• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دنیا میں اتنی تکلیف کیوں ہے؟ جنگلی کتے ایک جانور کو منہ سے دبوچ لیتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا؛ لہٰذا بے بسی سے کھڑا رہتاہے۔ باقی اسے زندہ کھانا شروع کر دیتے ہیں۔جب وہ اسے کافی حد تک کھا چکتے ہیں تو خون بہنے سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

دوسری طرح کی صورتِ حال یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس ہر قسم کے وسائل ہیں۔ کوئی اسے انگلی بھی نہیں لگا سکتا لیکن پھر وہ ایک لا علاج بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اننت امبانی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ باکسر محمد علی جیسا ایک طاقتور آدمی پارکنسن کا شکار ہو جاتاہے، علاج کوئی نہیں۔ صرف موت ہی پھر اسے نجات دیتی ہے۔بعض اوقات ایک نہایت محفوظ بستی میں ایک چھوٹا معصوم بچہ کسی جنسی درندے کےہتھے چڑھ جاتا ہے۔ وہ اسے بے پناہ اذیت سے گزار کر قتل کر دیتا ہے۔ اس بچے کو، جسکے ماں باپ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ادھر دوسری طرف لندن میں سارہ شریف کا کیس ہے، جو اپنے باپ کے ہاتھوں قتل ہوئی۔اپنی دس سالہ زندگی میں اکثر وہ تشدد سے گزرتی رہی۔ ایک دن آخر بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں وہ مر گئی تو باپ عرفان شریف پاکستان بھاگ آیا۔ اسلام آباد ائیر پورٹ سے برطانوی پولیس کو اطلاع دی۔ برطانیہ جیسے معاشرے میں، جہاں اولاد کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں، وہاں تشدد کر کر کے بیٹی کو قتل کر دیا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔

بہ زیر شاخِ گل افعی گزید بلبل را

نواگران نخوردہ گزند راچہ خبر

شاخِ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا مگر جنہیں زخم نہ لگا، انہیں کیا پروا۔ پھول جیسی بچی اپنے ہی باپ کے ہاتھوں سسک سسک کر مر گئی۔ تکلیف کہاں سے آنی ہے، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ بی بی سی کے مطابق یہ ایک ایسی بچی کی زندگی کا اختتام تھا، جس کی استانی کے مطابق سارہ سب سے زیادہ خوش سٹیج پر ہوتی تھی۔ اسے گٹار بجانا پسند تھا اور اسکا پسندیدہ رنگ گلابی تھا مگر وہ ایک درندے کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ نجانے موت سے پہلے کب کب کتنا تشدد اس نے برداشت کیا۔

ایک اغوا شدہ بچہ یاد آتا ہے۔ اغوا کرنے والے درندے نے بازو، ٹانگیں اور منہ ٹیپ سے باندھ کر الماری میں بند کر دیا تھا۔ خود وہ فرار ہو گیا۔ بچہ کئی دن اسی حالت میں پڑا رہا۔ پولیس جب اس تک پہنچی تو اسی حالت میں بیٹھا بیٹھا وہ مر چکا تھا۔ موت سے قبل نجانے کتنی تکلیف اس نے برداشت کی ہو گی۔ اس کی بندھی ہوئی لاش دیکھ کر جو قیامت دل پر گزری، آج تک وہ زخم بھر نہیں سکا۔ پھر مگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں ایک ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچہ دیکھا۔ والدین کے پاس سب کچھ تھا مگر بچہ بمشکل پورا منہ کھول کر سانس لے رہا تھا۔ وہ سخت اذیت میں تھا۔ تکلیف کس طرف سے آنی ہے، کچھ کہہ نہیں سکتے۔

ایک ڈاکو منٹری دیکھی۔ شیر ہرن کے بچے کو ماں کے سامنے کھا جاتے ہیں۔ غزہ کے بھوکے، سردی سے کانپتے ہوئے بچے دیکھے، جن میں سے کئی زخمی تھے۔ ابھی دو ماہ قبل مگر سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر سو برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ کہاں بے پناہ سامراجی قوت کے ساتھ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک کے ساتھ ڈیل کرنا اور کہاں برسوں ایک سست رفتار موت کا انتظار جو بڑھاپے کی تکلیف سے نجات دے۔شدید بڑھاپے سے زیادہ تکلیف دہ اور کیا ہے۔؟

ایک طرف غزہ کی تباہ کاریاں تھیں۔ ادھر دوسری طرف کیلیفورنیا میں گولڈن گلوبز کی تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ ہالی وڈکے ستارے جگمگا رہے تھے، جنہیں ان کی پرفارمنس پر ایوارڈز دیے جانے تھے۔ ان میں سے کئی کے گھر لاس اینجلس کی خوفناک آگ میں جل کر خاکستر ہو چکے تھے۔ تقریب کا ایک حصہ وہ بھی تھا، جس میں کئی منٹ تک فلمی ستاروں نے (معاذاللہ) خدا کا مذاق اڑانا اور قہقہے لگانا تھے۔ انٹرنیٹ پر یہ وڈیو اس ٹائٹل سے موجود ہے "Hollywood Mocks God, Then this happens"لاس اینجلس کی آگ نے جو اُن کے ساتھ کیا تھا، اس کے بعد وہ بیچارے ڈھیٹ ہی بنے ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ہالی ووڈ اداکار جیمز ووڈز کواپنا گھر جلنے پر روتے ہوئے دکھایا گیا؛ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے غزہ کی تباہ کاری پر وہ بے حد خوش تھے۔ سوشل میڈیا پر لوگ یہ کمنٹس کر رہے تھے کہ اب غزہ کا دکھ سمجھ آیا؟اس دنیا میں جو بھی پیدا ہوا، اسے تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ موت کی تکلیف سے تو بہرحال ہر ایک نے ہی گزرنا ہے۔ موت آسانی سے تو نہیں آتی۔ زندگی بھی کبھی ہنساتی، کبھی رلاتی ہے۔

جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا

کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہو گا

زندگی ہے ہی اتنی نازک کہ تکلیف سے پوری طرح بچ نہیں سکتی۔

تازہ ترین