• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ہر باشعور پاکستانی ان کی کامیابی کا خواہش مند ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو ملک سے سیاسی و سماجی انتشار ختم ہوسکتا ہے اورنہ معیشت کی پائیدار بنیادوں پر بحالی ممکن ہے ۔ یہ مذاکرات بانی پی ٹی آئی کی اجازت سے شروع ہوئے اور انکے ساتھی ان کی ہدایات کے مطابق ہی ان میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس دوران پارٹی قائدین کے آرمی چیف سے رابطے کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں اور بانی چیئرمین نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے کے آگے بڑھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ تاہم اس کیلئے ضروری تھا کہ عسکری قیادت کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کا سلسلہ ہر سطح پر بند کیا جاتا، لیکن نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کے طاقتور سوشل میڈیا نیٹ ورک سے یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ خود بانی پی ٹی آئی نے بھی ایکس پر اپنی تازہ ترین پوسٹ میں اعلیٰ فوجی کمان کو ہدف بناکر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے جاری اپنے رسمی مذاکرات اور پس پردہ بات چیت دونوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ایک قریبی ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر دونوںنے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ فوج اور اس کی قیادت پر حملے کرنے سے گریز کریںاور بیرون ملک اپنے سوشل میڈیا کو بھی اس سے روکیں کیونکہ حالیہ بیک ڈور ڈائیلاگ کے عمل میں پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عمران خان نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ’’پاکستان میں1971ءکی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ یحییٰ خان ٹو نے ملک تباہ کر دیا ہے‘‘ عسکری قیادت کے خلاف یہ اظہار غیظ و غضب اگر 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے میں مجرم ٹھہرائے جانے پر ہے تو اس کا کوئی جواز اس لیے نہیں کہ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے جس میں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر واضح کیا گیا ہے کہ استغاثہ نے اپنے الزامات ثابت کردیے ہیں۔اس فیصلے سے اختلاف یقینا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا طریقہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیزمہم جوئی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ میں اس کے خلاف اپیل ہے جس کے بعد بانی پی ٹی آئی کو آئین و قانون اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کے کھلے مواقع حاصل ہوں گے جبکہ عسکری قیادت کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ حکومت اور عسکری ذرائع دونوں سے بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچائے گا۔ اپنے ساتھیوں کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بند کردینے کی درخواستوں کے باوجود اپنی تازہ پوسٹ میں موجودہ عسکری قیادت کو یحییٰ خان دوم قرار دے کر عمران خان نے بظاہر بات چیت کے جاری عمل کو دانستہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن تحریک انصاف کے بعض رہنما حیرت انگیز طور پر فوج اور پی ٹی آئی کے رابطوں کو منقطع کرنے کا خواہش مند مسلم لیگ (ن) کو قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے مشیر بیرسٹر محمد علی سیف کے بقول پی ٹی آئی رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقات کے بعد نواز شریف کیمپ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور نوازشریف نے اپنی ٹیم کو مذاکرات ناکام بنانے کا مشن سونپ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر بات چیت کا وہ دروازہ کھل گیا ہے جس کیلئے سال بھر سے کوشاں تھے تو چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں اور روشن دانوں میں جھانکنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مذاکرات بیک وقت متعدد سطحوں پر نہیں ہوسکتے۔ان تفصیلات سے اس کے سوا بھلا کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی خود ہی ہر سطح کے مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے کیلئے کوشاں ہیں خواہ اس سے ملک میں استحکام کے قیام اور بے یقینی کے خاتمے کی کوششوں کو کتناہی نقصان کیوں نہ پہنچے۔

تازہ ترین