حکومت اور اپوزیشن میں طویل عرصے سے جاری سیاسی محاذ آرائی اگرچہ نئے سال میں بھی کم نہیں ہوئی ۔ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ دونوں طرف کے لیڈران نے ایک میز پر اکٹھے بیٹھ کر سیاسی مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے وسط سے جاری ان مذاکرات پر تاحال غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان مذاکرات کے اغراض و مقاصد بھی واضح ہو کر سامنے نہیں آئے۔ اس حوالے سے میڈیا پر سامنے آنے والی خبروں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں ہیں اور ان مذاکرات میں ملک کا اصل مسئلہ یعنی معیشت کی بحالی کیلئے اتفاق رائے سے پالیسیوں کی تشکیل کسی کے پیش نظر نہیں ہے۔ حالانکہ جس طرح ہمارا ملک گزشتہ کچھ عرصے میں دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا ہماری یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کو اولیت دیں۔ اس حوالے سے سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو گا تو ہمیں اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے کسی عالمی ادارے یا دوست ملک سے قرض یا امداد کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی۔ اس کے برعکس اگر ہماری سیاسی قیادت اپنے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنےکیلئےہی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہتی ہے یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس سے ملک اور عوام کا کوئی بھلا نہیں ہو گا۔ رواں سال کے آغاز پر معیشت میں جو بہتری آئی ہے اس کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کم از کم معاشی ایجنڈے پر ضرور متفق ہوں۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ اسی طرح سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر متعدد مرتبہ آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتوں میں سیاسی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی بظاہر اس آئیڈیے سے کوئی بنیادی اختلاف سامنے نہیں آیا ہے۔ اس لئے یہ بہترین وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے مذاکرات کو سیاسی صرف مسائل تک محدود رکھنے کی بجائے میثاق معیشت کو بھی مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بنائیں۔ اس سے نہ صرف قومی سطح پر سیاسی درجہ حرارت کم ہو گا بلکہ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری و صنعتی تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ سیاسی جماعتوں کی باہمی کشمکش اور اقتدار کے حصول کی دوڑ میں ملک کی معیشت متاثر نہ ہو۔ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی اپنی تجاویز پر مشتمل روڈ میپ بھی تشکیل دے سکتی ہے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے مطابق معاشی اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار طے کر سکیں۔ اس طرح ایک ایسی متفقہ قومی دستاویز تیار کی جا سکتی ہے جسے قومی اسمبلی کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اٹھارویں ترمیم کی طرح آئین کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی اقدام ہو گا جس پر ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں یاد رکھیں گی اور موجودہ سیاسی قیادت کا نام بھی تاریخ میں امر ہو جائے گا کہ انہوں نے قومی تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل کیلئے ایک ایسا لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کر دیا ہے جس پر چل کر پاکستان کے معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ملک میں نئے سیاسی کلچر کے پنپنے کا آغاز ثابت ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی بدولت ہماری سیاسی جماعتوں میں وہ برداشت اور رواداری فروغ پائے گی جو جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ارباب اقتدار اور صاحب الرائے طبقات مستقبل کے معاشی روڈ میپ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کروائیں کہ میثاق معیشت کے بغیر پاکستان کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کاروباری برادری اور مختلف سیکٹرز کی صنعتی تنظیموں کے عہدیداروں کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس دلایا جانا چاہیے کہ ملک کی بقاکیلئےمتفقہ معاشی ایجنڈا تیار کرنا ضروری ہے۔ ملکی ترقی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے میثاق معیشت پر سیاسی اتفاق رائے اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس تاثر کو گزشتہ سال بار بار اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج اور اس کو روکنے کیلئے کئے جانے والے حکومتی اقدامات نے مزید پختہ کیا ہے۔ اب بھی معاشی افق پر یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن میں جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے تو ملک میں احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان بھر میں تجارتی و کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ بیرون ملک بھی پاکستانی برآمد کنندگان کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔