2024 ء پاکستان میں بڑی تبدیلیوں کا سال رہا۔ گو کہ یہ زیادہ تر چہروں کی تبدیلیاں تھیں، نظام کی نہیں۔ خصوصاً فروری میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد بہت سے لوگ منظر سے’’آؤٹ‘‘ ہوئے، تو بہت سے نئے چہرے سیاسی منظرنامے میں اُبھرے۔ آئیے، دیکھتے ہیں، سالِ گزشتہ کون’’اِن‘‘ ہوا اور کون’’آؤٹ۔‘‘
پرانی اسمبلی آؤٹ، نئی اسمبلی اِن
مُلک میں جو عام انتخابات2023 ء میں ہونا تھے، وہ ملتوی ہوتے ہوتے بالآخر آٹھ فروری2024 ء کو منعقد ہوئے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی سولہویں قومی اسمبلی’’اِن‘‘ہوگئی۔
گو کہ یہ انتخابات دو سال کی سیاسی بے چینی کے بعد منعقد ہوئے، جس کا آغاز وزیرِ اعظم، عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے سے ہوا تھا۔ اِس لیے توقّع تھی کہ نئی’’اِن‘‘ ہونے والی اسمبلی مُلک میں استحکام لانے میں کام یاب ہوجائے گی، لیکن بدقسمتی سے نئی اسمبلی بھی بھرپور کوششوں کے باوجود، تحریکِ انصاف اور عمران خان کی ریشہ دوانیوں اور اسلام آباد پر مسلسل حملوں کے بوجھ تَلے دَبتی چلی گئی۔
عام انتخابات کے لیے تقریباً تیرہ کروڑ اندراج شدہ ووٹرز تھے، لیکن اڑتالیس فی صد کے قریب لوگوں نے ووٹ ڈالے اور نئی اسمبلی وجود میں آئی، جو 2024 ء کے آخر تک عمران خان کے دھرنوں کا مقابلہ کرتی رہی۔
انوار الحق کاکڑ آؤٹ، شہباز شریف اِن
انوار الحق کاکڑ مُلک کے طویل عرصے تک نگراں وزیرِ اعظم رہنے کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد مارچ 2024 میں وزارتِ عظمیٰ سے’’آؤٹ‘‘ ہوئے۔ اُن کی نگراں وزارتِ عظمیٰ اگست2023 ء سے’’اِن‘‘چلی آرہی تھی اور اسے آئینی طور پر تین ماہ بعد’’آؤٹ‘‘ ہوجانا تھا، مگر ایسا نہ ہو سکا اور وہ کُل ساڑھے چھے ماہ’’اِن‘‘ رہنے کے بعد’’آؤٹ‘‘ ہوئے۔
یاد رہے، انوار الحق کاکڑ 2018 ء سے2023 ء تک ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے رُکن رہ چُکے تھے اور بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے نگران وزیرِ اعظم کے طور پر’’آؤٹ‘‘ ہونے کے بعد وہ اگلے ہی ماہ، یعنی اپریل2024 ء میں ایک بار پھر سینیٹ کے رُکن کی حیثیت سے’’ اِن‘‘ ہوگئے۔
شہباز شریف، انوارالحق کاکڑ سے عُمر میں کوئی بیس برس بڑے ہیں اور مُلک کے 23 ویں وزیرِ اعظم کے طور پر مارچ 2024 ء میں’’اِن‘‘ ہونے سے قبل اپریل 2022 ء میں عمران خان کو آؤٹ اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے وزیرِ اعظم رہ چُکے تھے۔
اِس طرح اُن کا وزیرِ اعظم کے طور پر’’اِن‘‘ ہونے کا خواب ایک مرتبہ نہیں، دو مرتبہ پورا ہوا۔ اِس سے قبل تین مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر’’اِن‘‘ رہنے کے بعد توقّع تھی کہ وہ وزارتِ عظمیٰ بخوبی سنبھال لیں گے اور اس میں وہ بڑی حد تک کام یاب بھی رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی مقرّرہ آئینی مدّت تک’’اِن‘‘ رہ پاتے ہیں یا نہیں۔
عارف علوی آؤٹ، آصف علی زرداری اِن
2024 میں منظر سے آؤٹ ہونے والوں میں شاید سب سے بڑا نام عارف علوی کا تھا، جو مُلک کے تیرہویں صدر کے طور پر ساڑھے پانچ سال’’اِن‘‘رہنے کے بعد مارچ2024ء میں آصف زرداری کے ہاتھوں’’آؤٹ‘‘ ہوگئے۔ عارف علوی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ سویلین صدور میں سب سے طویل عرصہ صدر رہے۔ اِن سے قبل ممنون حسين اور آصف علی زرداری پورے پانچ، پانچ سال صدور رہ چُکے تھے، مگر عام انتخابات چھے ماہ ملتوی ہونے کے باعث عارف علوی کو یہ اعزاز اپنے نام کرنے کا موقع ملا۔
دانتوں کے معالج علوی صاحب کا جماعتِ اسلامی سے دیرینہ تعلق رہا، مگر اُنہوں نے1996 ء میں عمران خان کی تحریکِ انصاف سے وابستہ ہوکر اپنی وفاداری بدل لی تھی، جس کا صلہ اُنہیں صدر کے طور پر ’’اِن‘‘ ہونے کی صُورت ملا۔ آصف علی زرداری، جو 2025ء میں ستّر برس کے ہوجائیں گے، تقریباً ساڑھے دس سال بعد دوبارہ مُلک کے صدر کے طور پر’’اِن‘‘ ہونے میں کام یاب ہوئے۔
اِس سے قبل وہ 2013ء میں صدر کے عُہدے سے پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست کے بعد’’آؤٹ‘‘ ہوگئے تھے۔ آصف زرداری کے صدر کے طور پر’’اِن‘‘ ہونے ہی سے آئین کی اٹھارہویں ترمیم کی راہ ہم وار ہوئی تھی اور اِس بار مُلک میں چھبیسویں ترمیم لائی گئی۔ اِن دونوں ترامیم کا سہرا آصف زرداری ہی کو جاتا ہے کہ وہ مُلک کے پہلے صدر تھے، جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل کیے۔
صادق سنجرانی آؤٹ، یوسف رضا گیلانی اِن
2024 ء میں صادق سنجرانی ایوانِ بالا کے سربراہ کے طور پر اپنے چھے سال مکمل کرکے’’آؤٹ‘‘ ہوگئے اور اُن کی جگہ اُن کے پرانے حریف، پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ صادق سنجرانی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے پہلے چیئرمین تھے۔
کمال کی بات یہ بھی ہے کہ2019 ء میں جب اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، اُس وقت حزبِ اختلاف کے اُمیدوار میر حاصل بزنجو کے جیتنے کے واضح امکانات تھے کہ انتخاب سے قبل64سینٹرز نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی تھی، لیکن جب اُس پر ووٹنگ ہوئی، تو حاصل بزنجو کو صرف پچاس ووٹ مل سکے۔
کہا گیا کہ اس’’کرامت‘‘ کے پیچھے اُس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ، جنرل فیض حمید تھے۔2024 ء میں چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے’’اِن‘‘ہونے والے یوسف رضا گیلانی اِس سے قبل2008 ء سے2012 ء تک مُلک کے منتخب وزیرِ اعظم کے طور پر قومی منظرنامے میں’’اِن‘‘ رہ چُکے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں1983 ء میں ملتان کے میئر کی حیثیت سے پہلی بار سیاست میں’’اِن‘‘ ہونے والے یوسف رضا گیلانی اب چالیس سال سے زاید عرصے سے مُلکی سیاست میں’ اِن‘‘ رہتے ہوئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ غالباً یہ مُلک کے واحد سیاست دان ہیں، جو قومی اسمبلی کے اسپیکر، وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے ساتھ، اب سینیٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔واضح رہے، 72 برس کے یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے بھی ایوانِ اقتدار کا حصّہ ہیں۔
راجا پرويز اشرف آؤٹ، ایاز صادق اِن
راجا پرويز اشرف دو سال اسپیکر قومی اسمبلی رہنے کے بعد مارچ2024 ء میں اس عُہدے سے’’آؤٹ‘‘ ہوگئے اور ایاز صادق ایک بار پھر اِس عُہدے پر’’اِن‘‘ ہوگئے۔ گوجر خان کے پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور معراج خالد کی طرح اُن سیاست دانوں میں شامل ہیں، جو وزیرِ اعظم اور اسپیکر، دونوں عُہدوں پر متمکّن رہ چُکے ہیں۔ اِس سے قبل پرویز اشرف اُس وقت اچانک وزیرِ اعظم بن گئے تھے، جب2012 ء میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کے الزام میں برطرف کر دیا تھا۔
ایاز صادق اِس سے قبل2013 ء سے2018 ء تک مسلم لیگ نون کی حکومت میں بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر’’اِن‘‘ رہ چُکے تھے اور پی ڈی ایم حکومت میں اپریل2022ء سے جولائی2023 ء تک وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور بھی رہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے دَوران جب اسپیکر اسد قیصر نے استعفا دیا اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پے درپے آئین کی خلاف ورزیاں کیں، تو ایاز صادق کو قومی اسمبلی کے اندر ہی کہا گیا کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کی نگرانی کریں، جس کے نتیجے میں شہباز شریف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
جسٹس فائز عیسٰی آؤٹ، جسٹس یحییٰ آفریدی اِن
اکتوبر2024 ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی 13 ماہ عُہدے پر رہنے کے بعد’’آؤٹ‘‘ ہوگئے۔ آئینی طور پر پینسٹھ سال کی عُمر کو پہنچنے پر اُنہیں’’آؤٹ‘‘ ہونا ہی تھا، لیکن اُن کی جگہ غیر متوقّع طور پر جسٹس یحییٰ آفریدی نئے چیف جسٹس کے طور پر’’اِن‘‘ہوگئے۔
اِس سے قبل جسٹس فائز عیسٰی کوئی دس برس سپریم کورٹ کے جج رہ چُکے تھے اور پانچ سال یعنی2009 ء سے2014 ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی۔ 2023 ء میں اُن کا چیف جسٹس آف پاکستان بننا گویا ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ثابت ہوا کہ اُن سے قبل چار چیف جسٹس صاحبان، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عُمر عطا بندیال اپنے کئی فیصلوں کی بدولت خاصے متنازع قرار پائے تھے۔
نئے چیف جسٹس کے طور پر’’اِن‘‘ہونے والے جسٹس یحییٰ آفریدی2018 ء سے سپریم کورٹ کے جج چلے آرہے ہیں اور اِس سے قبل2016 ء سے2018ء تک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چُکے ہیں۔ اُن کا تقرّر بڑی حد تک آئین کی چھبیسویں ترمیم کا مرہونِ منت رہا، کیوں کہ اِس سے قبل عدالتِ عظمیٰ کے سب سے سینئر جج، یعنی جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننا تھا، لیکن اُن کے کچھ فیصلوں نے حکومتِ وقت کو ناراض کردیا، جس کے باعث حکومت چھبیسویں ترمیم لا کر یہ اختیار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی کہ تین سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کا تقرّر کر سکے۔
علی مردان ڈومکی آؤٹ، سرفراز بگٹی اِن
بلوچستان کے نگراں وزیرِ اعلیٰ علی مردان خان ڈومکی ساڑھے چھے ماہ اپنے عُہدے پر رہنے کے بعد مارچ 2024میں’’آؤٹ‘‘ ہوگئے اور اُن کی جگہ منتخب وزیرِ اعلیٰ، سرفراز بگٹی’’اِن‘‘ ہوگئے۔ علی مردان ڈومکی کا تعلق ضلع سبّی سے تھا اور وہ اِس سے قبل جنرل پرویز مشرّف کے دَور میں2005ء سے 2009ء تک ضلعی ناظم بھی رہ چُکے تھے۔
نئے ’’اِن‘‘ ہونے والے وزیرِ اعلیٰ، سرفراز بگٹی بھی نگراں حکومت میں وفاقی وزیرِ داخلہ کے طور پر فرائض انجام دے چُکے تھے اور2015 ء سے2021ء تک سینیٹر بھی رہ چُکے تھے۔ اُن کا تعلق ڈیرہ بگٹی سے ہے اور اُن کے خاندان کے’’طاقت وَر‘‘ حلقوں سے پُرانے تعلقات ہیں۔
اُن کے والد میر غلام خان بگٹی، جنرل ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن تھے، جنہوں نے بعد میں پیپلز پارٹی سے وابستگی اختیار کرلی تھی۔ یہ خاندان، نواب اکبر بگٹی کے دیرینہ حریف کے طور پر معروف ہے۔
ارشد حسین شاہ آؤٹ، گنڈا پور اِن
خیبر پختون خوا میں ارشد حسین شاہ بطور نگراں وزیرِ اعلیٰ’’آؤٹ‘‘ ہوگئے اور علی امین گنڈا پور منتخب وزیرِ اعلیٰ کے طور پر مارچ 2024 ء میں’’اِن‘‘ ہوگئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود ارشد حسین شاہ اُس وقت نگراں وزیرِ اعلیٰ بنے، جب نومبر میں نوّے سالہ نگراں وزیرِ اعلیٰ، اعظم خان فوت ہوگئے تھے۔اِس طرح جنوری میں بننے والی نگراں حکومت سَوا سال قائم رہنے کے بعد مارچ 2024ء میں’’آؤٹ‘‘ ہوئی اور اس دَوران دو نگراں وزرائے اعلیٰ، اعظم خان اور ارشد حسین نے اِس کی قیادت کی۔
اعظم خان گیارہ ماہ اور ارشد حسین شاہ چار ماہ نگراں وزیرِ اعلیٰ رہے۔نئے وزیرِ اعلیٰ، علی امین گنڈا پور نے’’اِن‘‘ ہوتے ہی وفاقی حکومت کے خلاف گنڈاسا اُٹھا لیا اور بار بار خبروں میں’’اِن‘‘ رہنے کی کوششوں میں نہ صرف عجیب و غریب بیانات دیتے رہے بلکہ خاصی مافوق الفطرت قسم کی حرکتیں بھی کرتے رہے۔
محسن نقوی آؤٹ، مریم نواز اِن
پنجاب میں13ماہ نگراں وزیرِ اعلیٰ رہنے کے بعد محسن نقوی’’آؤٹ‘‘ تو ہوئے، لیکن تقریباً فوراً ہی، یعنی ایک ماہ بعد وفاقی وزیرِ داخلہ کے طور پر’’اِن‘‘ ہوگئے۔ پنجاب میں اُن کی جگہ نئی منتخب وزیرِ اعلیٰ، مریم نواز’’اِن‘‘ ہوئیں اور بڑی چابک دستی سے اپنی ذمّے داریاں سنبھالیں۔
وہ پرانے سیاسی خاندان کی چشم و چراغ ہیں اور اس بڑے عُہدے پر’’اِن‘‘ ہونے کے بعد لگتا ہے کہ وہ مزید’’بڑے‘‘ عُہدوں کے لیے پَر تول رہی ہیں۔ آؤٹ ہونے والے محسن نقوی صحافت کے بڑے ٹائیکون کی بھی حیثیت رکھتے ہیں اور’’طاقت وَروں‘‘ سے اُن کے روابط بڑے قریبی سمجھے جاتے ہیں، اِسی لیے وزیرِ داخلہ کے ساتھ، کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے طور پر بھی’’اِن‘‘ہیں۔
مقبول باقر آؤٹ، مُراد علی شاہ اِن
سندھ میں نگراں وزیرِ اعلیٰ مقبول باقر چھے ماہ اپنے عُہدے پر رہنے کے بعد فروری2024 ء میں آؤٹ ہوگئے۔ جسٹس باقر ایک انتہائی محترم قانون دان اور جج رہ چُکے ہیں اور2015ء سے 2022 ء تک سات سال سپریم کورٹ کے جج بھی رہے۔ اِس سے قبل اُنہوں نے دو سال تک سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیئے تھے۔
نئے’’اِن‘‘ ہونے والے وزیرِ اعلیٰ سندھ، مُراد علی شاہ تیسری مرتبہ اس عُہدے پر فائز ہوئے۔ اِس طرح وہ مجموعی طور پر آٹھ سال سندھ کے وزیرِ اعلیٰ رہ چُکے ہیں۔ اِس دَوران اُنہوں نے کچھ ترقیاتی کام بھی کیے، لیکن کراچی کی سڑکوں کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ اُن کی وزارتِ اعلیٰ میں صُورتِ حال بہتر ہو گی۔
ملتان سلطان آؤٹ، اسلام آباد یونائیٹڈ اِن
2024 میں ہونے والے پاکستان سُپر لیگ کے نویں سیزن میں اسلام آباد یونائیٹڈ ایک بار پھر کپ جیت کر’’اِن‘‘ ہوگئی، جب کہ ملتان سلطانز جو اِس سے قبل2021ء میں فائنل جیت کر’’اِن‘‘ ہوئی تھی، اِس بار فائنل ہار کر’’آؤٹ‘‘ ہوگئی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ 2024ء میں تیسری مرتبہ چیمپئن کے طور پر’’اِن‘‘ ہوئی کہ وہ اِس سے قبل پہلا پی ایس ایل، کوئٹہ گلے ڈی ایٹر کو ہرا کر اور تیسرا پی ایس ایل، پشاور زلمی کو ہرا کر جیت چُکی ہے۔
نیرج چوپڑا آؤٹ، ارشد ندیم اِن
پاکستان، جو عرصے سے کسی اولمپک تمغے کے لیے ترسا ہوا تھا، بالآخر اُس وقت کام یاب ہوا، جب اُس کے سپوت، ارشد ندیم جیولین تھرو میں ریکارڈ بنا کر اولمپکس میں ’’اِن‘‘ ہوئے۔ ارشد ندیم اِس وقت اولمپک چیمپئن بھی ہیں اور کامن ویلتھ چیمپئن بھی۔ یاد رہے، اِس سے قبل وہ دو اولمپکس میں حصّہ لے چُکے تھے اور وہ پہلے پاکستانی ہیں، جنہوں نے ٹریک اور فیلڈ کے اولمپک مقابلوں کے لیے فائنل میں کوالی فائی کیا۔
ویسے میاں چنوں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم عرصے تک پاکستانیوں کے دِلوں میں’’اِن‘‘ رہیں گے۔ ارشد ندیم سے قبل، بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا جیولین تھرو کے اولمپکس چیمپئین تھے۔ اُنھیں 2020ء میں پہلے ایشین جیولین تھرو چیمپئین کا اعزاز حاصل ہوا۔ اور 2024ء کے اولمپکس میں ارشد ندیم کا اصل مقابلہ اُن ہی سے تھا، مگر ارشد ندیم کی 92.97 تھرو نے نیرج کو گیم سے’’آؤٹ‘‘ کردیا۔ البتہ دونوں ایتھلیٹس کی ماؤں کے عُمدہ طرزِ عمل نے فتح و شکست کو پس منظرمیں دھکیل دیا۔
جنرل فیض حمید آؤٹ، جنرل عاصم منیر اِن
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، جنرل فیض حمید، جو ایک عرصے تک خبروں میں’’اِن‘‘رہے تھے، بالآخر خبروں سے’’آؤٹ‘‘ ہوگئے۔ شاید اس کی ایک وجہ اُن کا’’اندر‘‘ ہونا بھی ہے، کیوں کہ اب وہ زیرِ حراست ہیں اور اُن پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، جن میں سرِ فہرست سرکاری عُہدے پر ہوتے ہوئے بے جا سیاسی مداخلت اور عمران خان کی تحریکِ انصاف کو بلاجواز مدد و تعاون فراہم کرنا شامل ہے۔
اس کے ساتھ ہی نو مئی کے پُر تشدّد واقعات میں بھی اُن کی درپردہ حرکتوں کا دخل خارج از امکان نہیں۔ جنرل عاصم منیر، چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے تو 29 نومبر 2022ء سے اِن ہیں ہی، لیکن 2024ء میں بھی سارا سال ہی مختلف حوالوں سے منظرنامے اور خبروں میں’’ اِن‘‘ رہے۔
انتخابات کے انعقاد سے لے کر مُلک میں معاشرتی و معاشی استحکام، دو ٹوک بیانات، اہم دوروں، فیصلوں ، دہشت گردی کے خلاف مسلسل برسرِ پیکار اور وزیرِ اعظم کے ساتھ ایک پیج پر نظر آنے تک ذرائع ابلاغ ہی پر نہیں، ڈرائنگ روم ٹاکس تک میں’’ اِن ہی اِن‘‘ رہے۔
طالبان آؤٹ، خوارج اِن
طالبان جو کم از کم پچیس برس سے خبروں میں مستقل’’اِن‘‘ تھے، اب بظاہر ’’آؤٹ‘‘ ہوتے معلوم ہو رہے ہیں، جس کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ اب اُن کا نام بدل کر’’خوارج‘‘ کر دیا گیا ہے۔ اس سے ایک طرف تو افغانستان کے طالبان کو پاکستانی طالبان سے الگ شناخت دینے میں مدد ملی ہے، تو دوسری طرف، اُن الزامات کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو پاکستان پر، افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام پر جشن منانے کے باعث لگائے گئے تھے۔
چوں کہ افغان حکومت کی پاکستان دشمنی اب کسی کے لیے بھی کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔ بار ہا سرحد پار سے دہشت گردی کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل بھی کیا گیا۔ تاہم، اب طالبان کو’’ خوارج‘‘ کا نام دے کر اچھے، بُرے طالبان کی بحث سے جان چُھڑا کے لفظ’’ خوارج‘‘ اِن کردیا گیا ہے۔
پولیو آؤٹ، پولیو اِن
پاکستان میں 2023؍ میں، پورے مُلک سے پولیو کے کُل چھے کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جس کے بعد امید بندھ چلی تھی کہ شاید ہم بھی اگلے دو، تین سالوں میں دنیا بھر کی طرح مُلک سے پولیو کو مکمل طور پر’’آؤٹ‘‘ کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ لیکن ہمارا یہ خواب، خواب ہی رہا۔ پولیو بس،’’ آؤٹ‘‘ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
انتہائی غیر متوقّع طور پر پاکستان میں 2024ء میں پولیو وائرس ایک بار پھر بڑے پیمانے پر’’اِن‘‘ ہوا اور سال بَھر میں کوئی پچاس کے لگ بھگ پولیو کیسز کا اندراج کیا گیا، جو ایک انتہائی خطرناک صُورتِ حال ہے۔
ایک طرف خواتین ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف رہیں، تو دوسری طرف، انتہا پسند عناصر اُن پر حملے بھی کر رہے ہیں۔اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کو مُلک سے’’آؤٹ‘‘ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی منصوبے پر عمل ناگزیر ہے۔
حسینہ واجد آؤٹ، طلبہ اِن
شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی اور بنگلا دیش کی76سالہ وزیرِ اعظم، حسینہ واجد کو اگست میں اُس وقت اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہونا پڑا، جب ایک ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد سیکڑوں طلبہ وزیرِ اعظم ہاؤس میں داخل ہونے ہی والے تھے۔ یوں حسینہ واجد15 سالہ اقتدار کے بعد منظرنامے سے ’’آؤٹ‘‘ اور طلبہ’’ اِن‘‘ ہوگئے، جنہوں نے فوج کی مدد سے نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن، محمّد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی۔
جولائی میں طلبہ نے ڈھاکا سے کوٹا سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا، جو کچھ ہی دنوں میں مُلک گیر صُورت اختیار کرگیا۔ حسینہ واجد نے احتجاجی طلبہ کے خلاف ریاستی طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا، جس کے دوران ڈھائی سو افراد مارے گئے، جب کہ لگ بھگ 10ہزار کو حراست میں لیا گیا۔ حسینہ واجد نے ایک موقعے پر ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو’’پاکستانی ایجنٹ‘‘بھی قرار دیا۔
حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر تعمیر ہوا اور مُلک نے خاصی ترقّی کی، لیکن حالیہ دنوں میں ایک طرف تو ترقّی کی رفتار سُست ہوئی، تو دوسری طرف حکومت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی بد سے بدترین ہوتا گیا۔
مخالفین کے خلاف طاقت کے اندھے استعمال، شہریوں کو لاپتا، جیلوں میں ٹھونسنے اور پھانسی دینے کے عمل نے عوام کو حسینہ واجد سے بدظن کردیا تھا اور وہ موقع ملتے ہی میدان میں آگئے، جن کی طلبہ نے قیادت سنبھالی اور کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔
جوبائیڈن آؤٹ، ٹرمپ اِن
نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک دِل چسپ مقابلے کے بعد ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں’’ اِن‘‘ ہوگئے، جب کہ جوبائیڈن دوسری بار بھی امریکا کے صدر بننا چاہتے تھے، مگر اُنھیں اپنی جماعت کے دباؤ پر انتخابی دوڑ سے’’آؤٹ‘‘ہونا پڑا۔
صدر جوبائیڈن اور اُن کی جماعت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے پر امریکا کی نائب صدر، کمیلا ہیرس کو میدان میں اُتارا، جنہوں نے ایسی جارحانہ مہم چلائی کہ ایک طرف مایوس کارکنان میں جان پڑگئی، تو دوسری طرف ماہرین نے کانٹے دار مقابلے کی پیش گوئیاں شروع کردیں، یہاں تک کہ ووٹنگ کے روز تک’’سخت مقابلے‘‘ کی توقّع کی جا رہی تھی، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مدّ ِمقابل خاتون اُمیدوار کو بآسانی شکست سے دوچار کردیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم’’امریکا فرسٹ‘‘ اور تارکینِ وطن کی مخالفت کی بنیاد پر چلائی، جب کہ اُنھوں نے فتح کی صُورت میں دنیا سے جنگیں ختم کروانے کا بھی وعدہ کیا۔ انتخابی مہم کے دَوران اُن پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس میں گولی اُن کے کان کو چُھوتی ہوئی گزر گئی۔اُنھوں نے حملے کے بعد بدحواس ہونے کی بجائے اپنے حامیوں کو دیکھ کر مکّے لہرائے، جس سے اُن کا ایک بہادر آدمی کا تاثر اُبھرا، جس کے انتخابی نتائج پر بھی اثرات مرتّب ہوئے۔
ابراہیم رئیسی آؤٹ، مسعود اِن
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی 2024ء میں ہونے والے ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ بدقسمت ہیلی کاپٹر میں مُلک کے وزیرِ خارجہ، امیر عبداللہیان بھی سوار تھے۔ یہ حادثہ ایرانی صوبے، مشرقی آذربائیجان کے علاقے جلفا میں اُس وقت پیش آیا، جب صدر رئیسی آذربائیجان اور ایران کی سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح کے بعد تبریز واپس جا رہے تھے۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں ابراہیم رئیسی اور دیگر کی نمازِ جنازہ پڑھائی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ابراہیم رئیسی 2021ء میں ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن کا آیت اللہ علی خامنہ ای کے نہایت قریبی ساتھیوں اور اُن کے متوقّع جانشینوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ صدر رئیسی کی ہلاکت کے بعد ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخابات ہوئے، جس میں69سالہ ہارٹ سرجن مسعود پزشکیان سمیت چار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
اُن کے مدِ مقابل امیدوار سعید جلیلی ایران کی جوہری مذاکراتی ٹیم کا حصّہ رہ چُکے تھے۔ مسعود کو دو سابق اصلاح پسند صدور حسن روحانی اور محمّد خاتمی کی حمایت حاصل رہی۔28 جون کو ووٹنگ ہوئی، مگر کوئی بھی اُمیدوار 50 فی صد سے زائد ووٹس حاصل نہ کرسکا، جس پر5 جولائی کو دوبارہ میدان سجا، جس میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان ایک کروڑ63لاکھ ووٹ حاصل کرکے ایوانِ صدر میں’’اِن‘‘ ہوگئے، جب کہ اُن کے مدّمقابل، سعید جلیلی نے بھی ایک کروڑ35 لاکھ ووٹ لیے۔
پرانی قیادتیں آؤٹ، نئی اِن
2024ء کے دَوران مشرقِ وسطیٰ میں کئی تبدیلیاں رُونما ہوئیں، جن میں حماس اور حزب اللہ کی قیادتوں میں تبدیلی دُور رَس اثرات کی حامل رہی۔ حماس کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برادری میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے، جہاں اسرائیلی حملے میں اُن کی موت واقع ہوگئی۔
اِس واقعے نے ایران اور اسرائیل کو براہِ راست ایک دوسرے کے مدّ ِمقابل لاکھڑا کیا، جس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے پر حملے بھی کیے۔ اسماعیل ہانیہ کے بعد یحیٰی سنوار نے حماس کی قیادت سنبھالی، مگر اسرائیل نے اُنھیں بھی کچھ روز بعد غزہ میں ایک کارروائی کے دَوران ہلاک کردیا۔
یوں چند روز کے اندر اندر حماس کے دو بڑے رہنما منظر سے’’ آؤٹ‘‘ ہوگئے، جس کے بعد نئے قائد کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، جس سے پتا چلتا کہ اُن کی جگہ کون’’ اِن‘‘ ہوا۔
اِسی طرح اسرائیل نے لبنان پر جارحیت کے دوران ایک کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوگئے۔ بعدازاں، حزب اللہ نے اپنے ڈپٹی سیکریٹری جنرل، نعیم قاسم کو نیا سربراہ مقرّر کیا اور یوں وہ ایک نئی ذمّے داری کے ساتھ’’اِن‘‘ ہوگئے۔