• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات و واقعات کے تاریخی منظر و پس منظر میں دن بہ دن بدلتی سیاسی صورت حال کے تناظر میں امکانات، خدشات اور ممکنات بارے حقائق پر مبنی کوئی بھی حتمی رائے دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ تمام سیاسی فریقین یہی توقع رکھتے ہیں کہ الفاظ کا رُخ ان کی حمایت میں ہو۔ میرے لئے یہ کام ہمیشہ سے نہایت کٹھن رہا ہے۔ حتی الواسع کوشش ہوتی ہے کہ دل و دماغ اور ضمیر کی جو آواز ہو ملک و قوم کے مفاد میں وہی کچھ لکھا جائے کہ تاریخ میں سند رہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ جیسا آپ سوچتے ہیں پڑھنے والوں کی سوچ بھی اسے قبول کرے اور مستقبل میں متوقع تبدیلیاں، حالات و واقعات اور سیاسی رہنماؤں کے آئے روز بدلتے بیانئے ہماری سوچ کے مطابق ہی ہوں لیکن ہماری سیاسی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ سیاسی زعماء نے اسٹیبلشمنٹ کی جن بیساکھیوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کا آسان طریقہ تلاش کررکھاہے اس کے خلاف ہی صف آرا ہو جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کا جواز بھی ہمارے سیاست دانوں نے فراہم کیا اور الزامات بھی اسی پر لگائے۔ آج ہم ایک بار پھر بحرانی صورت حال سے دو چار ہیں۔ (ن) لیگی اتحادی حکومت لاکھ کامیابیوں کے دعوے کرے حقائق جتنے مرضی مثبت اشاریئے دکھائیں عوام کی اکثریت قیدی نمبر 804کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ کل یہی عوام ’بھٹو دے نعرے وجن گے‘گا رہے تھے۔ پھر ’اک واری فیر شیر‘ کا نعرہ گونجنے لگا۔ اس کے بعد تبدیلی سرکار وجود میں آ گئی۔ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ بہادر کو سیاست دانوں نے نشانے پر رکھا۔ داد دونوں کو ملنی چاہئے کہ طعنے بھی سنتے ہیں، الزامات بھی لگتے ہیں سیاست دانوں کی دکان داری بھی چلتی رہتی ہے۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا ان کا چہیتا بن کر آ جاتا ہے۔ عوام کا دل بھی لگا رہتا ہے۔ ایک جاوے تے دوسرا آوے کے اس کھیل میں نہ اسٹیبلشمنٹ کا بھلا ہوتا ہے نہ عوام اور پاکستان کا۔ سیاست دانوں کے نصیب میں جو لکھا ہے وہ بھگت رہے ہیں۔ اب تیسرا زیر عتاب ہے یا یوں سمجھئے کہ ہماری سیاست پر اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی غلبہ پا گئی۔ جب یہ دو حرکات وجود میں آتی ہیں تو پاکستان میں کسی نہ کسی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ جوبائیڈن اقتدار میں آئے تو ہمارے ہی قلم سے یہ الفاظ لکھے گئے کہ ’خان جاوے ای جاوے‘ کہ جو بائیڈن کا پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ایسا دیرینہ رشتہ جوڑا کہ مفروضوں کو حقیقت میں بدل کر خان کی حکومت کو انجام تک پہنچا کر ہی چھوڑا لیکن اس ناکام تبدیلی کو مقبولیت کا نیا بیانیہ مل گیا یہ تبدیلی گلے کی ہڈی بن گئی مقبولیت کے بیانئے والے نے اپنی ہی بیساکھیوں کو آگ لگا کر ہر طرف ہنگامہ برپا کر کے پورے نظام کو بہت بڑے امتحان سے دوچار کر دیا، تا حکم ثانی سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ برسوں سے امریکہ مخالف بیانئے والے اب ٹرمپ چاچو کی آمد پر جشن منا رہے ہیں، امریکہ سے بھی قیدی نمبر804 کی حمایت میں آوازیں پاکستان کی فضاؤں سے ٹکرا رہی ہیں۔ مذاکرات کے ساتھ رہا کرو کا مطالبہ اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا رہا ہے۔ ممکنہ طور پر مذاکرات کے نتیجے میں قیدی نمبر804 اور ان کے اسیر ساتھیوں اور کارکنوں کو کچھ ریلیف ملنے کی راہیں کھل سکتی ہیں، ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ چاچو کے برسراقتدار آنے سے بانی پی ٹی آئی بھی اس مسند پر بٹھائے جائیں گے؟۔ اقتدار اور طاقت والوں کے پاس ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی فوری توڑ ضرور ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی کسی بڑی غلطی کے نتیجے میں سزا بھی بھگتتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ جب ہمارے کانوں سے ’’امریکہ کا جو یار ہے غدارہے غدار ہے‘‘ کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں، اسی بنیاد پر سازشیں اور بیانئے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ ہے۔ ہم نے ایوب خان کی آمریت میں ترقی اور زوال دیکھا، ذوالفقار علی بھٹو کو تیسری دنیا یعنی اسلامی بلاک اور ایٹم بم کی بنیاد رکھنے کی سزا ملی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجوہات کیا تھیں؟ نواز شریف کو کیوں نکالا گیا؟ مذکورہ سیاسی کرداروں کو انجام تک پہنچانے میں بین الاقوامی مفادات کا ٹکراؤ اور اس کے نتیجے میں پنپنے والی سازشیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جبکہ بانی پی ٹی آئی ان تمام وجوہات میں مطلوبہ معیار پر کہیں بھی پورے نہیں اترتے۔ ان کے کریڈٹ میں تو ٹرمپ سے دوستی یا کشمیر بارے ثالثی کے نام پر مودی کے ساتھ ساز باز کے علاوہ ذاتی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی و انتظامی نااہلی کے سوا کیا ہے؟ جنرل باجوہ اور فیض حمید تو ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ اسے کم عقلی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک چہیتے کو آرمی چیف بنانے کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو پرکھ نہ سکے، جہاں تک امریکی مداخلت یا سائفر بیانئے کا تعلق ہے تو ’اللہ دے اور بندہ لے‘ والی بات ہے۔ گمان کر لیں کہ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات اس دھوکے میں ناکام ہو جاتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرمپ انتظامیہ کوئی بڑا ریلیف دلا کر دوبارہ اقتدار میں لے آئے گی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس محبت کے عوض بانی پی ٹی آئی کے پاس امریکہ کو دینے کیلئے کیا ہے؟ اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنے والے صحافی صرف اس پس منظر میں ان سے دو سوالوں کے جواب لے آئیں کہ اگر انہیں دوبارہ اقتدار ملے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے، پاکستان کے میزائل پروگرام بارے ان کی واضح اور دو ٹوک پالیسی کیا ہو گی؟ تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ مودی سرکار نے بنگلہ دیش میں تازہ تازہ زخم کھائے ہیں۔ اسے دوبارہ مشرقی پاکستان بننے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کردار دکھائی دیتا ہے۔ آخر ٹرمپ مودی رومانس میں پھر ”تبدیلی“ کیوں ضروری ہے؟ قارئین کے غور و فکر کے لئے یہی ایک سوال ہے جو جواب چاہتا ہے۔

تازہ ترین