لوگ بتاتے ہیں کہ جب میںپیدا ہوا تھا،تب مجھے دیکھنے کے بعد صدمے سے میری ماں مرگئی تھی۔ یہ سنی سنائی بات ہے ہر سنی سنائی بات کی طرح میری بات میں بھی سچ اور جھوٹ کی آمیزش ہے ۔لوگوں نے میری ماں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی ۔ چلا چلا کر وہ لوگ میری مری ہوئی ماں کو یقین دلوانے کی کوشش کرتے رہے کہ شمشاد یہ کالا کلوٹا بیٹا تیرا اپنا بیٹا ہے، عبداللطیف کا بیٹا ہے کسی گوریلے کا بیٹا نہیں ہے ۔ مرنا نہیں آنکھیں کھول، اگر تو مرگئی تو اس بچارے کا کیا بنے گا ،تیرا میاں عبداللطیف چار شادیاں رچانے پر تلا بیٹھا ہے ۔ چار سوتیلی ماؤں کے درمیان تیرا بیٹا برباد ہوجائے گا۔ دیکھ شمشاد تو مرنا نہیں ۔ تجھے اپنے بیٹے کیلئے زندہ رہنا ہے ۔ شمشاد تو ہماری بات سن رہی ہے نا؟۔ میری ماں ان کی باتیں نہیں سن رہی تھی مجھے دیکھنے کے بعد میری ماں مرگئی تھی۔ تب میری منجھلی خالہ دلشاد نے آگے بڑھ کر مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا تھا اور پھر خالہ ، دلشاد نے مجھے گود لینے کے بعد میری مری ہوئی ماں شمشاد سے کہا تھا، میں وعدہ کرتی ہوں شمشاد کہ میں تیرے بیٹے کو خوب لاڈ پیار سے پالوں گی اور وہ تجھے بھول جائے گا۔
تب میرے نانا اتفاق سے زندہ تھے ان کے ہم سفر اور ہم عمر مرکھپ گئے تھے ۔ وہ خالہ دلشاد کےقریب کھڑے ہوئے تھے اور انہماک سے اپنے نوزائیدہ نواسے کو دیکھ رہے تھے اور خالہ دلشاد کی باتیں سن رہے تھے انہوں نے خالہ دلشاد کو ٹوکتے ہوئے کہا ، اپنی زبان پر قابو رکھو دلشاد ، پالتے ہم جانور کے بچے کو ہیں ۔ انسان کے بچے کی ہم پرورش کرتے ہیں تودلشاد اپنی مرحومہ بہن کے بچے کی پرورش کرے گی۔ اور پھر میری خالہ دلشاد میری پرورش کرتے کرتے بوڑھی ہوگئیں ۔ بال اسکے پہلے کھچڑی اوربعد میں سفید ہوگئے۔ اس کی پیشانی پر صدیوں پرانے قصے لکھے جانے لگے وہ کہانیوں کی انسائیکلوپیڈیا بنتی گئی ۔ خالہ دلشادنے مجھ لائق بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر میں بڑا ہوکر نالائق نکما ہی نکلا ، مگر میری بےمثال نالائقی میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ آپ تو عاقل و بالغ ہیں آپ جانتے ہیں کہ ہم خواہشوں کی بھول بھلیوں میں جو بننا چاہیں بن نہیں سکتے ۔ ہمارے ساتھ ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔ آپ خود اپنی قسمت کےکاتب نہیں بن سکتے ۔ آپ اپنی مرضی اور منشا سے وہ کچھ اپنے نصیب میں نہیں لکھ سکتے جو آپ بننا چاہتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ منظور خدا ہوتا ہے۔ اس کہاوت پر آپ کا یقین ہےنہیں ہے ،میں نہیں جانتا مگر اس کہاوت پر میرا پختہ یقین ہے ۔ اس کہاوت پر یقین رکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ کوئی گیت گنگنا سکتے ہیں سیٹی بجا سکتے ہیں یہ سب تب ہوتا ہے جب آپ کہاوت منظور خدا پر یقین رکھتے ہیں ۔ تب دکھ زیادہ دیر تک محسوس نہیں ہوتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں پولیو مہم کے دوران جس خاتون ایم این اے نے پولیو کے قطرے میرے منہ میں ڈالتے ہوئے تصویریں کھینچوائی تھیں، وہ بہت خوبصورت تھی، اس کا نام ریشماں تھا۔ حکومتی سطح پر لوگ اسے ریشماں آتش فشاں کہا کرتے تھے، یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ میں اسے افشاں کہکشاں کے نام سے یاد کرتا تھا ، بچپن میں، میں سوچاکرتا تھاکہ بڑا ہوکر میں ریشماں سے شادی کروں گا، جب میں بڑا ہوا ریشماں کہکشاں بوڑھی ہوچکی تھی۔ مگر عام آدمی کے لئے وہ ریشماں آتش فشاں تھی۔ اسمبلی میں وہ سب کی بولتی بند کردیتی تھی۔ میں جب تک شادی کے لائق ہوا ریشماں اللہ سائیں کو پیاری ہوگئی تھی۔ مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ میں غم کی دوسری دنیا سے گزرنے لگا تھا مجھے نہ نیند آتی تھی نہ کچھ دیر روسکتا تھا نہ کچھ گا سکتا تھا، نہ کچھ گنگنا سکتا تھا۔ میں سوچتا رہتا تھا، کہ اے کاش میں زندگی بھر بچہ رہ جاتا اور ریشماں مجھے پولیو کے قطرے پلاتی رہتی اور میں بے بس بچہ اسے دیکھتا رہ جاتا ۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا تب کسی دانشمند نے کہا تھا، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، مجھے لگتا ہے ایک ریشماں کی خاطر میں بار بار جنم لیتا رہا ہوں، ہر جنم میں ، میں ریشماں کو کھوتا رہا ہوں اپنے دل کا بوجھ بڑھاتا رہتا ہوں مگر سرداروں، چوہدریوں اور وڈیروں کا بول بالا کرتا رہا ہوں ، بیلٹ بکس میں بار بار ووٹ ڈالنے میں ، میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ، ایک خوبصورت نرس نے مجھے خسرے سے بچنے کے ٹیکے لگائے تھے ۔ اس کا نام تھا ریشماں نشتر، مگر اس کے ہاتھ میں ، میں نے کبھی بھی نشتر نہیں دیکھا تھا ڈاکٹروں سمیت ہسپتال کا پورا عملہ ریشماں سے دوستی رکھنے کیلئے مرتا تھا،مگر اس سے شادی کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سینئر ڈاکٹر نے ریشماں کو شادی کا جھانسہ دے کر بوتل میں اتار لیا تھا۔ سینئر ڈاکٹر نے ایک کم عمر لیڈی ڈاکٹر سے شادی رچالی۔ ڈاکٹر کی بیوفائی کا ریشماں کو بہت دکھ ہوا، اس نے زہر پی کر خود کشی کرلی، کاش ریشماں نشتر نے میرے بڑے ہونے کا انتظار کیا ہوتا، تب کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ہوتا وہی ہے ، جو منظور خدا ہوتا ہے۔