دنیا بَھر کے لوگوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ2024 ء عالمی معیشت کی بحالی کا سال تھا۔کورونا وبا کے دوران لگائے گئے لاک ڈاؤنز اور پھر یوکرین جنگ کے نتیجے میں آنے والے منہگائی کے طوفان نے ہر عام و خاص کو ہلا ڈالا تھا، اب وہ سُکھ کا سانس لینے کا سوچ سکتے ہیں کہ عالمی معیشت بہتری کی طرف گام زن ہوچُکی۔
دنیا نے گزشتہ برس افراطِ زر کے خلاف جنگ جیت لی، جو اس تباہی کا سب سے بڑا ذمّے دار تھا۔ البتہ کچھ ممالک میں اب بھی منہگائی بدستور برقرار ہے، مگر وہاں بھی قیمتیں آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں اور عوام کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔
ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ مجموعی طور دنیا بَھر میں افراطِ زر پر قابو پایا جا چُکا ہے۔2022 ء میں یہ9.2 کی بلند ترین سطح پر پہنچ چُکا تھا، لیکن اب جس تیزی سے شرح نیچے آرہی ہے، اُس کی بنیاد پر اقتصادی ماہرین پُراعتماد ہیں کہ2025 ء میں یہ شرح 3.5پر آجائے گی، جو اِس صدی کے پہلے دس سالوں میں دیکھی گئی، یعنی 3.6 فی صد۔
ماہرین اِس امر پر بھی متفّق ہیں کہ 2000ء سے 2019ء تک ترقّی کا سب سے تیز رفتار دَور تھا، جس کے دَوران ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر معیشتوں میں بہتری آئی اور ایسا بلند معیارِ زندگی دیکھا گیا، جو اِس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ دراصل، عالمی مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک کے اقتصادی مینیجرز میں وہ مہارت آچُکی ہے کہ مالیاتی یا اقتصادی بحران پر جلد قابو پالیتے ہیں۔
اِس کا پہلا تجربہ2007 ء کے مالیاتی بحران کے دَوران ہوا، جب ایک کے بعد دوسرا بینک اور مالیاتی ادارہ تباہی سے دوچار ہونے لگا اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ کہیں دنیا گزشتہ صدی کی عالمی جنگ کے بعد جیسی کساد بازی سے دوچار نہ ہوجائے، لیکن صرف تین سال میں اِس بحران پر قابو پا لیا گیا۔
اگر کورونا وبا نہ آئی ہوتی، تو آج دنیا بہت مختلف ہوتی۔بہرحال، دو سال کی سخت محنت، بھرپور کوششوں کے بعد عالمی معیشت پھر بہتری کی طرف رواں دواں ہے اور توقّع ہے کہ جَلد ہی بیش تر ممالک میں خوش حالی کا دَور دورہ ہوگا، تاہم اِس ہدف کے حصول کے لیے اُنھیں معیشت کی بحالی و مضبوطی پر فوکس رکھنا ہوگا۔
افراطِ زر، شرحِ سُود میں نمایاں کمی سے عوام نے کچھ سکون کا سانس لیا
اِن تین برسوں میں دنیا کو سخت مانیٹری پالیسی اختیار کرنی پڑی اور کئی ماہرین کا خیال تھا کہ کم زور ہوتی معیشت، اِس طرح کی پالیسیز کا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی، لیکن عالمی معیشت اِس قدر مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچُکی ہے کہ اس نے تمام منفی اثرات کے خلاف زبردست مزاحمت دِکھائی اور کام یاب بھی رہی۔
افراطِ زر میں کمی کے لیے جو مالیاتی اقدامات کیے گئے، وہ عوام کے لیے بہت تکلیف دہ تھے، لیکن افراطِ زر سال بَھر3.2کے قریب رہا، جو ایک بڑی کام یابی تھی۔ یہ ضرور ہے کہ کم آمدنی کی حامل معیشتیں صُورتِ حال سے بُری طرح متاثر ہوئیں،تاہم حالات کی خرابی میں جنگوں، عالمی تنازعات اور غیر مستحکم سیاسی صُورتِ حال کا بھی اہم کردار رہا۔
ظاہر ہے، پاکستان جیسے معاشی طور پر کم زور ممالک کے لیے اِس صُورتِ حال میں واضح اشارے موجود ہیں کہ اگلے دس برسوں کے دوران انھیں ہر صُورت عدم استحکام سے بچنا ہوگا، خواہ وہ کسی بھی نام سے ہو۔ نیز، ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر معیشتوں کے عوام کے لیے پیغام ہے کہ اگر اُنھیں خوش حالی، روزگار، قیمتوں میں کمی اور بہتر معیارِ زندگی چاہیے، تو اپنے مُلک کی سیاسی و انتظامی مضبوطی کو اوّلیت دیں۔
پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کورونا اور یوکرین جنگ سے پیدا شدہ معاشی دباؤ کے سبب اب کوئی بھی مُلک اِس پوزیشن میں نہیں کہ وہ امداد کے نام پر اربوں ڈالرز فراہم کرسکے۔ ہاں، سرمایہ کاری اور تجارت کے مواقع کُھلے ہیں، جن سے حکومتیں اور عوام مل کر فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔
اگر علاقائی طور پر دیکھا جائے، تو سال 2024ء اور رواں برس کی صُورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے۔3.2کے مجموعی گروتھ ریٹ کے ساتھ امریکا میں ترقّی رفتار تیز رہی، جب کہ یہ رفتار یورپ میں کم نظر آئی۔ ترقّی پذیر ایشیا میں بہتری دیکھی گئی، تو مشرقِ وسطیٰ میں سُست رفتاری نوٹ کی گئی، جس کی بنیادی وجہ غزہ اور لبنان جنگیں رہیں۔ البتہ یہاں بھی اور افریقا میں بھی سُست روی کے باوجود، افراطِ زر میں کمی آئی، جو بہرحال ایک مثبت علامت ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکا مضبوط رہا اور اس کی معیشت کے دونوں ستون، یعنی آمدنی اور پیداوار، ترقّی کرتے رہے۔ افراطِ زر میں تیزی سے کمی آئی، اس کے باوجود کہ انتخابات کی غیر یقینی کیفیت بھی سال بھر جاری رہی۔ انتخابی سیاست کا مُلکی معیشت پر اثر نہ ہونے کے برابر رہا۔امریکی معیشت گزشتہ دو سالوں سے عالمی معیشت کو آگے بڑھانے اور گروتھ انجن کا کام کر رہی ہے، 2024ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور ماہرین نے رواں سال کے لیے بھی اِسی طرح کی پیش گوئی کی ہے۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، جو کورونا سے پہلے تقریباً دس سال تک عالمی معیشت کو سہارا دینے میں ڈرائیونگ فورس کا کام کرتی رہی۔ رواں صدی کی پہلی دہائی تک چین کی ترقّی کی رفتار غیر معمولی تھی، جو14 فی صد کی شرح سے آگے بڑھ رہی تھی، جب کہ اِس تیز رفتاری نے ترقّی پذیر ممالک کو اُٹھنے کے لیے بہت سہارا دیا۔
امریکا کی معاشی رفتار تیز، یورپ کی توقّعات سے کم، انڈو پیسیفک ریجن پھر آگے رہا
تاہم، گزشتہ برس اس میں سُستی دیکھی گئی کہ ایک طرف اُس کی توجّہ اندرونِ مُلک رہی، تو دوسری طرف، رئیل اسٹیٹ کے معاملات نے بھی خاصا دھچکا دیا۔ اِس وقت چین کی معاشی ترقّی کی رفتار6سے بھی کم ہے۔ماہرین کی رائے میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں غیر معمولی سرمایہ کاری نے اِس کی معیشت پر منفی اثرات مرتّب کیے۔
2024ء یورپ کے لیے بھی بحالی کا سال ثابت ہوا۔ گو کہ جیسی توقّعات تھیں، معاشی ترقّی اُس فتار سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ یوکرین کی جنگ نے یورپ کو منہگائی کے مسئلے سے دوچار کیے رکھا، بالخصوص اجناس اور توانائی کی قیمتوں سے عوام پریشان رہے، جس کے سیاسی اثرات بھی دیکھنے میں آئے۔ کئی ممالک نے حالات پر بہت حد تک قابو تو پا لیا، تاہم یوکرین جنگ کے جاری رہنے سے معاشی مسائل سے بھی لڑائی جاری رہی۔
یورو زون میں افراطِ زر کی شرح میں بہت تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی اور عالمی مالیاتی اداروں کی رائے میں یورپی معیشت مسلسل طاقت وَر اور مضبوط ہو رہی ہے، تاہم یورپ تمام تر دعووں یا پیش گوئیوں کے باوجود، سال کے آخر تک اُس مقام تک نہ پہنچ سکا، جہاں سے دیگر ممالک کو مدد فراہم کرسکے۔
ماہرین کے مطابق یورپ کو چار اہم شعبوں پر خصوصی توجّہ مرکوز کرنی ہوگی، یعنی طلب میں اضافہ، بیلنس شیٹس کی کلیئرنیس، معاشی اصلاحات اور گورنینس سے متعلقہ مسائل کا حل۔ یورپ میں بڑھتی قوم پرستی سے پیدا صُورتِ حال بھی خطّے پر اثر انداز ہوتی رہی۔
جیسے امیگریشن کے معاملات، جن کا معیشت سے براہِ راست تعلق ہے۔ قوم پرست گزشتہ برس بھی یہی کہتے رہے کہ یورپ کے معاشی معاملات میں دَر آنے والی خرابیوں کی اصل جڑ غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں اور جب تک ان سے جان نہیں چُھڑوائی جاتی، معاشی حالات بھی بہتر نہیں ہوں گے۔
گزشتہ برس کئی یورپی ممالک میں قوم پرست جماعتیں اِسی نعرے کے تحت انتخابی میدان میں اُتریں اور عوام کو اپنی جانب متوجّہ کرنے میں کام یاب رہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سال کے آخر میں شام میں ہونے والی پیش رفت کے اثرات مغربی ممالک کی معیشت پر بھی مرتّب ہوں گے۔
شام میں بشار حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں ایک طرف کئی مغربی حکومتوں نے شامی شہریوں کی جانب سے دائر کردہ پناہ کی درخواستوں پر مزید کارروائی روکنے کا اعلان کیا، وہیں شامی مہاجرین نے بھی وطن واپس جانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ اِس ضمن میں کئی ممالک سے شامی شہریوں کی واپسی کی اطلاعات بھی آنے لگیں۔ جو قوم پرست جماعتیں اِن پناہ گزینوں کو اپنے مُلک کی معیشت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں، اُن کے لیے یقیناً یہ سال کی ایک اچھی خبر رہی۔
اگر ایشیا کی بات کریں، تو جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں گروتھ ریٹ بہت تیز رہا۔ درحقیقت یہ خطّہ ترقّی پذیر معیشتوں کے لیے ماڈل بننے کے ساتھ، گزشتہ ایک دہائی سے علاقے اور عالمی ترقّی کی معاونت کے ضمن میں بھی نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں ترقّی کی رفتار4.6 رہی، جو ماہرین کے مطابق ہر لحاظ سے تسلّی بخش تھی۔ایشیا دنیا کا اہم گروتھ انجن ہے، جو عالمی پیداوار میں60 فی صد حصّہ ڈالتا ہے۔
چِین کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری سے دھچکا لگا، عرب ممالک نئی مارکیٹس کی تلاش میں رہے
جاپان اِسی خطّے میں واقع ہے، جس کی معیشت تمام ترقّی پذیر ممالک کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ نیز، جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور، ویت نام، انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی خطّے کی تیز رفتار معاشی ترقّی میں پوری طرح شامل رہے۔اِن ممالک کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ تنازعات سے دُور ہیں اور ان کا تمام تر فوکس معیشت کی بہتری ہی پر ہے۔یہ پالیسی اُن ممالک کے لیے ایک سبق ہے، جو غریب ہوتے ہوئے بھی ہر وقت جلسے، جلوسوں اور باہمی تنازعات ہی میں مصروف رہتے ہیں۔
اُن کی آپس کی بے مقصد لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوپاتیں کہ دوسرے کاموں پر توجّہ کے لیے وقت بچے۔ اگر وہ احتجاجی سیاست میں مناسب وقفہ کرلیں، تو ترقّی اُن کی منتظر ہے۔ گزشتہ برس عرب دنیا میں وہی معیشتیں مضبوط رہیں، جو تیل پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کویت شامل ہیں، لیکن غزہ کی جنگ، جو خاصی طوالت اختیار کر چُکی ہے، معیشت کے لیے بھاری ثابت ہو رہی ہے، اِسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے توقّعات وابستہ کر لی گئی ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد جنگ بند کروا دیں گے اور نتیجتاً خطّے کے ممالک اپنی معیشت پر توجّہ دے سکیں گے۔
تاہم، مشرقِ وسطیٰ کے عوام کا بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح تنازعات سے بچتے ہوئے امن کی طرف لَوٹتے ہیں۔ جذبات اپنی جگہ، لیکن غربت اور جہالت اس سے بدتر ہے۔ انھیں سوچنا ہوگا کہ کیا ان کی قسمت میں صرف لڑائیاں ہی لکھی ہیں۔
اِس خطّے سے دنیا کے بیش تر ممالک کو تیل سپلائی ہوتا ہے اور جنگ کی وجہ سے بار بار اس میں خلل پڑنے کا امکان رہتا ہے، خاص طور پر گزشتہ برس حوثی باغیوں کے جہازوں پر حملوں اور قبضوں سے صُورتِ حال پیچیدہ رہی، جس کے سبب امریکا اور یورپی طاقتوں کو تیل کی ترسیل برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرنی پڑی۔ ایران کی معیشت 2024ء میں بھی شدید دبائو میں رہی، جب کہ اسرائیل سے براہِ راست لڑائی کے بعد اس کی کرنسی مزید گراوٹ کا شکار ہوئی، تو تیل کی سپلائی بھی محدود ہوتی گئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کا جلد حل نہیں نکلتا، تو اس کے اقتصادی اثرات علاقے کے مختلف ممالک کے لیے معاشی طور پر مشکلات کا باعث ہوں گے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے کہ ہمیں عرب ممالک سے سالانہ کروڑوں ڈالرز کی صُورت زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے اور تیل بھی وہیں سے ملتا ہے۔ ویسے گرین انرجی کے استعمال میں اضافے کے بعد اب اِن تیل پیدا کرنے والے ممالک کو اپنی معیشت کو متنوّع بنانا پڑے گا اور اِسی لیے اب وہ جگہ جگہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے معاشی دوڑ میں روڑے اٹکائے
افریقا بنیادی طور پر ایک غریب برّاعظم ہے، تاہم وہاں سونے اور تانبے جیسی معدنیات کی صُورت دولت کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پھر یہ کہ وہاں کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنھیں روزگار کے مواقع چاہیے، جو بدقسمتی سے اُنھیں میسّر نہیں۔ علاوہ ازیں، وہاں کے زیادہ تر ممالک مختلف تنازعات میں بھی بُری طرح اُلجھے ہوئے ہیں اور آئے دن کے فوجی انقلابات نے بھی معاشی حالات خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال2024ء عالمی اقتصادیات کے لیے’’لانچنگ سال‘‘ تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دنیا کے سینٹرل بینکس نے دو سال قبل جو پالیسیز اپنائی تھیں، گزشتہ برس اُن کا پھل ملنا شروع ہوگیا کہ گلوبل معیشت بہتری کی طرف گام زن ہوگئی۔ اس کی پہلی اور اہم نشانی افراطِ زر میں خاطر خواہ کمی تھی، جو اُس زمانے کے سطح پر آگیا، جب عالمی معیشت اطمینان بخش تھی۔
افراطِ زر میں کمی کا اثر سُود کی شرح پر بھی نظر آیا۔پاکستان میں شرحِ سُود22 فی صد تک پہنچ گئی تھی، جو کم ہوکر15فی صد پر آگئی۔ماہرین اِس امر پر بھی متفّق ہیں کہ شرحِ سُود میں کمی کے ساتھ، اسٹرکچرل اصلاحات بھی بے حد ضروری ہیں، وگرنہ شرحِ سُود میں کمی سے حاصل فوائد سے پوری طرح مستفید نہیں ہو پائیں گے۔ ریگیولیٹری پالیسیز بھی نرم کرنی چاہئیں تاکہ مارکیٹ مقابلے کے لیے آزاد ہوسکے۔
اِسی سے پیداوار میں اضافہ ہو گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگاری کے ہاتھوں شدید پریشان ہے اور اُن کی بڑھتی مایوسی سے مُلک و سماج کے لیے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔گزشتہ برس کئی ممالک میں دیکھا گیا کہ روزگار کے سکڑتے مواقع کے باعث سیاسی عدم استحکام کی کیفیت رہی، تو ہنر مند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں میں مُلک چھوڑنے کی دوڑ لگی رہی، جو یقیناً کسی بھی مُلک کے لیے اچھی خبر نہیں۔
امیر اور غریب ممالک کے درمیان دُوریاں بھی گزشتہ برس موضوعِ بحث رہیں۔ ماہرین نے مشورہ دیا کہ ترقّی کو کسی تفریق کے بغیر پوری دنیا کے لیے پھیلا دیا جائے تاکہ ہر طرف سکون و خوش حالی کا راج ہو۔ اِس سے ایک طرف غریب اور امیر ممالک کے مابین دُوریاں کم ہوں گی، تو دوسری طرف، عالمی و مقامی معیشت بھی آگے بڑھے گی۔ تاہم، اِس امر میں دو چیزیں مانع ہیں، ایک تو بڑھتی آبادی، جو تمام ترقّی کو ضائع کردیتی ہے اور دوم، موسمیاتی تبدیلیاں، جنہوں نے دنیا کو بُری طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
امیر ممالک تو پھر بھی حالات کا سامنا کرلیتے ہیں، لیکن معاشی طور پر کم زور ممالک مسلسل پِس رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں پاکستان میں نُمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہیں، جہاں بے موسم بارشوں، شدید گرمی، گلیشئیرز کے پگھلاؤ اور غیر معمولی برف باری نے مسائل کا انبار لگا رکھا ہے۔ اِس ضمن میں پیرس کانفرنس کے اہداف پر سنجیدگی سے عمل درآمد ضروری ہے کہ عالمی معیشت کی بہتری بھی اِسی سے وابستہ ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کو مناسب فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو 2024ء میں تو ایفا نہ ہو سکا۔