گزشتہ دنوں ترکی کے شہر انقرہ میں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن کے ادارے موسسہ اکو فرہنگی کی جانب سے منعقدہ ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان مقرر محمد حذیفہ نے ترکی زبان کے ایک شعر کے حوالے سے شب یلدا کو وسط ایشیائی ممالک کا مشترک تہذیبی ورثہ قرار دیا۔ جس طرح ’’ایکو‘‘ میں پاکستان، ایران، ترکی، افغانستان، آذربائیجان قازقستان، کرغز ری پبلک، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں اسی طرح شب یلدا کے تہذیبی تہوار میں بھی یہ خطے کسی نہ کسی طرح شریک ہوتے ہیں۔ 2022ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس تہوار کو انسانیت کے غیر ملموس ثقافتی ورثے کی نمائندہ فہرست Representative List of the Intangible Cultural Heritage of Humanity.میں شامل کیا جس کی یاد میں اس برس تہران میں ’’سومین یلدائے جہانی‘‘ کے عنوان سے وزارت ثقافت وسیاحت ودستکاری کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا جس سے وزیر سید رضا صالح عامری اور کرغزستان کے سفیر نے خطاب کرتے ہوئے اس تہوار کو ثقافتی شناخت، فطرت، احترام خواتین، ثقافتی تنوع اور پرامن بقائے باہمی کا تہوار قرار دیا۔ اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ چند برسوں میں ایران مذکورہ بالا فہرست میں ساتویں سے چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔ یلدا کے معنی پیدائش کے ہیں۔ یہ رات خزاں کی موت اور سرما کی پیدائش ہے، جسے علامتی طور پر تاریکی کی شکست اور روشنی کی فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔تہواروں کی تاریخ کا مطالعہ، معاشرتی احوال سے آگاہی کا ذریعہ ہوتاہے۔ سردی تو ہر خطے میں آتی ہے لیکن اس کی آمد کو تقریباتی شان سب جگہوں پر عطا نہیں کی جاتی۔ اکثر خطوں میں تو انسانی زندگی پر سردی ویسے ہی اثرات مرتب کرتی ہے جیسے پریم چند کے افسانے ’’پوس کی رات‘‘ میں دکھائے گئے ہیں۔ پوس کی رات میں جاڑا کسی بھوت کی مانند چھاتی کو دباتا دکھائی دیتاہے۔ ہندی کیلنڈر میں پوہ کا مہینہ 14؍دسمبر سے 12؍جنوری تک کے دنوں کا احاطہ کرتا ہے۔ شب یلدا، 20؍اور 21؍دسمبر کی درمیانی رات کو منائی جاتی ہے۔ چونکہ یہ سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے اس لیے شاعری میں یہ ہجر کا استعارہ بھی ہے اور شاعروں نے اس رات کو فراق کے دنوں سے ملا دیا ہے :
ماحال ِخویش بی سروبی پانوشتہ ایم
روزِ فراق را شب ِیلد ا نوشتہ ایم
یہ سولھویں صدی عیسوی کے شاعر وحشی بافقی کا شعر ہے اس سے شب یلدا کی تاریخی اور ادبی روایت کی طوالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اردو شاعری میں شب ِیلدا اپنی طوالت اور تاریکی کے باعث مقبول رہی ہے تو فارسی شاعری نے اس کے رنگا رنگ پہلو منکشف کیے ہیں۔
شب یلدا ہمیشہ جاودانی است
زمستان رابہار زندگانی است
شب یلداشب فروکیان است
نشان ازسنت ایرانیان است
اس بار ایرانیوں کی یہ سنت ہم نے بھی تہران میں منائی۔ شب یلدا کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے جانے سے پہلے کچھ ایرانی نوجوانوں سے پوچھا کہ اس تقریب میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے کیا تحفہ لیکر جانا چاہیے تو ایک نوجوان نے اپنا نہایت اسمارٹ سگریٹ ویسی ہی اسمارٹ ساتھی کے ہونٹوں میں پیوست کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوانہ یاآجیل‘‘۔ قریب کی دست فروشی سے (جسے ہم کھوکھا کہتے ہیں) ہم نے ہندوانہ یعنی تربوز خریدنا چاہا لیکن نہ مل سکا۔ ایک بڑے سپر اسٹور پر جا کر وہاں سے ’’آجیل‘‘ کے بارے میں دریافت کیا۔ خیال تھاکہ یہ کوئی ڈبہ پیک چیز ہو گی لیکن جواب نفی میں ملا۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ ’’آجیل‘‘ خشک میووں کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ ’تاہم اس مناسبت سے جو ملا ہم نے خرید لیا ’’آجیل‘‘ سردی کا مقابلہ کرنے کیلئے معاونت کرتی ہے تو آجیل کھانے سے پیدا ہونے والی گرمی کا تدارک کرنے کیلئے تربوز کھایا جاتا ہے، یہی نہیں اس موقعے کیلئے خاص کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ کھانے کا وقت آیا تو رنگا رنگ اور خوش وضع پکوان اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ پودینہ، بینگن پیاز لہسن کو ملا کر بنائی جانے والی ترش ڈش ’’کشک بادمجان‘‘ بہ طور اسٹارٹر پیش کی گئی، پھر ’’تہ دیگ‘‘ یعنی روٹی یا چاولوں کی کھرچن، ’’کاہو‘‘ یعنی سلاد کا پتہ، مختلف ترکاریوں، گوشت، لوبیہ اور لیموں کو ملا کر بنائی جانے والی ڈش ’’خورشت قورمہ سبزی‘‘، سبزی پلائو مع زعفران اور ’’زرشک پلائو‘‘ وغیرہ یکے بعد دیگرے لذت کام و دہن کا سامان کرتے رہے۔ پھلوں میں انار، تربوز، چقندر اور خرمالو پیش کیے گئے۔ یہ پیش کش بھی روایت سے ہم آہنگ تھی۔ شب یلدا سے ان پھلوں کی مناسبت ان کے سرخ رنگ کے باعث ہے، خرمالو وہی ہے جسے ہمارے ہاں جاپانی پھل کہا جاتا ہے۔ سرخ رنگ روشنی اور حرارت کی علامت ہے، اس موقع پر کھانے کی میز اور گرد و پیش کو فانوس، شمعوں اور غباروں سے بھی آراستہ کیا گیا تھا۔ شہر بھر میں سرکاری طور پر دیو قامت بورڈوں پر شب یلدا کی مناسبت سے تصویریں اور استقبالیہ تحریریں جگمگا رہی تھیں۔ شب یلدا کا ایک پہلویہ بھی ہے، اس رات میں چھوٹے، بڑوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے زندگی کے وہ تجربات سیکھتے ہیں جنھیں کم فرصتی یاغفلت کے باعث فراموش کر دیا گیا تھا۔ چونکہ زرتشتی مسلک میں اس رات میں اہرمن بیدار ہوتا ہے اس کے مقابلے کے لیے خیر اور نیکی کی گفتگو کی جاتی ہے، شعر خوانی ہوتی ہے، دیوان حافظ پڑھا جاتا ہے اور چاہیں تو اس سے فال بھی نکالی جاتی ہے۔ چنانچہ راقم سے بھی شعر خوانی کا مطالبہ کیا گیا۔ چونکہ محفل سراسر ایرانیوں پر مشتمل تھی اس لیے راقم نے اپنا فارسی کلام پیش کیا۔ پھر قرآن حکیم کا ایک مرصع نسخہ لایا گیا کہ اس کا کوئی حصہ پڑھایا جائے۔ چونکہ شب یلدا گزرتے ہوئے وقت کا ایک مظہر ہے اور خالق کائنات نے وقت کی قسم کھائی ہے اس لیے راقم نے ان آیات قرآنی پر گفتگو کی جن میں وقت اور زمانے کی قسم کھا کر بتایا گیا ہے کہ چار جہتوں میں کوشش کرنے والوں کے سوا باقی تمام لوگ خسارے کا سودا کیے ہوئے ہیں۔ زندگی کی جدوجہد تو سب کر رہے ہیں، محنت بھی سب کرتے ہیں، منزلوں کو پانے کی خواہش بھی سب کے ہاں پائی جاتی ہے لیکن اگر یہ مساعی؛ ایمان ،عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے ہم آہنگ نہیں تو پھر سب رائیگاں ہے۔ شب یلدا کےاس پہلو پر بھی بات ہوئی جس کے مطابق یہ تاریکی پر روشنی کے غلبے کی علامت ہے۔ یہاں پھر قرآن کا پیش کردہ تقابل حاضرین کو یاد دلایا گیا کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہیں، نہ تاریکی اور روشنی یکساں ہیں، نہ ٹھنڈی چھائوں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے اور نہ زندہ اور مردے مساوی ہیں۔ (35:19۔22)
خورونوش کے مراحل اور گپ شپ کاسلسلہ جاری رہا۔ اسکے بعد دیوانِ حافظ لایا گیا۔ راقم سے مطالبہ کیا گیا کہ اس موقع پر حافظ کی کوئی غزل پڑھی جائے۔ دیوان حافظ کا کمال یہ ہے کہ اسے جس مناسبت سے کھولا جائے اسکے اوراق سے اسی مناسبت کا شعر برآمد ہوتا ہے۔ فقط مضمون ہی نہیں اس میں لفظی مناسبتیں بھی حیران کن حدتک صورت حال پر منطبق ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ دیوان حافظ ایرانی معاشرے کا ایک حصہ ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو، کوئی خواندہ ہو یا ناخواندہ سب لوگ دیوان حافظ سے واقف ہیں۔ راقم نے دیوان حافظ کھولا تو اس میں شب یلدا کی حدیں شب ِوصل اور شب ِقدرسے ملی ہوئی تھیں:
شب وصل است و طی شدنامہء ہجر
سلام فیہ حتیٰ مطلع الفجر