• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی معیشت جولائی 2017کے عدالتی فیصلے سے بری طرح سے لڑ کھڑا جانے کے بعد اب کچھ مستحکم ہوتی نظر آ رہی ہے مگر ابھی اس استحکام کے ثمرات عوامی سطح پر محسوس نہیں ہوئے ہیں کہ خبر آ رہی ہے کہ پاکستان کوجی ایس پی پلس اسٹیٹس کو قائم رکھنے کیلئے جو شرائط یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئی تھیں انکی جانچ پڑتال کیلئے یورپی یونین کا وفد پاکستان آ رہا ہے اور یقینی طور پر اس وفد کو مطمئن کرنے کی غرض سے پاکستان کے متعلقہ حکام اپنی تیاریاں کر رہے ہونگے۔ جی ایس پی پلس برقرار رہنے کی جہاں پر معاشی اہمیت مسلمہ ہے وہیں پر آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے کیوجہ سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور حکومتوں کیلئے اسکی علامتی حیثیت بھی طے شدہ ہے ۔ پاکستان کی یہ سر توڑ کوشش ہے کہ جیسے 2016میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہنے میں ہم کامیاب ہوا تھا اسی طرح حالیہ پروگرام واقعی آخری ثابت ہو، اسکو آخری بنانے کیلئے ضرورت ہے کہ اس میں تسلیم کی گئی شرائط یا نرم لفظوں میں معاہدے پر من و عن عمل درآمد کیا جائے مگر پاکستان میں موجود اعلیٰ ترین سطح کے غیر ملکی سفارتی حلقوں میں یہ خبر یا افواہ گردش کر رہی ہے کہ پاکستان کی کابینہ کے انتہائی با اثرصاحبان کے مابین آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے اختلاف رائے موجود ہے، ایک رکن تو آئی ایم ایف پروگرام پر اسکی روح کے مطابق عمل کے خواہاں ہیں جبکہ ایک اور شخصیت کی خواہش ہے کہ بہت سارے امور پر معاہدے کی شرائط کو اپنا فہم دے دیا جائے جو بہر حال آئی ایم ایف کا نقطہ نظر نہیں ہو گا۔ یورپی سفارت کار تو اس رائے پر یکسو ہیں کہ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر اس کی منشا کے مطابق عمل نہ کیا تو پاکستان بہت جلد دوبارہ سے 2022کی معاشی صورتحال کا شکار ہو جائیگا۔ حالانکہ اُن کے اپنے ماہرین معیشت جب پاکستان کی حقیقی معاشی صلاحیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر بہترین ملک بن سکتا ہے اور انڈیا وغیرہ جیسا بننا تو صرف ایک عشرے کے سیاسی استحکام اور امن و امان سے ممکن ہے۔ لیکن اگر ہم آپس میں لڑتے رہے اور دہشت گردی یا عمومی جرائم کا سدباب نہ کر سکے تو پھر کوئی بھی پروگرام کار آمد نہ ہو گا۔ پاکستان کو دنیا کو بھی مطمئن رکھنا ہو گا کہ پاکستان کی ترقی کسی بھی ملک کیلئے خطرہ یا کسی تزویراتی جھگڑے میں شامل ہونے کی بجائے خالصتاً اپنے عوام کی سماجی بہتری کے ہدف پر مشتمل ہے اور ہماری عسکری طاقت کا مقصد امن کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی تشویش کے بعدان سفارت کاروں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ایک جیسا مؤقف سامنے آیا کہ یہ مسئلہ اہم ہے اور اس پر تشویش ضرور موجود ہے کہ پاکستان کے میزائلوں کی زد میں امریکی اور یورپی مفادات آ رہے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چاہے امریکہ اور اسکے اتحادی کچھ بھی کہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، پاکستان کی سلامتی کے ادارے پیشہ ورانہ امور اور نظم و ضبط کے حوالے سے اعلیٰ ترین معیارات رکھتے ہیں، پاکستان کی سیاسی قیادت سے دنیا ماضی میں بھی معاملات طے کرتی رہی ہے اور اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اس قیادت کو ان معاملات کی حساسیت کا بخوبی علم ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان سے میزائل پروگرام کے امور کو سفارتی طور پر حل کیا جا سکتا ہے مگر اس کیلئے ضرورت صرف یہ ہے کہ پاکستان کا مؤقف پیش کرنیوالے افراد وہ ہوں جو مؤقف پیش کرنے اور اس کو تسلیم کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اگر معاملہ فہمی سے عاری افراد کسی بھی موقع پر آگے ہوئے تو معاملات بھی آگے ہی ہوتے چلے جائیں گے۔ ان حالات میں ڈاکٹر توقیر شاہ اور ڈاکٹر طارق فضل کی کابینہ میں شمولیت کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ان شخصیات کی کابینہ میں شمولیت سے مسلم لیگ ن کا عوامی امیج بہتر ہو گا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کامیاب بیورو کریٹ ہیں ، انہوں نے جنیوا میں بیٹھ کر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے پولیتھین کے حوالے سے یورپی یونین کے فیصلے کہ پاکستان پر ٹیرف نافذ کیا جائے کو مسترد کروا کے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا اظہار کیا تھا اور اب انکو کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے تو ان کی مذاکراتی صلاحیت کو اوپر بیان کئے گئے امور کے حوالے سے بھی ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی قیادت میں وہ کامیابی کا حصول ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین