٹیگری میں بھی دو خواتین شائستہ آصف اور شازیہ سید کے نام شامل ہوئے۔ نیز، ایک پاکستانی بزنس وومن عائلہ مجید کا دنیا بَھر کے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس کی تنظیم ''ACCA'' کا سربراہ منتخب ہونا بھی ایک بڑی خوش آئند خبرتھی کہ وہ اس تنظیم کی120 سالہ تاریخ میں پاکستان سے چُنی گئی پہلی پاکستانی ہیں اور یہ اِس امر پر پکّی مُہر، سند کے مترادف ہے کہ ’’پاکستانی خواتین دنیا میں کسی سے بھی پیچھے نہیں۔‘‘ یورپ کے لیے قومی ایئرلائن کی پروازوں کی بحالی کا فیصلہ بھی ایک نوید سے کم نہیں کہ ’’سلیکٹڈ دورِ حکومت‘‘ کی چند بھیانک غلطیوں میں سے ایک غلطی ہی کی سزا کےطور پر یہ پابندی عائد ہوئی تھی۔

ناراض دوست ممالک سے تعلقات میں بہتری، آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے7 ارب ڈالرز کے فنڈز کی منظوری، مُلکی تاریخ میں پہلی بار اسٹاک ایکس چینج کا ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنا، 2015ء کے بعد ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، کراچی میں منعقد ہونے والا ورلڈ کلچرل فیسٹیول اورعالمی اردو کانفرنس وغیرہ نے بھی عوام کے چہروں پر خوشی و مسرت کے رنگ بکھیرے۔ ویسے سالِ رفتہ، آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے ہر شعبۂ زندگی میں بڑھتے اثرونفوذ کا سال تھا، مگر ساتھ ہی یہ سوشل میڈیا کی بدولت فیک نیوز، جھوٹی خبروں کے ایک طوفانِ بلاخیز کا سال بھی ثابت ہوا۔ 

ایک کے بعد ایک، اور ایک سے بڑھ کر ایک غلط خبر سامنےآتی رہی۔ خصوصاً مُلکِ عزیز میں ایک نجی کالج کی طالبہ سے مبیّنہ زیادتی کی جھوٹی خبر نے تو وہ ہڑبونگ مچائی کہ الامان الحفیظ۔ حکومت کے پاس بھی ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے، ’’بند کردو‘‘۔ 

سو، فائر وال کی تنصیب، ’’ایکس‘‘ کی بندش سے بھی جی نہ بَھرا تو انٹرنیٹ کی رفتار اِس قدر سلو کر دی کہ مُلک کی نوزائیدہ آئی ٹی انڈسٹری، آن لائن کاروباریوں کو خُون کے آنسو ہی رُلا دیا۔ 2024ء میں فیس بُک کے قیام کو20 برس مکمل ہوگئے، تو ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ پاکستان میں اِس کے صارفین کی تعداد6 کروڑ4 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ بھئی، دَور ہی فیس بُک کا ہے۔ 

کتاب، روایتی ذرائعِ ابلاغ رفتہ رفتہ قصّۂ پارینہ ہورہے ہیں۔ ہم بھی اس دَورِابتلا میں ہنوز زندہ ہیں، تو کمال ہی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے…ہوا کی زَد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے۔

ہمارے اِسی کمال وجمال کی ایک زندہ تصویر ہمارا یہ ’’سال نامہ‘‘(ایڈیشن اوّل) ہے۔ ہر برس خیال آتا ہے، شاید یہ آخری ہی ہو، مگر تاحال بات بنی ہوئی ہے، تو یہ بس ربِ کریم ہی کا کرم ہے۔ کوشش تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہی کی ہے کہ کارخانۂ حیات کا کوئی گوشہ، کوئی پہلو ادھورا، تشنہ نہ رہے، مگر پھر بھی بندۂ بشر ہیں، کوئی کمی، کجی رہ ہی گئی ہوگی۔ 

دورانِ مطالعہ علم میں آئے، تو ضرور مطلع کیجے۔ (واضح رہے، یہ سب حالات و واقعات، اعداد و شمار25 دسمبر2024 ء، کاپی پریس جانے تک کے ہیں) آخری بات وہی دہرائے دیتے ہیں کہ کچھ سیکھیں، حاصل کریں، تو داد کے ساتھ جہاد بالقلم کے رستے پرگام زن ادارے اورکارکنانِ ادارہ کے لیے دستِ دُعا ضرور بلند کیجیے گا۔ 

یوں تو ادارے سلامت رہنے چاہئیں، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن اداروں کی سلامتی و کام یابی بھی اچھے، مخلص لوگوں ہی کی مرہونِ منّت ہوتی ہے۔ شاد عظیم آبادی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ ؎ ڈھونڈوگے اگر مُلکوں مُلکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔ 

بہرکیف، عنبریں حسیب عنبر کی اِس خُوب صُورت تمنّا، التجا، دُعا کے ساتھ سالِ نو کی تہنیت پیشِ خدمت ہے۔ ؎ آس کے دیپ جلے ہیں، پھر سے نینن میں…سال نیا جب اُترا سب کے آنگن میں… دیکھ رہے ہیں خواب کہ ایسا ہوجائے…رقص کریں بس خوشیاں اب کے ساون میں…ہم سب مل کر راکھ اُسی کو کر ڈالیں…جو چنگاری آگ لگائے، گلشن میں…پت جھڑ اب کے آنکھ چُرا کر یوں گزرے…فصلِ گل آجائے، سب کے جیون میں…فصلیں کھیتوں میں اُگلیں ایسے سونا… غربت بھی چُھپ کر رہ جائے چلمن میں…گیت محبت کے پھر گھر گھر میں گونجیں…اور گوری سنگھار کرے پھر درپن میں…ایسی خوشیاں، جن کے کچّے رنگ نہ ہوں…میرے مالک بَھر دے سب کے دامن میں۔

نرجس ملک

ایڈیٹر، جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘