• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ٹی روڈ پر ہچکولے کھاتی جمہوری سروس کی بس نمبر 47 اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہے یا نہیں فی الحال تو کچے ٹائم کی پکی سواریاں کبھی اس پر سوار ہوتی ہیں تو کچھ ناراض ہو کر راستے میں ہی اُتر جاتی ہیں۔ کوئی بس ڈرائیور کو طعنے دیتا ہے کوئی خراب راستے کا شکوہ کرتا ہے تو کوئی کنڈیکٹر کے رویے پر اس سے اُلجھ پڑتا ہے۔ پرانے انجن پر نئی باڈی اور رنگ و روغن والی بس کی حالت دیکھ کر تو کچھ مسافر ویرانے میں ہی اترنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جی ٹی روڈکی تاریک راہوں پر چلتی’’ ٹٹویں ٹائم‘‘ کی بس پر سفر کرنا کتنا محال ہے، کچھ راستہ کٹتا ہے تو اسکولوں ، کالجوں کے بچے ، جوان اسے آن لیتے ہیں۔ سڑکیں بند کرکے ڈرائیور اورمسافروں کو پریشان کرتے ہیں۔ زور زبردستی سے47نمبر بس پر سفر کرنے کی کوشش میں ناکامی پر وٹے، ڈنڈے برساتے ، شیشے توڑ کر آگ تک لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دھینگا مشتی اور دھکے سے بغیر ٹکٹ سفر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جمہوری بس سروس کی 47 نمبر بس کی حالت دیکھ کر ترس آتا ہے، کنڈیکٹر مسافروں کے ترلے منتیں کرتا انہیں سمجھاتا ہے کہ پپو یار تنگ نہ کر، آرام سکون، صبرو تحمل سے ایک ایک سیٹ پر دو دو تین تین بیٹھ کر سفر کر ، بس میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ بند راستے کھولنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔ دیکھتے ہیں مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں مگر ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ حکومتی معاشی و مالیاتی ٹیم کے مہنگائی 81 ماہ کی کم ترین سطح پر آنے، 24 سال بعد کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہونےاور میکرواکنامک استحکام حاصل کرلینے کے دعوؤں کے باوجود ”ٹرانسپورٹ اتھارٹی“ کا نظام شدید دباؤ کا شکا ر ہے۔ شہباز کی اونچی پرواز ”اُڑان پاکستان“ جیسے پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام عوام کی زندگیوں میں کب اور کیسے بہتری لائیں گے، کوئی خواب دکھانے سے پہلے خود شہباز میاں سوچ لیں؟ سننے میں تو یہی آرہا ہے کہ ہم 2024 ءمیںدرپیش سنگین چیلنجوں سے باہر نکل آئے ہیں اور 2025 ءتعمیر و ترقی ، نئی سڑکیں، پل بنانے کا سال ہے جس میں بس نمبر 47 تیزی سے دوڑے گی، عوام کیلئے بجلی کی قیمتوں میں 20 روپے فی یونٹ کمی ممکن بنانے کا ایک فارمولا سفارشات پر مبنی دستاویز کی صورت حکومت کی میز پر منظوری کا منتظر پڑا ہے۔ دعوئے تو یہی کئے جارہے ہیں کہ پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل چکا ہے۔ ملکوں ملکوں ہمارا چرچا ہو رہا ہے مگر زمینی حقائق دیکھتے ہیں توبدگمانیاں ہی دامن گیر ہیں۔ ہم نے خوابوں کی اپنی ہی جنت سجا رکھی ہے۔ ہمیں اس سے باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ عام آدمی کی زندگی مشکل ترین کیوں ہوتی جارہی ہے؟ یہ بات نہ حکومت کو سمجھ آتی ہے نہ ہی خان کو سمجھانا ممکن ہے۔ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں چائے کی پیالی پر زبانی کلامی بات بانی پی ٹی آئی سمیت کارکنوں کی رہائی،9 مئی،26 نومبر واقعات کی عدالتی تحقیقات کرانے تک پہنچی ہے۔ کوئی تحریر نہ کوئی دلیل، پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کو اپنے بانی سے بار بار ملاقاتوں کے شوق نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خان کو اپنی عوامی طاقت سے زیادہ ٹرمپ سے دوستی کا زعم ہے۔ حکومتی اتحادی ٹرمپ کی آمد کے بعد ہواؤں کا رُخ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے مخمصے کا شکار ہیں۔ شکست کے خوف سے کوئی بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ اگر فریقین جو ڈرگیا سو مرگیا یا مرو یا مر جاؤ کی پالیسی پر ہی ڈٹے رہے تو31 جنوری کے بعد عوام اچھی بُری خبریں سننے کو تیار رہیں۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھیوں پر سخت ترین سزاؤں کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی سنائی جاسکتی ہیں اور یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی کہ طاقت ور فریق نے سانحہ 9 مئی کے 19 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کا اعلان کرکے کوئی لچک یا کمزوری دکھائی یا نظام نے مقبولیت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ گزشتہ کالم میں اسی خدشے کا اظہار کیا تھا کہ نظام کی انسانی ہمدردی ، رحم دلی کو کمزوری سمجھنے والے اور ٹرمپ کی آمد پر مسند اقتدار پر بٹھائے جانے کی توقع لگانے والے کہیں دھوکہ نہ کھا جائیں، بہتر ہے گھر کے معاملات گھر ہی میں طے کرلئے جائیں تاکہ جمہوریت اور ملک دونوں کا بھلا ہوسکے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ جیسے عدالتیں تاریخ پر تاریخ دیتی ہیں اور دوران سماعت سخت ،نرم، گرم ریمارکس کی صورت فریقین کو انتباہ کرتی رہتی ہیں ایسے ہی اب بانی پی ٹی آئی 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے کر مذاکراتی عمل میں مشاورت کے نام پر خود ہی تاریخوں پر تاریخیں دیئے جارہے ہیں۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گیا وقت پھر لوٹ کر نہیںآتا۔ انصاف ہو یا جمہوری فیصلے بروقت کرنا ہی دانش مندی ہے۔ فرض کرلیں کہ بانی پی ٹی آئی کی سب تدبیریں ، امیدیں، منصوبے حسب منشاکامیاب ہو جاتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی آمد پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ، اتحادی حکومت سے نجات کی امیدیں لگانے والے کس منہ سے عوام کے سامنے اپنے موجودہ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کی منہ دکھائی کروائیں گے، جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آج وہ من گھڑت بیانیہ بنائے کھڑے ہیں کیا وہ اس کے ساتھ چل پائیں گے؟ ماضی، حال، مستقبل کو جوڑ کر حالات کا تجزیہ کریں، امریکی ساختہ نیو خان بس سروس کی بحالی کا این او سی اور روٹ پرمٹ تو مجاز اتھارٹی نے ہی جاری کرنا ہے کہیں خوش قسمتی سے ٹرمپ سے لے دے کر اجازت نامہ مل بھی جائے تو جی ٹی روڈ پر آرام دہ جمہوری بس سروس کیسے چلے گی؟۔

تازہ ترین