• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین، آئین، آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحوں کا کاغذی پرزہ ۔جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔اگر میں آج کہہ دوں کہ کل سے ہم کسی مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے اور ملک کا نظام و انصرام چلائیں گے تو مجھے کون روک سکتاہے۔یہ سابق آمر ضیاالحق کے وہ الفاظ تھے جو انہوں نے تہران میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہے تھے۔ شاید اس وقت کے فوجی آمر کو عوام واقعی نہ روک سکتے ہوں مگر آج کا پاکستان بدل چکا ہے۔ عوام 1973ء کے آئین کا تحفظ کرنا بھی اور اس پر عمل درآمد کرانا بھی اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ 3نومبر 2007ء کے بعد اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ جب پاکستان کے آزاد میڈیا نے باہمی اتفاق اور عوامی طاقت کے ذریعے نہ صرف جابر حاکم کو للکارا بلکہ اس کی رخصتی کا سامان بھی تیار کیا۔ جس کی میڈیا ہاؤسز نے بھاری قیمت بھی ادا کی۔ صرف جنگ، جیو گروپ نے 6ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان برداشت کیا۔آج بھی دیکھتا ہوں تو حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔آج اگر پاکستان کے سپوت حامد میر پر گولیاں برسائی جاتی ہیں تو میں اسے پاکستان کے مقبول ترین پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر پر حملہ تصور نہیں کرتا بلکہ یہ آئین پاکستان پر حملہ کیا گیا ہے۔ گولیاں دراصل حامدمیر پر نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 19A پر چلائی گئی ہیں اور آزادی اظہار کی اس شق کو چھلنی چھلنی کیا گیا۔حامد میر پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بہت کچھ لکھا جائے گا مگر ایک بات تو طے ہے کہ میرٹ کا جو بھی پیمانہ مقرر کر دیا جائے، پاکستان کا حامد کسی بھی طرح سے ماؤزے تنگ یا لاطینی امریکہ کے چی گویرا سے پیچھے نہیں ہے۔جب کبھی دنیا میں آزادی اظہار کے لئے جدوجہد کا ذکر کیا جائے گا،پاکستان کا حامد میر اس میں سر فہرست ہوگا۔ حامد میر پر حملہ کس نے کرایا؟میں اس بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں جانتا مگر بہت ہی گھناؤنی سازش تھی۔ ریاست کے ابھرتے ہوئے چوتھے ستون میڈیا کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی منظم کوشش کی گئی۔ جس میں دشمن شاید کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے مگر اس سارے معاملے میں میرا پاکستان کے عوام سے سوال ہے؟؟ کہ اگر ہم آئین پر عمل نہیں کرسکتے یا اس میں درج شقوں کو ذاتی پسند یا نہ پسند کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اور برداشت اتنی ہے کہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تو پھر شاید ضیاالحق نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے اسے پھاڑ دیں اور قومی سلامتی کے نام پر جو جی میں آئے کرتے چلے جائیں... کیونکہ یہ پاکستان ہے بھائی۔اگر آئین کی شق 19اور 19Aآزادی اظہار کی اجازت دیتی ہے تو مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق164واضح ہے کہ اگر کسی بھی شخص پر قاتلانہ حملہ کیا جاتا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ اسے جس کسی پر بھی شک ہو اس پر وہ بیان بھی دے سکتا ہے اور اس بیان کے بل بوتے پہ اقدام قتل کی ایف آئی آر درج کرائی جاسکتی ہے پھر یہ پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے مگر پولیس کیس درج کرانا تو بہت دور کی بات۔یہاں تو چھ گولیاں جسم میں سموئے ایک محب وطن پاکستانی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا کہ قریبی رفقاء کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا ان کا بیان نشر کرنا وبال جان بن گیاہے۔حامد میر پر قاتلانہ حملے میں ملوث افراد کے تعین کے لئے قائم تین رکنی عدالتی کمیشن کل سے باقاعدہ اپنی تحقیقات کا آغاز کردے گا۔کمیشن تو اس ملک میں بہت بنے ہیں لیکن اگر ہم نے کچھ سبق سیکھنا ہے تو خدارا اس کمیشن کی رپورٹ کو جسٹس حمودالرحمٰن، سلیم شہزاد یا ایبٹ آباد کی طرح ردی کی ٹوکری میں مت ڈالئے گا۔ اگر اس کمیشن نے کچھ سفارشات دیں اور مجرموں کا تعین کیا تو انہیں تاریخ کے کٹہرے میں لانے کے لئے عبرت کا نشان بنایا جائے۔اس معاملے پر مزید کچھ نہیں لکھنا چاہتا،صرف قارئین سے چند سوال کروں گا...کیا11دسمبر2013ء کو افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان نہیں تھے؟ اس روز چند نشریاتی اداروں نے جو کچھ کیا،کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟ کیا وہ غداری کے زمرے میں نہیں آتا؟ ارسلان افتخار کے معاملے میں تمام میڈیا گروپ اس وقت کے چیف جسٹس کی تصویر چلاتے رہے تو کیا وہ غداری تھی؟کیا وہ ملک کے چیف جسٹس نہیں ہیں؟
پاکستان کی مسلح افواج ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ ظاہر ہے اس ملک کی دفاعی سرحدوں کی محافظ ہیں اور یہ ملک انہی کے دم سے قائم ہے۔فوج پاکستان کا ایک منظم ادارہ ہے اور اس کے خلاف بات کرنے والا کسی صورت پاکستانی ہو ہی نہیں سکتالیکن اگر کوئی فرد اپنے آپ کو ادارہ تصور کرتا ہے تو یہ ایک بیوقوفی ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی سب سے اہم ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقت کا منبع ہے اور وہ کوئی بھی غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کرسکتاہے تو ہمیں یہ روایات بدلنا ہوں گی کیونکہ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے دانشور مرور وقت سے خاموش ہوجائیں اور جس کے مردان جری ہنوز عالم طفلی میں ہوں اور قابل رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو اور جس کا ہر ٹکڑا خود کو قوم سمجھے۔ آئین کو اب بھی کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والوں کا عوام کو محاسبہ کرنا ہوگا۔
حامد میر کے واقعے سے دو دیگر معاملات بھی جڑے ہوئے ہیں۔حامد میر کے واقعے کی کوریج کے دوران آئی ایس آئی سے متعلق خاندان کے بیان کو نشر کرنے پر حساس ادارے کا رویہ سب نے دیکھا۔ وزارت دفاع کے ذریعے پیمرا کو شکایت بھیجنا ایک آئینی حق تھا جسے استعمال کیا گیا مگر کیا کیبل آپریٹرز کے ذریعے دھونس اور زبردستی سے ملک کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے کی نشریات سے عوام کو محروم کرنا کونسا آئین ہے۔کیا اداروں کی طرف سے ایسی کارروائی اختیارات سے تجاوز اور غیرقانونی اقدام کے زمرے میں نہیں آتی۔ مجھے خود پنجاب اور سندھ کے بڑے کیبل ہاؤسز نے بتایا کہ فرشتوں نے جیو گروپ کو بند کرنے کا حکم بھیجا ہے ہم مجبور ہیں۔ میں نے فوراً کہا کہ آپ لوگ چیئرمین پیمرا اور ڈی جی آپریشنز کے ماتحت ہیں اور اس حوالے سے پیمرا نے کوئی حکم نہیں دیا ہے،تو جواب دیا گیا کہ جناب ہمیں اپنی جان پیاری ہے۔ انتہائی ذمہ داری سے میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کی پالیسی واضح ہے کہ اس حساس معاملے کا پیمرا آرڈیننس کے مطابق جائزہ لیا جائے اور آئین و قانون کے تحت مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ کسی قسم کی دھونس اور زبردستی نہ کی جائے جو الزام ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔وزیراعظم کی آزادی اظہار کے حوالے سے پالیسی قابل رشک ہے مگر کیا میاں نوازشریف اس معاملے کی باضابطہ تحقیقات سے پہلے ہی کئے جانے والے غیر قانونی اقدامات پر سخت کارروائی کریں گے کیونکہ تمام اداروں ہیں تو وزیراعظم کے ماتحت ہی نا۔ آج ہر پاکستانی جان چکا ہے کہ حامد میر پر حملے کرنے والے ہی اس ملک کے حقیقی دشمن ہیں۔ ان دشمنوں سے لڑنے کے لئے قوم کو متحد ہوکر وطن عزیز کا تحفظ کرنا ہوگا۔ جہاں تک رہی آزادی اظہار کی بات تو پاکستان کی صحافی برادری پہلے ہی اس کی بھاری قیمت ادا کر چکی ہے۔سیکڑوں ساتھیوں کی شہادت کے بعد اب ہمارے پاس کھونے کو زنجیریں اور پانے کو سارا جہاں ہے۔
تازہ ترین