پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا انجام تو وہی ہو گا جس کا اندازہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے کیونکہ انتشار کی سیاست جو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال ہوتی تھی اب تحریک انصاف کے اندر داخل ہو رہی ہے اور پوری پارٹی باہمی اختلافات کے نتیجے میں ٹکڑوں میں بٹتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والا ہر شخص لیڈر کی حیثیت سے پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے اپنے آپ کو عمران خان کے ہم پلہ یا ان کا جاں نشین تصور کرنے لگتا ہے جو کارکنوںکے علاوہ پرانے پارٹی لیڈروں سے دوری اور سرد جنگ کا باعث بن رہی ہے، ایسی سرد جنگ جو ٹیلیوژن ٹاک شوز میں ٹیلیوژنز کی اسکرینوں تک پہنچ چکی ہے اور ایک ہی پارٹی کے لیڈرز ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور باہمی اختلافات اور اختیارات کی چھینا جھپٹی کے لئے دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ فی الحال پارٹی کارکن اور لیڈرز اپنی سیاسی اہلیت اور درجہ بندی کے علاوہ عوام میں مقبولیت کا خود ساختہ تعین کرتے ہوئے نظریاتی سوچ کےمختلف گروہوں میں تقسیم ہیں ان لیڈروں میںبشریٰ بی بی بھی شامل ہیں جنھوں نے عمران خان کا جاں نشین ثابت کرنے کے لئے اپنے قرب کا غلط اندازہ کرتے ہوئے عمران خان کی منشا کے خلاف میدان سیاست میں کود پڑیں جب پارٹی ایک نازک موڑ پر کھڑی تھی اور اسے پارٹی پر لگائے گئے سیاہ داغ مٹانے کا موقع میسر تھا اور عمران خان نے اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی بار لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈی چوک تک نہ آنے اور احتجاج کے لئے سنگجاتی اور ترنول تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے جب انہوں نے علی امین گنڈاپور پر کہیں فرار ہونے سے روکنے کے لئے پہرے بٹھا دئیے اور ان کو پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی نگرانی میں پابند کر دیا کہ وہ مظاہرین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے جبکہ وہ بظاہر خود تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور میدان سیاست میں دونوں اطراف کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں اور تحریک انصاف میں ایک متنازع کردار بن چکے ہیں لیکن ان تمام پابندیوں کے باوجود وہ شرپسند کارکنوں کی قیادت کرنے اور انہیں اپنے قابو میں رکھنے میں ناکام رہے اور ریڈ زون میں داخل ہو کر حکومت گرا کر خود عنان حکومت سنبھالنے کا معرکہ سر کرنے کا خواب پورا نہ کر سکیں انہیں رات کے اندھیرے میں’’میدان جنگ‘‘ سے گنڈاپور کے ساتھ فرار ہونا پڑا جسے پارٹی میں ان کی قبولیت پر برا اثرپڑا جس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔تاہم عمران خان نے جیل میں بشریٰ بی بی سے ملاقات کے دوران اپنے لہجے میں انہیں سیاست سے علیحدہ رہنے کی ہدایت کی جس کے بعد بشریٰ بی بی سیاست کے منظر سے غائب ہو گئیں۔یہ تاثر ہے کہ بشریٰ بی بی کے علاوہ بھی پارٹی میں کئی ایسے لیڈرز ہیںجن میںقیادت کا فقدان ہے کیونکہ سیاست کے علاوہ شاید وہ اپنے اپنے فنون میں مہارت رکھتے ہوں لیکن عوامی یا پاپولر سیاست کرنا ان کے بس میں نہیں تاہم وہ سب کسی نہ کسی طور عمران خان کے کام آسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے دیرینہ رہنماؤں سےکہیں زیادہ نئے آنے والوں جن وکالت کے شعبہ سے منسلک رہنماؤں کی عمران خان سے قربت ہے اور وہ کسی طور ان کی ناراضگی نہیں چاہتے کیونکہ عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا نظام چلانے کے تمام اختیارات بھی انہی کو تفویض کردئیے گئے ہیں اور چیئرمین اور سیکرٹری سمیت تمام مرکزی عہدے انہی کے پاس ہیں۔عمر ایوب خان کو اس لئے قرب حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے طاقتور آمر فیلڈ مارشل ایوب خان ان کے دادا تھے جنہیں آئین پاکستان کو معطل کرکے پورے نظام کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل تھا، عمران خان کو یہ گمان ہے کہ عمر ایوب خان اپنے خاندانی پس منظر کی بدولت فوج سے رابطہ کرانے کی اہلیت اور استطاعت رکھتے ہیں۔حالات کی تیرادستیوں میں کیا حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری’’غیر فطری‘‘ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں یا ایک بار پھر قوم کومایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا؟ باریک بین حلقہ اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے اور ہر سطح پر ان مذاکرات کی ناکامی کا دعویٰ کرتاہے کیونکہ فریقین مذاکرات یا اس کے مثبت نتائج حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔اتوار کے روز تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفد کے ترجمان نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے 9مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی شرط پر عمل درآمد کئے بغیر مذاکرات پر عملدرآمد ممکن نہیں۔