• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سیکولر مفکر نے ایک مرتبہ لکھا: دنیا میں کچھ معصوم ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جو یقین رکھتے ہیں کہ شیطان نامی مخلوق واقعی اپنا وجود رکھتی اور رمضان میں قید کر دی جاتی ہے۔ عرض کی :شیطان کے وجود کی اپنی تو کوئی اہمیت نہیں، اگر خدا کا وجود نہ ہو۔ اگر آپ صدقِ دل سے اپنی پوری عقل استعمال کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ یہ بات اگر آپ زندگی میں پیش آنے والے رنج کے تعصب سے آزاد ہو کے کہہ رہے ہیں تو بہت خوب۔ اس کے بعد مگر آپ کو علمی اور عقلی طور پر اپنی رائے معاشرے کے سامنے پیش کرنی چاہئے۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ ایسا ہر شخص خدا پہ ایمان رکھنے والوں کا مذاق اڑانے کی کوشش میں اپنی زندگی بسر کرتاہے۔

میری بھی بڑی خواہش ہے کہ آزاد ہو جاؤں مگر کیسے ممکن ہے کہ علمی طور پر آپ خدا کا انکار کریں۔ انسان کرّہ ارض کی تاریخ میں پیدا ہونے والی پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے صرف ایک ہے۔ حیاتیاتی یا سائنسی طور پر انسان اور دوسرے جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ انسانوں میں دل، گردے، جلد اور دماغ انہی چیزوں سے بنے اور اسی طرح کام کرتے ہیں، جس طرح جانوروں میں۔ ایک پی ایچ ڈی بھی اپنی عورت کے پاس جا کر وہی کچھ کرتا ہے، جوجانور وں میں ایک نر اپنی مادہ کے پاس جا کر کرتاہے۔دوسرے میملز کی طرح انسانی مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ انسان گریٹ ایپس میں شمار ہوتاہے۔ گریٹ ایپس پرائمیٹس(بندر وغیرہ) میں سے نکلے ہیں۔پرائمیٹس میملز(دودھ پلانے والے جانوروں) میں سے نکلے ہیں۔ میملز ریپٹائلز (رینگنے والے جانوروں)میں سے نکلے اور ریپٹائلز پانی سے خشکی پر آئے۔

زندگی کی ابتدا پانی میں ہوئی تھی۔سائنس یہ نہیں کہتی کہ زندہ چیزوں کی تین قسمیں ہیں، یعنی انسان، جانور اور پودے۔ سائنس کہتی ہے کہ زندہ چیزوں کی دو قسمیں ہیں، جانور اور پودے۔یہ بات مگر کیسے مان لی جائے کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک اپنے آپ ہی عبادت کرنے، لباس پہننے، ٹریفک قوانین بنانے اورخلا میں جیمز ویب دوربین بھیجنے کے قابل ہو گئی۔ اپنے آپ اگر یہ عقل پیدا ہو ئی تو اور اسپیشیز میں بھی ہوتی۔ کسی دن چمپنزی ہمارے پاس آتے اور کہتے: بھائی انسان!بگ بینگ تھیوری میں کئی سقم ہیں۔ ہم چمپنزیوں کی تحقیق کچھ اور کہتی ہے۔بن مانس بھی ہم سے متفق ہیں۔ انسان کے علاوہ کسی اسپیشیز میں بنیادی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے سوا کسی چیز کا شعور نہیں۔اسی لیے جو انسان جسمانی لذتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے ہدایت تک نہیں پہنچتے، خدا انہیں بدترین چوپائے کہتا ہے۔

آپ بے شک نہ مانیں، انسان ایک خاص مخلوق ہے، آزمائش کے لیے جسے عقل دی گئی اور اس پر شریعت نازل کی گئی۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو دن رات خدا اور اس کے ر سولﷺ کا نام بیچتے اوراس کام سے مال اکھٹا کرتے ہیں۔ وہ علم اور عقل سے محروم لوگوں کے سامنے بے سروپا سطحی باتیں کرتے ہیں، جو انہیں معرفت کی باتیں سمجھ کر جھومنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اوپر سے میرے جیسے یوٹیوبرز پیدا ہو گئے ہیں، جن کی کل کائنات ویوز سمیٹنے تک محدود ہے۔

ایسے ہی ایک ادھیڑ عمر یوٹیوبر نے ایک ”صوفی“ سے پوچھا کہ اسلام میں دھمال کا کیا تصور ہے۔ باباجی نے ارشاد فرمایا: اسلام کی 1456سالہ تاریخ میں دھمال کی تشریح صرف میں نے کی ہے۔پہلے تو اس ارشاد کا مزہ لیں کیونکہ 1456سالہ تاریخ میں تو صحابہؓ بھی شامل ہیں۔پھر فرمایا: اللہ نے مذہب میں سجدے کا تصور اس لیے رکھا کہ انسان اپنی پیشانی زمین پہ رگڑے تو اس کا تکبر ختم ہو۔ شیطان نے سب سے زیادہ سجدے کیے لیکن پھر بھی تکبر ختم نہ ہو ا۔ صوفیا پھر اس نتیجے تک پہنچے کہ سجدے سے بھی جو تکبر ختم نہیں ہو رہا، وہ دھمال میں انسان کو بندر کی طرح نچاکر ختم کیاجا سکتاہے۔ ایک طرف تو بظاہر یہ بڑی معرفت کی بات لگتی ہے۔ دوسری طرف آپ غور کریں تو جس ہستی نے شریعت نازل کی، اس نے کبر توڑنے والی اتنی ”اہم“چیز پر کوئی آیت نہیں اتاری۔ جس ہستی ﷺ پر شریعت نازل ہوئی، انہوں نے بھی اپنی زندگی میں خود پر ایمان لانے والوں سے دھمال نہ ڈلوائی اور نہ اس بارے میں کوئی حدیث ارشاد کی۔یعنی بابا جی پر وہ نازل ہو رہا ہے، جو پیغمبرؐ پہ نازل نہیں ہوا۔سبحان اللہ!

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شیطان کا پھر کیا قصور تھا، جب اس پہ دھمال کے فضائل خدا نے نازل ہی نہیں کیے۔ بابا جی نے ارشاد فرمایا: دھمال ڈالتے ہوئے ایک ہاتھ آگے ہوتا ہے، ایک پیچھے ہوتاہے۔ ایک ہاتھ سے اللہ سے لیتے جاؤ، دوسرے سے دیتے جاؤ۔ فرمایا: دھمال ایڑی پر ہوتاہے اور ”ایڑی ماریاں زمزم لبدا اے“ ”معرفت“ کی وہی باتیں، جن سے علم و عقل سے محروم لوگ تو مرعوب ہو سکتے ہیں۔ اللہ نے مگر جنہیں عقل دی ہے، وہ اس پر ہنس ہی سکتے ہیں۔

گزارش یہ ہے کہ قرآن میں تو بگڑے ہوئے بندر کی اصطلاح سزا کے طور پر استعمال کی گئی۔ اگر بندر یا دوسرے جانوروں کی پیروی سے خدا ملتاہے تو پھر لباس بھی اتار دیں اور گلیوں میں شور مچاتے پھریں۔ باباجی کوئی پہلے نہیں، کچھ لوگ اپنی جعلی عاجزی اور معرفت ظاہر کرنے کیلئے آپ کو ”کتا“ بھی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں یوں بھی لباس کی قید سے آزاد ہوجانے والوں کو پہنچا ہوا سمجھا جاتا اور ان کے حضور مرادیں پیش کی جاتی ہیں۔

تازہ ترین