رحمان فارس کے اشعار ہیں ؎ لعل و گُہَر کہاں ہیں، دفینوں سے پُوچھ لو..... سینوں میں کافی راز ہیں، سینوں سے پُوچھ لو.....جَھیلا ہے مَیں نے تین سو پینسٹھ دُکھوں کا سال..... چاہو تو پچھلے بارہ مہینوں سے پُوچھ لو۔ گرچہ سالِ گزشتہ کووڈ۔ 19 کی دو ڈھائی سالہ تباہ کاریوں، ہلاکت انگیزیوں سے بہت حد تک نجات کے بعد نسبتاً ایک پُرسکون سال ہونا چاہیے تھا، لیکن اِدھر سال کا آغاز ہوا، اور اُدھر روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ اور پھر اس جنگ نے بالواسطہ اور بلاواسطہ بھی لگ بھگ پُوری دنیا ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کورونا وبا نے دنیا بھر کی معیشت، اقتصادی سرگرمیوں کا جو حال کیا، سو کیا، مَرے پہ سو دُرّے روس، یوکرین جنگ کے بعد روس پرلگنے والی عالمی پابندیوں کے اثرات عالمی کساد بازاری اور توانائی کے شدید بحران کی صُورت بھی بھگتنے پڑے۔ ہوش رُبا منہگائی سے ترقی یافتہ ممالک تک بلبلا اُٹھے، تو تیسری دنیا کے مفلوک الحال عوام کا تو ذکر ہی کیا۔ سری لنکا جیسا دو کروڑ 20لاکھ آبادی والا ملک دیوالیہ ہوگیا، یہاں تک کہ عوامی بغاوت نے حُکم رانوں کو مُلک سے فرار پر مجبور کردیا۔ گرچہ یہ پچھلے 20 برسوں میں بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کرنے والا پہلا مُلک تھا، لیکن اس صورتِ حال نے خطّے کےدیگر ممالک کے لیے بھی گویا خطرے کی گھنٹی بجادی۔
افغانستان کے بدترین معاشی و معاشرتی حالات میں کوئی بہتری آئی اور نہ ہی اُس کی عالمی تنہائی دُور ہوسکی۔ فلسطین، کشمیر میں بدترین ظلم و تشدّد، خوں ریزی کا سلسلہ جاری رہا۔ کشمیر میں حرّیت قیادت پابندِ سلاسل ہوئی، تو یاسین ملک کو عُمر قید کی سزا سُنادی گئی۔ اسی طرح دیگر ممالک میں بھی بدامنی و دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ جاری رہا۔ ایران میں اخلاقی پولیس ’’گشت ارشاد‘‘ کے ہاتھوں 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پورے ایران میں خواتین کے شدید احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ ابوظبی میں حوثی ملیشیا کے ڈرون حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے، تُرکیہ میں خودکُش دھماکا ہوا۔ ملایشیا میں ڈاکٹر مہاتیر محمّد کو53سالہ سیاسی کیریئر میں پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ میں یکے بعد دیگرے وزرائےاعظم کی تبدیلی کا ایک ریکارڈ قائم ہوگیا، یعنی پچھلے چھے برس میں اب تک چھے وزرائے اعظم تبدیل ہو چُکے ہیں۔ ملکہ برطانیہ، الزبتھ دوم کے انتقال کے ساتھ اُن کے 70سالہ طویل ترین دورِ حُکم رانی کا سورج بھی غروب ہوا۔ سابق جاپانی وزیراعظم شینزو ایبے قتل کردیئے گئے، تو امریکی کانگریس کی اسپیکر کے دورئہ تائیوان نے بھی چین، امریکا کشیدگی میں خاصا اضافہ کیا۔ بھارت کی انتہا پسندی نہ صرف مقبوضہ کشمیر، بلکہ خُود بھارت میں بھی عروج پر دکھائی دی۔ کبھی طالبات کے حجاب پر پابندی، تو کبھی گائو ماتا کی بےحُرمتی کے بہانے مسلمانوں کاقتل،مسلمان فن کاروں کودھمکیاں، تو سرحدوں پہ چھیڑ خانیاں۔ پھر نومبر میں انڈونیشیا کے شہر، بالی میں جی۔20 سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اب یکم دسمبر 2022ء سے 30نومبر 2023ء تک کے لیے جی۔20 کی سربراہی بھی بھارت کے پاس آگئی ہے۔
جب کہ365دِنوں کے 365دکُھوں میں گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلی کا بھی بڑا عمل دخل رہا۔ لگ بھگ پورا ہی سال دنیا بارشوں، سیلابوں، طوفانوں، خشک سالیوں، ہیٹ ویوز، زلزلوں اور جنگلات میں آگ لگنے جیسے سانحات کی لپیٹ میں رہی، خصوصاً پاکستان نے تو تاریخ کی بدترین سیلابی بارشوں کا سامنا کیا۔ اس ضمن میں ایک سنجیدہ کوشش مصر کے سیّاحتی مقام ’’الشرم الشیخ‘‘ میں COP-27 سربراہی کانفرنس کے انعقاد کی صُورت سامنے آئی، جس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے پاکستان کا مقدمہ خاصے بہتر انداز سے پیش کیا، تو اِسی طرح سال کے اُفق پر چند ایک اچھی خبروں کی شکل میں کچھ اور تارے بھی جگمگائے۔
جیسے ایران، سعودی عرب تعلقات کی سردمہری کم ہوئی۔ جرمنی میں پہلی بار لاؤڈ اسپیکرپراذان کی اجازت دی گئی۔ پاکستان بالآخر فیٹف کی گِرے لسٹ سے نکلنے میں کام یاب ہوگیا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ ایشیا کپ میں پاکستان سیمی فائنل اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فائنل تک رسائی میں کام یاب رہا اور اِن سب سے بڑھ کر قطر میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ نے تو گویا ایک تاریخ رقم کردی۔ مغرب کے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود خلیجی مُلک میں ہونے والا یہ میگا ایونٹ اپنےفقید المثال انتظامات کے باعث تاریخ کے سینے پر کئی اَن مٹ، یادگار نقوش ثبت کرگیا۔
مُلکی حالات و واقعات پر نگاہ ڈالیں، تو پھر بقول رحمان فارس ؎ کب درد بدلتے ہیں، کب حال بدلتا ہے.....ہاں، سال بدلنے سے بس سال بدلتا ہے۔ تو بس، ہمارا تو صرف ایک سال، ایک ہندسہ ہی بدلا، 2021ء، 2022ء ہوگیا، وگرنہ وہ کیا ہے کہ ؎ مختصروقت میں یہ بات نہیں ہوسکتی.....درد اتنے ہیں، خلاصے میں نہیں آئیں گے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر نیا سال، گزرے سالوں سے کچھ بدتر ہی ثابت ہورہا ہے، تو بھی ہرگز غلط نہ ہوگا کہ سالِ رفتہ سیاسی، معاشی و معاشرتی اور عمومی طور پر بھی جس قدر الم ناک، درد ناک، خوف ناک بلکہ ہول ناک رہا، ماضی میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ حالاں کہ سالِ گزشتہ ہماری پلاٹینیم جوبلی کا سال تھا۔ ہمیں دنیا کےنقشے پر نمودار ہوئے 75برس ہوگئے، لیکن افسوس کہ 75 برس کے ہو کے بھی ہمارا مجموعی رویّہ ٹین ایجرز جیسا ہی ہے، خصوصاً حُکم رانوں اور اُن میں بھی خصوصیت سے پچھلے پونے چار برس تک برسرِاقتدار رہنے والوں کا۔
اُف!صرف 2022ء میں تحریکِ عدم اعتماد سے امریکی سائفر سازش بیانیے تک، استعفوں سے رجیم چینج آپریشن، امپورٹڈ حکومت کے قیام تک، لانگ مارچ/ حقیقی آزادی مارچ سے پی ٹی آئی قیادت پر حملےتک، پنجاب میں مستقلاً اکھاڑ پچھاڑ سے عدالت کےمِڈنائٹ اور الیکشن کمیشن کے تاخیری فیصلوں تک، فارن فنڈنگ کیس میں نااہلی سے ضمنی انتخابات میں بیک وقت 8 سیٹوں پر الیکشن لڑنے اور 6 میں کام یاب بھی ہوجانے تک، توشہ خانہ اسکینڈل سے انتہائی غلیظ، مخرّبِ اخلاق آڈیو، ویڈیو لیکس تک، عثمان بزدار کی تبدیلی سے حمزہ شہباز، پرویز الٰہی میں اقتدار کی رسّہ کشی تک، خاتون جج کو دھمکی دینے سے عدالت پہنچ کر غائبانہ معافی نامے (’’کہنا کہ عمران آیا تھا‘‘) تک، مذہبی ٹچ سے لے کر ’’ارسلان بیٹا! بغاوت سے جوڑ دو‘‘ اور ’’کس سے پوچھ کے تصویریں کھینچی ہیں؟‘‘ تک، فیصل واوڈا کے پلانٹڈ انٹرویو/ پریس کانفرنسز سے مریم نواز سمیت نون لیگیوں کے ایک کے بعد ایک کیسز کے خاتمے تک، ’’نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے‘‘ سے 75 سالہ مُلکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس تک، پون صدی کی غیر علانیہ سیاست کے بعد اچانک ’’غیرسیاسی‘‘ ہونے کے باقاعدہ (محض اعلان) تک، معمول کی ایک تعیناتی کو مسئلہ کشمیر سے بڑا مسئلہ بنادینے سے کمان کی تبدیلی تک، مفتاح اسمٰعیل کی بہیمانہ مسکراہٹ سے اسحاق ڈار کی دھماکے دار اینٹری اور پھر آنیوں جانیوں تک، وزیرخارجہ کے مُلک میں کم، بیرونِ ممالک زیادہ قیام سے وزیراعظم کی بے موقع جذباتی تقریروں تک۔
سابق صدر کی سیاسی چال بازیوں سے موجودہ صدر کی ہنگامی ہیلی کاپٹر اُڑان تک، ٹرانس جینڈر ایکٹ سے نیب ترامیم تک، بلدیاتی انتخابات سے ضمنی انتخابات تک، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے ریکوڈک معاہدے تک، نام نہاد’’صادق و امین‘‘ کی منافقتوں، یُوٹرنز سے مولانا فضل الرحمٰن کے ارشادات تک، ڈالر کی اونچی اُڑان سے سونے کے دسترس سے باہر ہوجانے تک، ادویہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے سے ’’پیناڈول مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘‘ تک، فرح خان گوگی کےکارناموں سےشہباز گل، اعظم سواتی کے ڈراموں تک، مولا جٹ کی کام یابی سے کامران ٹیسوری کی تعیناتی تک اور ’’لاہور دا پاوا، اختر لاوا‘‘ سے ’’میرا دل یہ پُکارے آجا…‘‘ تک ان گناہ گار آنکھوں نے کیا کیا نہیں دیکھ لیا۔ مطلب ؎ سرِبازار ہم نے بھی تماشا کیا نہیں دیکھا۔ اور بقول تاجدار عادل ؎ چال پہ چال پڑ رہی ہے یہاں…مُلک ہے یا بساط شطرنج کی۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس ایک سال میں اتنا کچھ دیکھ لیا ہے کہ اب اور کچھ دیکھنے کی ہمّت و حسرت ہی نہیں رہ گئی۔ پوری قوم کو عجیب گھن چکّر، نفسیاتی کرکے رکھ دیا ہے، خاص طور پر اس’’عمرانیات‘‘ (پراجیکٹ عمران اور پوری حکومتِ شغلیہ) کا جائزہ و محاسبہ تو بذاتِ خود ایک پاگل پَن کا سودا ہے۔
پھر اِن ہی سب فتنہ پروریوں، ہیجان انگیزیوں میں طوفانی بارشوں، سیلاب نے وہ غُل مچایا کہ مُلک کا ایک تہائی حصّہ لپیٹ میں آگیا، مگر جاتے جاتے یہ پانی پورے مُلکی نظام، حکومتی مشینری پر بھی تین حرف بھیج کے گیا کہ ؎ کتنے کم ظرف ہیں، رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے۔ اِسی سال سانحۂ مری جیسا المیہ وقوع پذیر ہوا، تو دہشت گردی کی لہر نے بھی دوبارہ سر اُٹھایا۔ جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے رہے۔ آلودگی، اسموگ نے جینا محال کیا، تو پولیو، ڈینگی، ملیریا اور پالتو جانوروں میں جِلد کی بیماری لمپی اسکن ڈیزیز نے بھی خوف زدہ کیے رکھا۔
اسٹریٹ کرائمز نے تو گویا ہمارا گھر دیکھ لیا ہے، مگر اس سال المیہ یہ ہوا کہ مزاحمت کے دوران سیکڑوں قیمتی جانیں بھی گئیں۔ کئی عالمی شہرت یافتہ شخصیات بچھڑ گئیں، تو ملکی سطح پر بھی کئی درّنایاب پیوندِ خاک ہوئے۔ مسجد نبویؐ میں حکومتی وفد کے خلاف نعرے بازی کے واقعے میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی، تو معروف صحافی ارشد شریف کے کینیا میں پُراسرار قتل نے بھی کئی سوالات اٹھا دیئے۔
کبھی کبھی کہیں کہیں سے روشنی کی کچھ کرنیں بھی پُھوٹیں، جیسے کامن ویلتھ گیمز میں دو گولڈ میڈل، 3 چاندی اور 3 کانسی کے تمغوں کا حصول، ساتویں پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کی پہلی فتح، 24سال بعد آسٹریلوی اور17سال بعد برطانوی کرکٹ ٹیمزکا دورئہ پاکستان، ایشیا کپ، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی اچھی پرفارمینس، دفاعی نمائش(آئیڈیاز2022ء)کا انعقاد، کتب میلہ، عالمی اردو کانفرنس، کراچی میں بالآخر سڑکوں بلکہ کھنڈرات کی استرکاری، گرین، اورنج لائن اور پیپلز بس سروس کا افتتاح، سیلاب زدگان کی امداد کے لیے انتونیو گوتیرس، انجلینا جولی، ملالہ یوسف زئی کا دورئہ پاکستان، سری لنکا ویمن کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد، او آئی سی وزرائےخارجہ کانفرنس کاانعقاد، مُلک کی 3 جامعات کا عالمی درجہ بندی میں ٹاپ 500میں جگہ بنانا اور کچھ پاکستانی نوجوانوں، خواتین کی عالمی سطح پر نمایاں کام یابیاں وغیرہ۔
ایک مختصر سا عمومی جائزہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ؎ یہ سال طولِ مسافت سے چُورچُور گیا.....یہ ایک سال تو گزرا ہے اِک صدی کی طرح۔ بہرکیف، ہم حسبِ روایت ایک بار پھر ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کے ساتھ حاضرِ خدمت ہیں۔ یہ ایڈیشن پارٹ وَن ہے، تجزیوں، تبصروں پر مشتمل ایک سے دو شمارے مزید آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ اَن گنت مسائل اور محدود وسائل کے باوجود (کہ جو مُلک کا حال ہے، لگ بھگ ہر ادارے کا بھی وہی حال ہے) کوشش یہی کی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ایک مکمل دستاویز مرتّب کرکے آپ کی نذر کریں اور یہ ہرگز کوئی آسان کام نہیں تھاکہ ؎ مرکے رہ جاتا ہے فن کار امر ہونے تک۔ پھر بھی کوئی کمی، کوتاہی، غلطی نگاہ سے گزرے تو اصلاح و رہنمائی فرمایئے گا۔ کچھ پسند آئے، حاصل وصول ہو، داد دینے کو جی چاہے، تو ادارے اور ادارے کے کارکنان کے حق میں دعائے خیر ضرور کیجیے گا۔ اور ہاں، یاد رہے، یہ تمام حالات و واقعات، اعداد و شمار 24دسمبر 2022ء (شمارہ پریس جانے تک) کے ہیں۔
رحمان فارس ہی کی اس دُعا کے ساتھ کہ ؎ جس حال میں تم رکھو، وہی حال مبارک.....ہم اہلِ محبّت کو نیا سال مبارک .....ہر دل کو ہو منہ مانگی تمنّائوں کا مژدہ.....ہر آنکھ کو مَن چاہے خدوخال مبارک.....ہر پھیلی ہتھیلی کی دعائوں کو دعائیں.....ہر پائوں کو منزل کی طرف چال مبارک۔ آپ سب کو سالِ نو بہت بہت بہت مبارک ہو۔
نرجس ملک
ایڈیٹر، جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘