• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیرداخلہ جناب محسن نقوی کی ہدایت پرنیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی اور پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کےباہمی تعاون سے ایسا فیچر تیار کیا گیاہے جس میں دس سال سے زیادہ عمر کےپاکستانی بچوں کے ’’فارم ب‘‘پر فوٹو اور انگلیوں کے نشان ثبت ہوں گے۔ اس ریکارڈ کے ذریعے بچوں کی بیرون ملک اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ یاد رہے اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی اپنی کابینہ تشکیل دینے سے پہلے پنجاب کی آبادی کا ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کرانے کیلئےمحترمہ مریم اورنگزیب ،جنہیں بعد میں پنجاب کا سینئر وزیر بنایا گیا، کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی قائم کی تھی ۔مجھے سخت افسوس رہا کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مجھے قومی اور عوامی ترقی کا زیرنظر شاندار آئیڈیا اورتجویزکیوں نہ سوجھی جبکہ بھٹوحکومت کے ابتدائی دور میں عوام کے آئیڈیاز کو قبول کرنے کی بہتر گنجائش موجود تھی اور مجھے ایوان سرکار تک اپنے اس آئیڈیا کو پہنچانے کی بہتر سہولت حا صل تھی ۔یاد رہے کہ شہری بے گھر خاندانوں کو پانچ مرلہ اور دیہاتی بے گھر خاندانوں کو سات مرلہ رہائشی پلاٹ تقسیم کرنے کی اسکیم  میں نے ہی 1973ء میں گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر کو پیش کی تھی جسےصدر ذوالفقار علی بھٹو نے جاری کیا تھا۔ بھٹو حکومت نے دو فوری مقاصدپاکستان کی سیکورٹی اور پاکستانیوں کوشناخت دینے کیلئے قومی شناختی کارڈ کی اسکیم جاری کی جس کی بنیاد پر پاکستان کے شہریوں کو پاسپورٹ جاری کیے جانے لگے۔اس سے پہلے پاسپورٹ امیر پاکستانی شہریوں کو جاری کیے جاتے تھے یوں لاکھوں عام پاکستانیوں کو روزگار کیلئے بیرون ممالک جانےکا موقع ملا اور آج ان کا بھیجے جانے والا زرمبادلہ پاکستان کی معیشت کومحفوظ بنائے ہوئےہے ۔ بھٹو دور میں جب قومی شناختی کارڈ جاری کرنےکا کام شروع کیا گیا۔ اگر اس وقت ہی قومی شناختی کارڈ جاری کرنےکی بنیاد پرووٹر لسٹوں کی تیاری اورفارم ب کی بنیاد پرخانہ و مردم شماری کے شعبےبھی منسلک کر دیے جاتے تو پاکستان کو اس وقت ہی سےروز مرہ کی بنیاد پر خودکار طریقے سے اپ ڈیٹ رکھے جانے والی شفاف ووٹر لسٹوں اور خانہ و مردم شماری کے نظام مل جاتےجو مالی اعتبار سے سیلف جنریٹ انتہائی کم لاگت ہوتےاور ہر الیکشن کیلئے اربوں روپے کی لاگت سے ووٹر لسٹیں  تیار کرانا  نہ پڑتیں اور نہ ہی ہر دس سال بعد الگ سے اربوں روپے کی لاگت سے خانہ و مردم شماری کرانا پڑتی جس کیلئے محض فارم ب کو مردم شماری کے مطلوبہ کوائف کے مطابق بنا نا ہوتا اگرچہ خانہ شماری کیلئے الگ سے اضافی فارم شامل کرنا ہوتاجس کے کوائف اس قدر کمپری ہنسو  بنائے جا سکتے ہیں کہ پاکستان بھر میں متبادل سکنی اور کمرشل خانہ شماری کا اپ ڈیٹ رکھے جانے والاریکارڈ تیارکرا لیا جاتا ۔ بہاولپور میں ڈپٹی کمشنرتعینات رہنے والےجناب محمد جاوید اقبال اعوان کو جب  ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم آفس میں قائم نیشنل کمیشن فار ریفارمز کاچیئرمین بنایا گیا تو انہوں نے میرے اس آئیڈیا اور تجویز کو اہم پاتے ہوئے اس پرپاکستان شماریات بیورو اور نادرا سےکمنٹس طلب کیے تھے جس پر چیف اسٹیٹکس جناب آصف باجوہ کی صدارت میں شماریات ڈویژن کے ہائی اپس  Highups اور چیئرمین نادرا جناب پرویز ملک نےمجھ سے بریفنگ حاصل کی تھی ۔ دونوں نے اس آئیڈیا اور تجویز کو شاندار سائنٹفک اور قابل عمل قرار دیا تھا اگرچہ چیئرمین نادرا کا کہنا تھا کہ نادراکے پاس خانہ و مردم شماری کا انفراسٹرکچر نہیں ہے جس پر میں نے واضح کیاتھا کہ شماریات ڈویژن کے خانہ و مردم شماری کے شعبے کو نادرا سے وابستہ کیا جاسکتا ہے اس بریفنگ کے کچھ دن بعد مجھے ’’پاکستان شماریات ڈویژن‘‘کی جانب سے بھجوائے گئے’’منٹس نوٹ‘‘ میں بتایا گیاتھاکہ خانہ ومردم شماری کے فارم اور اسٹیشنری وغیرہ تیار کرا ئےگئے ہیں اس لیے میرے اس آئیڈیا اور تجویز پر عمل آئندہ مردم شماری میں کیاجا سکے گا۔ میں نے اس پر جناب آصف باجوہ کو لکھا تھا کہ مردم شماری کی ابتدائی تیاری پر اٹھائے جانے والے ایک دو ارب روپے کے نقصان کو بخوشی برداشت کر لیا جائے کہ نادرا کے ذریعے جدید طریقے سے کرائی جانے والی خانہ و مردم شماری پر نہ صرف کئی گنا کم اخراجات آئیں گے بلکہ پاکستان کو خانہ ومردم شماری کا ایسا نظام مل جائے گا جس پرعوامی ترقی کی بنیادیں استوار کی جا سکیں گی۔ میری خانہ ومردم شماری کے بارے میں کی گئی پیش گوئی جو میں نےپی ایس بی اور نادرا کے چیفس کو بریفنگ کے دوران پیش کی تھی وہ سچ ثابت ہوگئی کہ جاری فرسودہ طریقے سے کرائی جانے والی مردم شماری مشکوک اورمتنازعہ قرار پا گئی، جس پر وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے دوبارہ خانہ ومردم شماری کرانے کا پروگرام بنایا تو سابق چیئرمین نیشنل کمیشن فار ریفارمز محمد جاوید اقبال اعوان میری اس تجویز کو منظور کرانے کیلئے متحرک ہوگئے۔ لیکن اس وقت کے چیئرمین نادرا جناب طارق ملک کےاس مبہم موقف کہ نادرا کے پاس خانہ و مردم شماری کرانے کا انفرا سٹرکچر نہیںہے اس تجویز کو ڈراپ کر دیا گیا ۔واضح رہے کہ یہ آئیڈیا اور تجویز جسے میں پیش کرنے جا رہا ہوں مجھے اس وقت سوجھی تھی جب جولائی 1978 میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے الیکشن کو لمبے عرصہ تک ٹالنے کیلئے نئے سرے سے ووٹرز لسٹوں کی تیاری کا پروگرام جاری کیا تھا ۔اچھی بات ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نادرا کی سرگرمیوں کے دائرے کو وسیع اور اپ ڈیٹ کر رہےہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کےشروع کیے گئے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کے پروجیکٹ جسے صدر جنرل پرویز مشرف کے دور سے جسے نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی کےنام سے چلایا جا رہا ہے میں رائٹ سائزنگ کرکے خانہ ومردم شماری کے شعبےکوبھی شامل کر لیا جائے تو یہ پاکستان کے عوام کی ترقی کیلئے شاندار ریکارڈ قائم کرنے کا سبب بنے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز حال ہی میں کیمونسٹ چین کا ایک ہفتےکا دورکرکےآئی ہیں۔ اس دوران انہوں نےمشاہدہ کیا ہوگا کہ چین کی تیز رفتار ترقی میں درست اعدادوشمار کا بنیادی کردار ہےاس حوالے سے ان کے پنجاب کی آبادی کے ڈیجیٹل ریکارڈ کے شروع کرائے گئے پروگرام کے وژن کو تقویت ملی ہوگی جسے سائنٹفک اور شاندار بنانےکیلئے نادرا کیلئے تجویز کیے گئےخانہ شماری پروگرام کے ساتھ مربوط کیا جانا مناسب ہوگا۔ 

تازہ ترین