• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے سال کے آغاز پر اگرچہ ملک کی معاشی حالت قدرے بہتر نظر آ رہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ سال ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اگر آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج نہ ملتا تو پاکستان کے پاس بروقت بیرونی ادائیگیاں کرنے اور ملک کو درکار ضروری درآمدات کیلئے بھی زرمبادلہ نہیں تھا۔ بیرونی ادائیگیوں کا یہ چیلنج اب بھی برقرار ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ جنوری 2024 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تھے۔ ان میں سے آٹھ ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس تھے جبکہ پانچ ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس۔ سال 2024 کے اختتام پر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ ان میں سے 11.8ارب ڈالرا سٹیٹ بینک اور 4.5ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس ہیں۔ مالی سال 25-2024 میں پاکستان کو غیر ملکی قرضوں اور سود کی مد میں 30.35 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اس سلسلے میں جولائی 2025 تک ہمیں ماہانہ تقریباً تین ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ابھی معاشی استحکام کی منزل سے دور ہیں اور ہمیں بیرونی ادائیگیاں یقینی بنانےکیلئےعالمی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک سے مزید قرضہ لینا پڑےگا۔ دوست ممالک سے مختصر مدت کیلئے قرضوں کا حصول گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان کی معاشی پالیسی کا ایک اہم جز وبن چکا ہے۔ یہ قرضے اگرچہ بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے اہم ہیں اور ان کی شرائط بھی اتنی سخت نہیں ہوتیں ۔ اس کے باوجود یہ کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کی اندرونی سیاست، خارجہ پالیسی اور معاشی ترجیحات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں موجود پانچ ارب ڈالر کی رقم سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی فراہم کردہ ہے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی بھی ملکی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری معیشت کا عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں اور دوست ممالک پر انحصار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں اپنے قومی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے تاحال برآمدات میں اضافے اور ترسیلات زر کو بڑھانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں ایک اہم رکاوٹ 22 فیصد سے زائد کی بلند شرح سود تھی جس کی وجہ سے جنوری 2024 میں افراط زر کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فصد زیادہ تھی۔ تاہم 2024 کے اختتام تک شرح سود میں 9 فیصد کی بتدریج کمی سے دسمبر میں جہاں افراط زر کی شرح کم ہو کر پانچ فیصد سے نیچے آ گئی ہے وہیں برآمدات بھی 13 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 32 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران ٹیکسٹائل کے علاوہ اجناس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ تاہم نئے سال میں پاکستان کو ٹیکسٹائل برآمدات کو بڑھانے میں یورپی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی کو برقرار رکھنے اور امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اختیار کی جانے والی متوقع پالیسیوں اور دبائو کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ نئے سال میں پاکستان کو درپیش ایک اور اہم چیلنج سیاسی عدم استحکام ہے جو گزشتہ چند سال سے ایک مستقل بحران کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ اس سے جہاں مقامی و بیرونی سرمایہ کاروں کو بلا خوف و خطر معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے وہیں ملک میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر نئے سال میں بھی 2024 کی طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی جاری رہی اور سیاسی دھرنوںاور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے ملک کی معاشی حالت کو سدھارنے کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو بامقصد مذاکرات سے باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل غیر یقینی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تذبذب کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو جن دیگر چیلنجز کا سامنا ہے ان میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے پانے والے اہداف کا حصول شامل ہے۔ ان اہداف میں غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی معیشت میں ڈھالنے، ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے، محصولات بڑھانے اور معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ حکومتی نظم و نسق کو بہتر بنانے، ادارہ جاتی استعداد بڑھانے اور سرکاری فنڈز کے استعمال میں بدعنوانی اور کرپشن کی روک تھام اہم ہے۔ علاوہ ازیں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری اور انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا مقصد میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنا ہے لیکن کچھ مجوزہ اصلاحات کم آمدنی والے طبقات کو براہ راست متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس لئے حکومت کو ایسے طبقات کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کیلئے متبادل پالیسی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے تاخیر میں جہاں حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہیں مزدور تنظیموں اور عام شہریوں کی طرف سے بھی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر 2024 میں حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا تو 2025 کا سب سے بڑا چیلنج کم آمدنی والے شہریوں، تنخواہ دار طبقے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل کاروباری و صنعتی اداروں کو معاشی مشکلات سے بچانا ہے تاکہ ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکے۔

تازہ ترین