• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عادل بازئی کیس: الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا، جسٹس عائشہ کا اضافی نوٹ

کولاج فوٹو: فائل
کولاج فوٹو: فائل

ایم این اے عادل بازئی کی اپیل کے فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ تحریر کیا جس میں کہا گیا الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔

اس میں جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا کہ آئین کے تحت حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال، انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔

جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا کہ 20 فروری 2024 کو اپنے حلف نامے کے تحت سنی اتحاد کونسل میں عادل بازئی نے شمولیت اختیار کی، چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے 20 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن کو شمولیت کی اطلاع دی۔ سنی اتحاد کونسل کیس میں دیے گئے فیصلے کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کے ایک آزاد رکن رہے۔

اس میں کہا گیا کہ یہ بھی واضح کیا کہ اس نے 16 فروری 2024 کےحلف نامے کو کبھی جمع نہیں کروایا، عادل بازئی نے حلف نامہ جعلی اور من گھڑت ہونے کے بارے سول مقدمہ اور فوجداری شکایت درج کروائی۔ سول مقدمے میں مذکورہ حلف نامہ 2 نومبر 2024 کو سینئر سول جج 1 کوئٹہ نے معطل کر دیا۔ فوجداری شکایت میں ایس ایچ او کی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ حلف نامے کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا گیا۔

جسٹس عائشہ نے اضافی نوٹ میں تحریر کیا کہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا۔ انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ دیکھا۔ سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے قبول کر لیا۔

انہوں نے لکھا یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا ہے کہ انتخابات جمہوریت کےلیے ریڑھ کی ہڈی ہیں، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا کہ الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کے عمل کےلیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، بصورت دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے فیصلے میں کہا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا۔

جسٹس عائشہ نے تحریر کیا کہ یہی وجہ ہے ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔

قومی خبریں سے مزید