2024 ء دنیا میں انتخابات کا سال تھا۔ امریکا میں ٹرمپ کی صدارتی عُہدے پر تاریخی واپسی سال کی سب سے بڑی خبر رہی۔ روس میں صدر پیوٹن 2028ء تک کے لیے صدر منتخب ہوئے۔ پاکستان میں میاں شہباز شریف ایک مرتبہ پھر اتحادی حکومت کے سربراہ بن کر اقتدار میں آئے۔ بھارت میں نریندر مودی تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ برطانیہ میں کیئر اسٹارمر کی لیبر پارٹی14سال بعد برسرِ اقتدار آئی،فرانس میں قبل از وقت انتخابات میں میکرون بمشکل جیت سکے۔ ایران میں اصلاح پسند صدر مسعود حکومت بنانے میں کام یاب رہے۔
اہم یورپی ممالک اٹلی، ہنگری اور پولینڈ میں قوم پرست جماعتیں فتح یاب ہوئیں۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کا اقتدار انقلاب کے سیلاب میں بہہ گیا۔دوسری طرف، یوکرین اور غزہ کی جنگیں جاری رہیں۔ اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے پر براہِ راست حملے کیے۔ سوڈان کی خانہ جنگی خوف ناک صُورت اختیار کرگئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر کانفرنسز ہوتی رہیں، مگر ٹھوس نتائج سامنے نہ آسکے۔
اگر سال2024 ء پر نظر ڈالی جائے، تو یہ دنیا کے لیے کسی قدر امن کا سال رہا، گو کہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جنگیں جاری رہیں، لیکن یہ مخصوص علاقوں ہی تک محدود رہیں اور دنیا کے ایک تہائی ممالک میں انتخابات ہونے کی وجہ سے عوام کی تمام تر توجّہ اپنے اندرونی معاملات ہی پر مرکوز رہی۔
وہ گزشتہ دو عالمی آفات، کورونا کی تباہی اور یوکرین جنگ سے جنم لینے والی منہگائی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایسی قیادت منتخب کرنے میں مصروف رہے، جو اُنہیں معاشی طور پر بہتر زندگی دینے کے قابل ہو۔ اِسی لیے اگر مختلف ممالک میں سامنے آنے والی جماعتوں یا حُکم رانوں کے منشور پر نظر ڈالی جائے، تو اُن کا تمام تر فوکس معیشت کی بحالی اور منہگائی کے ستائے عوام کو ریلیف دینے پر رہا۔
امریکا، یورپ اور برطانیہ میں قوم پرستی کی لہر مسلسل بڑھتی ہی رہی۔ اِن ترقّی یافتہ ممالک کے عوام نے اپنے ووٹس کے ذریعے تارکینِ وطن کے قیام کو مسترد کیا۔ اِس طرح اُن ممالک کو واضح پیغام دیا گیا، جہاں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ لیکن اِس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ تارکینِ وطن کے خلاف مہم چلانے والے ممالک کی آبادیاں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ عوام نے انتخابات کو معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کیا، وگرنہ ایسے مواقع پر عام طور پر وقتی جذبات ہی غالب رہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکا کے صدر منتخب ہوئے۔ان کی یہ فتح تاریخی رہی، کیوں کہ وہ امریکا میں دوسرے شخص ہیں، جو ایک ٹرم ہارنے کے باوجود دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ تمام عالمی رہنماؤں نے اُنھیں اِس زبرست کام یابی پر مبارک باد دی۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، میاں شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستانی حکومت اور نئی امریکی انتظامیہ مل کر باہمی تعلقات اور پارٹنر شپ مضبوط بنائیں گے۔
ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ امریکی عوام نے انہیں غیر معمولی اور طاقت وَر مینڈیٹ سے نوازا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں، کیوں کہ نتائج کے مطابق نہ صرف الیکٹورل کالج میں اُنہوں نے فیصلہ کُن برتری حاصل کی، بلکہ تمام ساتوں سوئنگ ریاستیں بھی اُن کی جھولی میں گریں۔
ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کے ریکارڈ 312 سے زاید ووٹ حاصل کیے، اس کے ساتھ ہی سینیٹ اور کانگریس میں بھی ری پبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی۔ اُنہوں نے پاپولر ووٹس، یعنی عوام کے ووٹس میں بھی سبقت حاصل کی، جن سے وہ2016 ء کے انتخابات میں محروم رہے تھے۔ ٹرمپ کی فتح، درحقیقت امریکی عوام کا خود کو ووٹ دینا ہے۔
اُنہوں نے امریکی معیشت اور تارکینِ وطن جیسے مسائل کو اوّلیت دی، جو ان کے اندرونی مسائل ہیں۔ ٹرمپ کا مستقل نعرہ’’امریکا فرسٹ‘‘ اور’’ امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے‘‘ رہا، جس پر عوام نے مُہر لگادی۔ ٹرمپ کی مدّ ِمقابل، کمیلا ہیرس دوسری خاتون امیدوار تھیں، جنہیں صدارتی انتخابات میں شکست ہوئی۔ اب دنیا کی دل چسپی ٹرمپ کے وعدوں میں ہے کہ دیکھیں وہ کس طرح اُنھیں عملی شکل دیتے ہیں۔ امریکی عوام معیشت کی مزید مضبوطی کے لیے پُرامید ہیں، تو دنیا، بالخصوص مسلم ممالک یوکرین اور غزہ میں جنگ بندی کے منتظر ہیں۔
گزشتہ برس پیوٹن پانچویں مرتبہ روس کے صدر منتخب ہوئے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُن کا طویل دورِ حُکم رانی اب تیس سال کا ہوگا اور وہ2030 ء تک تو اقتدار میں رہیں گے۔ روس میں صدارتی عُہدے کی مدّت چھے سال ہوتی ہے۔گزشتہ دو سوسال میں پیوٹن کا دورِ اقتدار سب سے طویل ہوگا۔
جدید روس کے بانی اسٹالن بھی اس ریکارڈ میں پیچھے رہ گئے۔ مارچ میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق پیوٹن نے88 فی صد ووٹ لیے، جب کہ روسی الیکشن کمیشن کے مطابق 67فی صد ووٹرز نے پولنگ میں حصّہ لیا۔ اپنی وکٹری اسپیچ میں پیوٹن نے کہا کہ روس کو دو مسائل کا سامنا ہے۔
ایک یوکرین جنگ اور دوم، وہ پابندیاں، جو امریکا اور یورپ نے عاید کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے روس کو اپنا تیل اور گیس تقریباً30 سے 40 فی صد کم قیمت پر فروخت کرنے پڑ رہے ہیں۔ پیوٹن نے یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ سے دشمنی مول لی، حالاں کہ دیکھا جائے تو روس بھی یورپ کا حصّہ ہے اور پھر سال کے آخر میں امریکا میں بھی اُنہی کی طرح کا قوم پرست لیڈر اقتدار میں آگیا، جس نے یوکرین جنگ بند کروانے کا بھی عہد کیا ہے۔
2024ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی تیسری مرتبہ بھارت کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، لیکن یہ کام یابی خود اُن کے لحاظ سے مایوس کُن تھی۔ انھوں نے انتخابی مہم’’اب کی بار،400 پار‘‘ کے نعرے کے تحت چلائی، جسے بھارتی عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ وہ نہرو کے بعد تیسری ٹرم کے لیے بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم تو بنے، لیکن ایک کم زور اتحادی حکومت اُن کے حصّے میں آئی۔
اُن کا بی جے پی اتحاد292 نشستیں حاصل کرسکا، یعنی 300سے بھی کم۔اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ نے، جسے نہرو خاندان کے وارث راہول گاندھی لیڈ کر رہے تھے، غیر متوقّع طور پر بہتر پرفارمینس دِکھاتے ہوئے 234 نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ خود کانگریس پارٹی، جس نے2019ء میں صرف50 نشستیں جیتی تھیں، 99 نشستیں اپنے نام کرنے میں کام یاب رہی۔ سیاسی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ کم بیک ہوا۔ یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نریندر مودی اپنی مقبولیت کھو کر اب زوال کی طرف گام زن ہیں۔
اُن کی کلٹ کی سیاست، انتہا پسند، متنازع اور تقسیم کرنے والے نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت فاروق عبداللہ کو ملی، جس کے منشور میں آرٹیکل370 کی بحالی شامل تھی اور ریاستی اسمبلی نے اِس آرٹیکل کی بحالی کی قرارداد بھی منظور کی۔ مودی کے لیے خارجہ امور میں تو مشکلات نہیں ہوں گی، کیوں کہ تقریباً تمام ہی عالمی طاقتوں کے رہنماؤں سے اُن کے ذاتی تعلقات ہیں۔
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر میاں شہباز شریف وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ اُن کی پارٹی، مسلم لیگ نون ایوان میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری، جب کہ صوبہ پنجاب میں اسے اکثریت حاصل ہوئی، جہاں مریم نواز نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، یوں اُنھیں مُلک کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ مرکز میں مسلم لیگ نون کو پی پی پی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانی پڑی۔
کے پی کے میں پی ٹی آئی، سندھ میں پیپلز پارٹی، جب کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ شہباز حکومت کا منشور اقتصادی بحالی ہے اور روزِ اوّل سے اُسی پر فوکس بھی ہے۔اُن کے عرب دنیا کے حُکم رانوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ نیز، پاکستان نے خارجہ پالیسی میں خود کو تنازعات سے دُور رکھنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ بہرحال امن و امان اقتصادی ترقّی کی پہلی سیڑھی ہے۔
جون، جولائی میں دنیا کے تین اہم ممالک میں انتخابات ہوئے اور تینوں ہی کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔برطانیہ میں 14 سال بعد لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئی۔ فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں ہنگ پارلیمان وجود میں آئی، لیکن پہلے راؤنڈ میں کام یابی اور ایگزٹ پولز کی پیش گوئیوں کے باوجود انتہائی دائیں بازو کی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ ایران میں اصلاح پسند امیداور، مسعود پزشکیان صدارتی انتخابات جیتنے میں کام یاب رہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ تینوں انتخابات قبل از وقت تھے۔
برطانیہ میں ٹوری وزیرِ اعظم رشی سوناک نے لگ بھگ ایک سال پہلے انتخابات کروانے کا اعلان کیا، جس میں اُن کی پارٹی ہار گئی۔ فرانس میں مدّت سے تین سال قبل انتخابات کروائے گئے، جب کہ ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد انتخابات ہوئے اور اصلاح پسند ڈاکٹر مسعود صدارت کے عُہدے پر فائز ہوئے، جس کا پہلے تصوّر تک محال تھا۔
اِن تینوں انتخابات کے نتائج نے علاقائی اور عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔ برطانیہ میں لیبر کی فتح طے تھی، جو بائیں بازو یعنی لیفٹ نظریات کی حامل جماعت مانی جاتی ہے، لیکن بارہ میل دُور واقع فرانس میں، جہاں رائٹ کا بہت شور تھا، ایک مرتبہ پھر لیفٹ کو کام یابی ملی۔ گرچہ یہ ویسی واضح اکثریت نہیں، جیسی برطانیہ میں لیبر پارٹی کو حاصل ہوئی، لیکن کہا جاسکتا ہے کہ انگلش چینل کے دونوں کناروں پر نظریاتی ہم آہنگی ہے۔
ایران میں معتدل حسن روحانی کے بعد ابرائیم رئیسی سخت گیر مذہبی خیالات کے حامل سمجھے جاتے تھے، لیکن اصلاح پسند مسعود پزشکیان نے بازی پلٹ دی۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والوں کی رائے میں دنیا ایک تبدیلی کے دَور سے گزر رہی ہے۔ معاشی دباؤ اور منہگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ایسی قیادتوں کو موقع دیں، جو ان کے معاشی مسائل کی طرف زیادہ توجّہ دیں۔ اِسی لیے وہ شخصیات سے زیادہ نظریات پر ووٹ ڈال رہے ہیں۔
یورپ کے ایک اور اہم ملک میں بھی انتخابات کے ذریعے تبدیلی آئی، جو پورے یورپ کے لیے اہم قرار پائی۔ پولینڈ کے سابق وزیرِ اعظم ڈونلڈ ٹسک اور اُن کے اتحادی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے میں کام یاب رہے۔وہ تیسری مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بنے۔ اُن کی کام یابی کے ساتھ ہی پاپولسٹ لیڈر، میٹیوز موراویکی کے آٹھ سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ ڈونلڈ ٹسک یورپی یونین کے زبردست حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ بریگزٹ کی وجہ سے یورپی اتحاد کو جو نقصان پہنچا، اُس کا تدارک کیا جائے۔
واضح رہے، ڈونلڈ ٹسک یورپی یونین کے صدر بھی رہ چُکے ہیں۔اُن کا پہلا دَور پولینڈ کی معاشی ترقّی کا مانا جاتا ہے، اِسی لیے عوام نے ایک مرتبہ پھر معیشت کی بہتری کو ووٹ دیا۔ اُنہوں نے ڈونلڈ ٹسک پر اعتماد کیا کہ وہ پولینڈ کو اس کا سابقہ مقام دِلا سکیں گے۔ اِس کام یابی سے یورپ میں قوم پرستی کو جھٹکا لگا، کیوں کہ گزشتہ دَور کو وہاں انہی نظریات کی جیت سمجھا جاتا تھا۔ پولینڈ نے تارکینِ وطن کے لیے اپنی سرحدوں پر طرح طرح کی سختیاں کر دی تھیں، یہاں تک کہ سرحد پر خاردار باڑ لگانے کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔
ڈونلڈ ٹسک کے لیے یہ جیت پھولوں کی سیج نہیں ہے، کیوں کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں پولینڈ نے تقریباً ہر شعبے میں تنزّلی ہی دیکھی ہے۔گزشتہ حکومت نعروں اور پراپیگنڈے کی حکومت تھی۔ وہ مقبول نعروں اور میڈیا کا بے جا استعمال کرکے بڑی حد تک لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں تو کام یاب رہی، لیکن مُلک کی اقتصادی اور امن و امان کی حالت اس نہج پر پہنچ چُکی تھی کہ عوام کے لیے اسے بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
معیشت، انصاف، میڈیا کی آزادی غرض ہر شعبے سے عوام غیر مطمئن نظر آئے۔ اسی لیے مبصّرین نے کہا کہ’’ مُلک کو درست سمت میں ڈالنا ٹسک کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ اتحادی حکومت کی وجہ سے قانون سازی میں بھی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا، خاص طور پر اِس لیے بھی کہ صدر اب بھی مخالف پارٹی کا ہے۔‘‘
دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت انڈونیشیا میں پرابوو سوبیانتو صدر منتخب ہوئے، جو سابق صدر، جوکو ویدودو کے جاں نشین ہیں، جنہوں نے اپنی دو صدارتی مدّتیں یعنی دس سال پورے کیے۔ صدر سوبیانتو کا تعلق حُکم ران پارٹی سے ہے، جس میں وہ وزیرِ دفاع بھی رہے۔ اُن کا مقابلہ دو گورنرز سے تھا۔ صدارتی کے ساتھ انڈونیشیا کے قومی اسمبلی اور لوکل کاؤنسلز کے بھی انتخابات ہوئے۔ انڈونیشیا ایک دن میں پولنگ کروانے والا دنیا کا سب سے بڑا جمہوری مُلک ہے۔ وہ ایشیا کے بہت سے ممالک کی طرح ایسا مُلک ہے، جہاں جوان آبادی مُلکی آبادی کا پچاس فی صد ہے۔
ہزاروں جزائر پر مشتمل مُلک کے باسیوں نے ٹھنڈے دل و دماغ سے ووٹ دیا۔انڈونیشیا ایک درمیانے درجے کی ترقّی پذیر معیشت ہے، اِسی لیے وہاں کے ووٹرز کو اندازہ تھا کہ ووٹ جذبات کی بجائے ہوش سے دینا ہے اور وہ اس میں کام یاب رہے۔ انتخابات میں منہگائی، بے روزگاری اور ماحولیات پر فوکس رہا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت کے شہری معاشی ترقّی کی اہمیت سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کے لیے عملی قدم بھی اُٹھاتے ہیں۔ شاید اِس لیے بھی کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کے اُس ترقّی پذیر خطّے میں بستے ہیں، جہاں کے لوگ عقل و شعور کو جذبات پر فوقیت دیتے ہیں۔
یوکرین عالمی نقشے پر چھوٹا سا مُلک سہی، لیکن اس کی معاشی اور فوجی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ خوردنی تیل برآمد کرنے والا تیسرا اور دنیا کو گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا مُلک ہے۔ پاکستان اس سے مستقل یہ دونوں اشیاء خریدتا رہا ہے۔ اس کا دارالحکومت، کیف اور دیگر کئی شہر روسی حملوں سے کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ تین سالہ جنگ میں65ہزار شہری اور فوجی ہلاک ہوچُکے ہیں۔
اگر امریکا اور اسرائیل کی جارحیت کی مذمّت کی جاتی ہے، تو پھر روس اس سے کیسے مبرّا ہوسکتا ہے۔ یہ سیاست نہیں، انسانیت کا معاملہ ہے، جس پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ شام میں بے گناہ شہریوں پر بم باری کے بعد روس کی یہ دوسری فوجی جارحیت ہے، لیکن پتا نہیں کیوں سیاسی مفادات کے تحت اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، حالاں کہ دوسرے معاملات میں انسانی حقوق اور انسانی جانوں کے زیاں کا بہت ذکر ہوتا ہے۔
گزشتہ برس غزہ پر اسرائیلی جارحیت بدستور جاری رہی، جو لبنان، پھر ایران اور اسرائیل کے مابین حملوں کی صورت پھیل گئی۔یعنی ایران، اسرائیل دشمنی کے درمیان جو پردہ تھا، وہ ہٹ چُکا ہے۔ پہلے ایران صرف اپنی پراکسیز کے ذریعے اسرائیل سے پنجہ آزمائی کرتا تھا، لیکن 2024ء میں دونوں ایک دوسرے پر براہِ راست حملہ آور ہوئے اور اِن حملوں کا آغاز حماس کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ کے ایران میں ایک اسرائیلی حملے میں مارے جانے کے بعد ہوا۔ پھر اگلے سربراہ یحییٰ سنوار بھی حملے کا شکار ہوئے۔ بعدازاں، لبنان میں ایران کی اتحادی ملیشیا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئے۔
ایران کے لیے ایک پیچیدگی یہ پیدا ہوئی ہے کہ اس کی اتحادی ملیشیاز کو ایک سال میں ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔ حماس کے دو سرکردہ رہنما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ اپنے نئے سربراہ کے نام کا اعلان کرنے سے گریزاں ہے کہ کہیں وہ بھی نشانے پر نہ آجائیں۔ حزب اللہ، مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں، بلکہ شاید دنیا کی سب سے طاقت وَر ملیشیا ہے، جو گزشتہ بیس سال سے لبنان کی اصل حُکم ران بھی ہے۔
پیجرز حملے میں اس کے تین ہزار کے قریب اہل کار ہلاک و زخمی ہوئے۔ سب سے قابلِ رحم اور افسوس ناک صُورتِ حال غزہ کی ہے، جہاں سال کے اختتام تک شہداء کی تعداد55ہزار سے تجاوز کر گئی اور کسی سیز فائر کی اُمید بھی نظر نہیں آئی۔ دوحا میں ہونے والے مذاکرات ختم ہوگئے اور اب سیز فائر کی آخری اُمید ڈونلڈ ٹرمپ ہی سے وابستہ ہے، جنہیں اپنے’’مین آف دی پیس‘‘ ہونے پر بڑا فخر ہے۔
حالات کیسے پلٹتے ہیں، اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس شخص کو آٹھ سال قبل مسلمان اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے تھے، وہی اب اُن کے لیے سہارا اور اُمید کی کرن بن گیا ہے۔ اے کاش! مسلم دنیا کے عوام اِدھر اُدھر کی سیاست اور جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے ہی کو اوّلیت دیں۔ سال کے آخر کی اچھی خبر یہ تھی کہ لبنان اور اسرائیل کے مابین امریکا اور فرانس کی ثالثی سے امن معاہدہ طے پا گیا۔
بنگلا دیش میں ایک انقلاب آیا اور وہ بھی انتہائی پُرتشدّد، جس میں ایک مہینے کے خون ریز اور تباہ کُن ہنگاموں کے بعد وزیرِ اعظم حسینہ واجد استعفا دینے پر مجبور ہوئیں اور بھارت فرار ہوگئیں۔ اُن کا مستقبل کیا ہوگا، یہ ابھی تک غیر یقینی کے دبیز پردوں میں ہے۔84 سالہ نوبیل انعام یافتہ، محمّد یونس کو طلبہ نے عبوری حکومت کا سربراہ مقرّر کیا۔
محمّد یونس گرامین بینک کے بانی ہیں۔ اُنہوں نے طلبہ کے کام یاب احتجاج کو’’دوسری آزادی‘‘ قراردیا۔ فوج نے اُن کے تقرّری پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ فوجی سربراہ، جنرل وقار الزمان درحقیقت طاقت کے اصل محور ہیں اور اُنہی کی سپورٹ سے حکومت چل رہی ہے۔ یونی ورسٹی کے احتجاجی طلبہ کا مطالبہ تھا کہ غیر منصفانہ کوٹا سسٹم منسوخ کرکے سرکاری ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں، جب کہ حسینہ واجد حکومت نے ملازمتوں کا پچیس فی صد کوٹا اُن لوگوں کے لیے مختص کردیا تھا، جنہوں نے بنگلا دیش کی پاکستان سے علیٰحدگی کی تحریک میں حصّہ لیا۔ کوٹے پر ہونے والا یہ احتجاج دارالحکومت ڈھاکا سے شروع ہوکر مُلک کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ حکومت نے احتجاجی طلبہ کے خلاف قوّت کا بہیمانہ استعمال کیا۔
اطلاعات کے مطابق مختلف جھڑپوں اور تشدّد کے واقعات میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔نئی حکومت نے تمام سیاسی قیدی، جن میں سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا اور جماعتِ اسلامی کے امیر بھی شامل تھے، رہا کردیئے۔بھارت نے حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔
پہلے بنگلا دیش میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کی، جب وہ ناکام رہی، تو اچانک دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا، جس سے بنگلا دیش بدترین سیلاب کی زد میں آگیا، جس پر قابو پانے کے لیے نئی حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سال کے آخری دنوں میں بھارت میں بنگلادیش کے خلاف مظاہروں کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نئی دہلی میں ہونے والے جی۔20 اجلاس کے مشترکہ اعلامیے سے زیادہ اُس عالمی اکانومک کوریڈور کے معاہدے نے اہمیت اختیار کی، جس کا مقصد تجارت کے لیے بھارت، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کو جوڑنا تھا۔ کہا گیا کہ یہ ایک تاریخی ڈیل ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں خوش حالی کا سبب بنے گی۔اس کوریڈور کی اقتصادی اہمیت بھی ہے اور سیاسی بھی۔ خاص طور پر اگر اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پس منظر میں دیکھا جائے، تو اِس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
چین نے، جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا روح رواں ہے، گزشتہ برس مشرقِ وسطیٰ میں بڑی پیش رفت کی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ کروایا، جس کے تحت انتہائی تیز رفتاری سے سفارتی امور طے کیے گئے۔دونوں ممالک نے چھے ماہ سے بھی کم عرصے میں تہران اور ریاض میں اپنے اپنے سفیر تعیّنات کیے۔ اِس پس منظر میں تجزیہ کاروں کی طرف سے کہا گیا کہ شاید مغرب، خاص طور پر امریکا کا مشرقِ وسطیٰ میں کردار بالکل ختم ہوگیا۔
بعض نے مشرقِ وسطیٰ میں نئی دھڑے بندیوں کی پیش گوئی کی۔ یہاں تک کہا گیا کہ سی پیک، قدیمی شاہ راہِ ریشم بن جائے گا اور اس علاقے کی ساری تجارت اسی کے راستے ہوگی۔ کوریڈور سے واضح ہے کہ امریکا اپنا فوجی کردار کم کر رہا ہے، لیکن معاشی کردار حسبِ سابق رہے گا۔ فوجی کردار میں کمی اِس امریکی سوچ کے تحت کی گئی کہ’’امریکا کیوں دوسروں کی جنگیں لڑے۔‘‘
ادھر عرب، اسرائیل دوستی، جو ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار سے شروع ہوئی، اب جڑ پکڑ چُکی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ بڑی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے، جہاں ایسی نوجوان لیڈر شپ سامنے آچُکی ہے، جسے حالات کا پوری طرح ادراک ہے۔ اس کی بہترین اور سب مؤثر شکل، سعودی ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان ہیں،جو نہ صرف معیشت کی اہمیت سے واقف ہیں، بلکہ اِس سمت میں مسلسل آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔
ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی کی خبروں نے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے قومی اور معاشرتی کردار پر بحث کا آغاز کر دیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پہلے سے جاری بحث میں مزید شدّت پیدا کردی۔ ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی اچانک تھی اور نہ ہی کسی مُلک میں ایسا پہلی بار ہوا۔امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کی آوازیں صدر ٹرمپ کے پہلے دَور میں بلند ہونا شروع ہوئیں، بلکہ وہی اس کے اہم ناقد تھے اور اِس ضمن میں اُن کا استدلال تھا کہ چین، ٹک ٹاک کے ذریعے امریکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔تاہم، اب وہ اپنے مؤقف میں لچک پیدا کر چُکے ہیں۔
وہ دیگر سوشل میڈیا ایپس، خاص طور پر یوٹیوب اور فیس بُک پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ ٹوئٹر نے اُن پر پابندی عاید کر رکھی تھی، لیکن جب اُن کے دوست ایلون مسک نے اسے خریدا، تو یہ پابندی ختم کردی گئی۔ امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کے معاملات کانگریس میں بِل پاس ہونے کے بعد شروع ہوئے، جس نے دنیا بَھر کے سوشل میڈیا صارفین میں ہل چل مچا دی، جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کچھ کو تو تفریحی مواد کی محرومی کا غم ہے، جب کہ ان میں ایک بڑی تعداد اُن افراد کی بھی ہے، جو اِسے سیاسی مقاصد یا پراپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جن ممالک میں آزادیٔ رائے پر قدغن ہے اور جو جمہوری اقدار سے ناواقف ہیں، وہیں انسانی حقوق کی پامالی کے لیے قومی سلامتی کی آڑ لی جاتی ہے، مگر کیا امریکا میں بھی، جس کے آئین کا پہلا آرٹیکل آزادیٔ رائے کو بنیادی انسانی اساس قرار دیتا ہے، جس کے لیڈر اور اہلِ دانش دنیا بَھر کو انسانی حقوق کی پاس داری کا درس دیتے ہیں، نیشنل سیکیوریٹی کو آڑ بنا کر ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بین کرنے پر حکومت اور عوامی نمائندے متفّق ہو سکتے ہیں، اِس سوال کی ہر طرف گونج رہی۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر باکو میں ہونے والی عالمی کانفرنس کوپ۔29 میں غریب ممالک کے لیے300 ارب ڈالرز کا وعدہ کیا گیا تاکہ وہ اِن تبدیلیوں سے پیداشدہ مسائل سے نبردآزما ہوسکیں۔ تاہم، اکثر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ مالی معاونت اُن توقّعات پر پوری نہیں اترتی، جو پیرس کانفرنس میں طے کی گئی تھی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے جس بڑے پیمانے پر مسائل درپیش ہیں، عالمی سطح پر اِس کا شعور ناپید ہے۔
عوام اور حکومتوں میں وہ شعور دیکھنے میں نہیں آرہا، جو کورونا جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے دَوران نمایاں تھا،حالاں کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے ضمن میں زمین کے درجۂ حرارت کا جو ہدف مقرّر کیا گیا ہے، وہ حاصل نہ ہوسکا، تو دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔
سال کے آخری ماہ میں بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ درحقیقت اُس53 سالہ تاریک رات کا خاتمہ تھا، جسے اسد خاندان نے عوام پر جبر و استبداد سے مسلّط کر رکھا تھا۔ شامی شہریوں کی خوشیاں اور گلی گلی منائے گئے جشن اِس امر کے گواہ تھے کہ اُنھیں کتنی بڑی مصیبت سے نجات ملی ہے۔ دسمبر کے شروع میں ہیئت تحریر الشام نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق پر قبضہ کرلیا، جو شامی عوام کی 13سالہ جدوجہد کی فتح تھی۔
اِس موقعے پر نئے فاتحین کے رہنما، ابو محمّد الجولانی نے دمشق میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’مستقبل ہمارا ہے۔‘‘ نیز، اُنھوں نے مارچ 2025ء تک کے لیے ایک عبوری حکومت بھی قائم کی۔ محمّد الجولانی نے لاکھوں بے گھر شامی تارکینِ وطن سے اپیل کہ وہ واپس وطن آ کر مُلکی بحالی میں حصّہ ڈالیں۔
اسد حکومت کے زوال کے بعد روز اُن کے ظلم و بربریت کی ایک سے بڑھ کر ایک اَلم ناک داستان سامنے آتی رہی۔ جیلوں کے دروازے کُھلے، تو پتا چلا کہ کس طرح لاکھوں شہریوں کو برسوں سے اِن عقوبت خانوں میں محبوس کر رکھا تھا۔2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زاید شہری ہلاک اور ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔
واضح رہے، شام کی کُل آبادی ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ اِس دوران ایران، اُس کی ملیشیاز اور روس، اسد حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مخالفین پر بدترین حملے کرتے رہے۔ روس 2015ء سے پانچ سال تک مسلسل بم باری کرتا رہا۔ وہ اِسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کہتا تھا، لیکن اِن حملوں نے شہر کھنڈر بنا دئیے۔ شامی اپوزیشن کو ابتدائی دنوں میں تُرکیہ، عرب ممالک، امریکا اور مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی، تاہم داعش کے میدان میں کُودنے پر اِن تمام ممالک نے اپوزیشن سے ہاتھ کھینچ کر اسد سے ملا لیا۔
اسد حکومت نے ایران اور روس کی مدد سے اپوزیشن کو شکست تو دے دی، مگر مُلک کا ایک بڑا حصّہ اُس کے کنٹرول سے نکل گیا، جس پر مختلف جنگ جُو گروپس نے اپنا قبضہ جمالیا۔ پھر ایک مختصر عرصے کے لیے دنیا شام کو بھول بیٹھی اور اسد حکومت بظاہر مستحکم نظر آنے لگی، لیکن درحقیقت اپوزیشن کی مزاحمت ختم نہیں ہوئی تھی اور بالآخر اِن دھڑوں نے گزشتہ برس دسمبر میں متحد ہوکر بشار الاسد کو شکست دے دی، جو اِتنی غیر یقینی اور اچانک تھی کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔
حالیہ عرصے میں مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں کے ایران پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے کہ ایک طرف حماس کی طاقت کم زور ہوئی، تو دوسری طرف اُس کی خطّے میں سب سے بڑی پراکسی، حزب اللہ کو بھی شدید دھچکے لگے، یہاں تک کہ اُس کے سربراہ، حسن نصراللہ بھی ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔
یوں ملیشیاز کی بے پناہ کم زوری اور اسرائیل سے براہِ راست لڑائی کے باعث ایران نے خود کو مزید کسی جنگ میں جھونکنے سے باز رکھا، جب کہ یوکرین جنگ میں پھنسا روس بھی اسد حکومت کی مدد نہیں کرسکا، البتہ اُس نے مفرور اسد کو اپنے ہاں پناہ ضرور دی۔