مشورہ ،صلاح ،نصیحت ،ہدایت اور خواہ مخواہ تجویز دینا انسان کی فطرت کا سب سے قدیم اور پرانا عمل ہے ۔ آسمانی کتابوں میں بھی اس بات کا ذکر آیاہے۔ آدم کو سختی سے تنبیہ کی گئی تھی کہ اے آدم فلاں پیڑ سےفروٹ مت کھانا ورنہ قیامت تک تم اور تمہاری آنے والی نسلیں سزا بھگتتی رہیں گی۔ آدم نے تنبیہ کو اہمیت نہیں دی جس فروٹ کو کھانے سے آدم کو روکا گیا تھا ،آدم نے وہی فروٹ کھایا ،تاریخ گواہ ہے کہ انسان اپنے باوا آدم کی نافرمانی کی سزا آج تک بھگت رہا ہے اور آنے والے نامعلوم وقت تک بھگتتا رہے گا ، تعجب کی بات ہے کہ انسان آج تک ملنے والے مشوروں اور نصیحتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا ۔ پیدائش کے ابتدائی برسوں میں آدمی ناتواں اور بے بس ہوتا ہے بچہ جو ہوتاہے! تب والدین دل و جان سے بچے سے من مانی کرتے ہیں ابھی وہ سوچ سمجھ سے عاری ہوتاہے ۔ والدین اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عالموں اور فاضلوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ عالم اور فاضل بچے کےکان میں کچھ پڑھ کر پھونکتے اور سرگوشیوں میں بولتے رہتے ہیں پھر وہ بچہ چاہے یہودی ہو،عیسائی ہو ، ہندو ہو، مسلمان ہو ، چاہے کسی عقیدے سے تعلق رکھتا ہو زندگی کا سب سے اہم فیصلہ والدین کرتے ہیں ۔ بچے کے لئے جھنجھنا اورکھلونے والدین لے آتے ہیں کپڑے لتے بچے کو والدین اپنی پسند کے پہناتے ہیں ۔ اسے انگلی سے پکڑ کر چلنا پھرنا والدین سکھاتے ہیں کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب بچے کو والدین سکھاتے ہیں چند برسوں بعد جب سوچ سمجھ کے روشندان کھلنے لگتے ہیں بچہ اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگتا ہے ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں شدت آنے لگتی ہے ۔ تب والدین بچے کو اپنی پسند کی قمیص نہیں پہنا سکتے اپنی پسند کے شوز لے کر نہیں دے سکتے تب شعور کی آمد کے ساتھ ساتھ بچے اور والدین کے درمیان پوشیدہ کشمکش پیدا ہوتی ہے اس کشمکش میں اکثر سخت گیر والدین بچے کو اپنے غلبے اور تسلط میں لے لیتے ہیں اور اپنے ادھورے سپنے اپنے بچوں کے ذریعے پورے کرنا چاہتے ہیں آپ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے مگر نہیں بن سکے آپ حتی الامکان کوشش کرکے بیٹے کو ڈاکٹر دیکھنا چاہتے ہیں بیٹا بار بار آپ کو بتا چکا ہے کہ وہ انجینئر بننا چاہتا ہے مگر آپ بضد ہیں کہ آپ کا بیٹا ڈاکٹر بنے اس کشمکش میں آپ کا بیٹا گھر چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے ۔ برسوں بعد اتفاق سے آپ کی ملاقات جب اپنے ضدی اور نافرمان بیٹے سے ہوتی تب وہ اٹلی میں پینٹر بن چکا ہوتا ہے۔ اور مجذوب بچوں کی پینٹنگز بنانے میں نام اور کام کما چکا ہوتا ہے ۔ کون منصف بنے؟ کون فیصلہ کرے ؟ کون کس کو مورد الزام ٹھہرائے ؟۔اس پوری تمہید کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ پیدائش سے مرتے دم تک ہم زندگی بھر نصیحتیں اور مشورے سنتے اور وصول کرتے ہیں ۔ زندگی ہدایتوں کے بل بوتے پر نہیں گزرتی ، زندگی آپ کو گزارنی پڑتی ہے ۔ دوسروں کے حوالے دینے کے بجائے آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں ۔ سنی سنائی بات نہیں ہے جس کے سننے کا شوق ہمیں گھٹی میں مل چکا ہے ۔ میں نوے برس کی دہلیز پر کھڑا ہوا ہوں بوڑھا کھوسٹ ہوچکا ہوں حالیہ باتیں بھول جاتا ہوں پرانی یادیں گھڑی پہلے کی سنی ہوئی باتیں لگتی ہیں ۔ جس جس واقعہ نے ساٹھ ستر برس پہلے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا وہ واقعہ کل کا واقعہ لگتاہے ۔ ایک زمانہ تھا جب ہم اپنی یادداشت پر ناز کیا کرتے تھے اب دن میں دس مرتبہ لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں آج بدھ ہے یا جمعرات ؟ جواب ملتا ہے بڑے میاں آج اتوار ہے ، آج اٹھائیس تاریخ ہے ، فوراً پوچھ لیتے ہیں مہینہ نومبر ہے یا دسمبر؟ جواب ملتا ہے سر مہینہ جون کا ہے ،ایسے میں مشوروں اور ہدایتوں کی بھرمار لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ کسی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا آپ بادام پستہ اور کاجو کھایا کریں ۔ آپ کو بھولی بسری تمام باتیں یاد آنے لگیں گی۔ جو یادیں تمھیں دکھ دیا کرتی تھیں وہ بھولی بسری باتیں پھر سے یاد آنے لگیں گی۔
میں نے مریل مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا، میں فیصلہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہوں سرکاری خزانوں سے ملنے والی پنشن سے میں دال روٹی کھاؤں یا کاجو اخروٹ کھاؤں؟فوراً کسی افلاطون کی طرف سے پیغام ملا وہ ایک طرح کا مشورہ تھا ’قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھو ہو کبھی بھی مرکھپ سکتے ہو کاجو اخروٹ کے بارے میں سوچنا چھوڑو اپنی آخرت کو یاد کرو، پستہ بادام کھانے سے تم روز آخر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔صرف پرانی باتوں کو ، کھوئے ہوئے دوستوں کو اور احباب کو یاد کرکے روتے رہو گے۔ بہتے دریا پھر کبھی بہنے کے لئے لوٹ کر نہیں آتے سمندر کی وشال گہرائیوں میں کھوجاتے ہیں۔ انسانی ذات کی لامحدود تاریخ میں ایک مثال نہیں ملتی کہ جس میں دنیا چھوڑ کر چلے جانے والے کسی شخص نے کبھی ایک مرتبہ واپس آکر بتایا ہو کہ مرجانے کے بعد ہم ہمارے شعور، ہماری روح کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
انت بحر دی خبر نہ کائی رنگی رنگ بنایا