یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ ہر حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جن سے عوام کو واقعی فائدہ مل سکتا ہے۔ اگر سیاسی قیادت اور مقتدر حلقے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں عام آدمی کو حقیقی ریلیف دینے کیلئے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ دھڑلے سے عوام کو بتاتے ہیں کہ ہم اس نظام کا حصہ ہیں جو انہیں مسلسل اور بے رحمی سے لوٹ رہا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ایسے اعترافات یا انکشافات کسی احتساب کے خوف کے بغیر اس لئے کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کبھی توانائی کے وزیر کا بیان آ جاتا ہے کہ بجلی جان بوجھ کر مہنگی کی گئی یا عوام کے بلوں میں اضافی یونٹ ڈالے جاتے ہیں، کبھی وزیر خزانہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ طاقتور لوگ ٹیکس نہیں دے رہے اور ہم ان کا بگاڑ بھی کچھ نہیں سکتے، کبھی وزیراعظم کہہ دیتے ہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں واقعی ایسا نظام موجود ہوتا جس میں ذرا سے بھی احتساب کا امکان ہوتا تو یا ایسے بیانات سامنے نہ آتے اور یا ایسے بیانات دینے والے اقتدار کے ایوانوں کی بجائے احتساب کے کٹہرے میں ہوتے۔
ٹیکس وصولی ملکی معاملات چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے حکومتی زعماء گا ہے گاہے ٹیکس نظام میں سہولت اور شفافیت کے اعلانات تو کرتے ہیں لیکن یہ معاملات بڑی حد تک محض بیانات تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، ٹیکسوں کا نظام وضع کرنے والے اپنی پالیسیوں کے نقارے بجا کر رخصت ہوجاتے ہیں لیکن معاملات سدھر کرنہیں دیتے ۔بڑی وجہ یہ ہے کہ سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے بجائے ان سے در پردہ فوائد کشید کئے جاتےرہے ہیں ،مراعات یافتہ طبقات کو ٹیکس مدات میں چھوٹ دے کر بوجھ غریب عوام اور تنخواہ دار طبقات کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی نشاندھیوں پر سخت اقدامات کے بیانات تو جاری کئے جاتے ہیں لیکن ان پر دوبارہ توجہ کی ضرورت تک محسوس نہیں کیا جاتی۔ لاہور میں تھنک فیسٹ کی تقریب سے خطاب میں چیئر مین ایف بی آر،راشد محمود لنگڑیال نے کھلا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ غلط ہے ،جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ان کا کہنا 100 فیصد درست ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے اور ہمارے لوگوں کی ٹیکس انکم ہی نہیں۔ 60فیصد لوگوں کی تو آمدنی ہی اتنی ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، ہم زیادہ آمدن والوں سے ٹیکس نہ لے پائے تو تنخواہ داروں کو شامل کر لیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ٹیکس سسٹم کیسے ٹھیک کرنا ہے، وہی ٹیکس نہیں دیتے، حکومت جانتی ہے کہ بعض چیزوں پر ٹیکس ریٹ کم ہونا چاہئے لیکن وہ اپنے آپ کو عمل درآمد سے قاصر پاتی ہے۔ تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکس ہدف پچھلے سال کے مقابلے میں 40گنا زیادہ ہے، اس وقت ٹیکس گیپ 2ہزار روپے سے زائد ہے ،انہوں نے اس مسئلے کی بھی نشاندہی کی کہ ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ میں کم لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا اب ہم ان لوگوں سے ٹیکس وصول کریں گے جو ٹیکس دینے سے کتراتے رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 40لاکھ لوگ ہیں جن کے گھروں میں ائر کنڈیشنر لگے ہوئے ہیں۔ ٹیکس دینے اور ٹیکس لینے والے دونوں کے بہت مسائل ہیں۔ سسٹم کا ڈیزائن 5فیصدلوگوں کیلئے بنا ہوا ہے عام لوگ اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ پاکستان اوور ٹیکس ملکوں میں نہیں آتا، بھارت میں گڈز پر سیلز ٹیکس صوبوں کا اختیار ہے جب کہ پاکستان میں یہ اختیار وفاق کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایجوکیشن پروڈکشن سسٹم ناکام ہو چکا ہے، آج پاکستان تعلیم میں وہاں پہنچا ہے، جہاں فرانس 1960میں پہنچا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ ہم ٹیکس پورا دے رہے ہیں نہ اس کے جواب میں سروسز پوری مل رہی ہیں، گزشتہ سال میں ریٹیلرز 2لاکھ تھے، رواں سال 6لاکھ آئے، وہ ٹیکس نیٹ میں آتو گئے لیکن انہوں نے اپنی آمدن ظاہر نہیں کی۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ہم ایسا قانون وضع کر رہے ہیں کہ ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے والا اپنی کمائی سے خریداری بھی نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے اس سال 13ہزار 500ارب روپے ٹیکس وصولی کا عندیہ بھی دیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بہت سی درست باتوں کا تذکرہ کیا لیکن اس عمل کو افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے کہ ریونیو بڑھانے کی باتیں اور اعلانات تو ضرور ہوتے ہیں مگر عملی اقدامات اور سسٹم کو درست کرنے کی جانب اس طرح توجہ نہیں دی جاتی جسکے ذریعے ٹیکس دہندگان کے اعتماد میں اضافہ ہو،ان رکاوٹوں میں خود محکمہ جاتی افراد اور ان کی نیٹ ورک سے ہٹ کروضع کردہ خود ساختہ پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے جنہیں سنجیدگی اور سختی سے دور کیا جانا ضروری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قرض دینے والے مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مثبت تجاویز کو بھی بعض صورتوں میں خاطر میں نہیں لایا جاتا، ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیکس وصولیوں کے عمل میں اصلاحات کی بڑی گنجائش ہے جس کے ذریعے ٹیکس چوری کے عمل کو ختم کیا جا سکتا ہے، ٹیکس وصولی میں سہولیات متعارف کرانے سے ٹیکس دینے والوں کے اعتماد میں ہی اضافہ نہیں ہو گا بلکہ ٹیکس وصولی کے مقررہ اہداف میں بھی کامیابی ممکن ہو گی۔