• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت کی جانب سے 190ملین پائونڈز کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا نے ملکی سیاست میں تلاطم پیدا کردیا ہے۔ حکومتی شخصیات احتساب عدالت کے فیصلے کو حکومت کی بڑی فتح اور کرپشن کے خلاف کامیابی جبکہ پی ٹی آئی قیادت اِسے ایک اور متنازع عدالتی فیصلہ قرار دے رہی ہے۔ عدالتی فیصلے میں عمران خان کو 14 سال، بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 افراد سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر، سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری، ایک پراپرٹی ٹائیکون، اُن کے بیٹے اور بشریٰ بی بی کی دوست فرح شہزادی کو اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس پر ضمانت مسترد ہونے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی 2023کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے ردعمل میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے عسکری تنصیبات اور حساس عمارتوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس سانحہ میں ملوث 85سے زائد مجرمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں جبکہ ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کے خلاف سزائیں جلد متوقع ہیں۔

واضح رہے کہ 2018میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے منی لانڈرنگ تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان کی ایک پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں مختلف اکائونٹس میں 190ملین پائونڈز کی رقم کا سراغ لگایا تھا جو مبینہ طور پر پاکستان سے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی گئی تھی اور NCA کے مطابق یہ رقم اُسی ملک کو واپس کی جاتی ہے جہاں سے لوٹی گئی ہو۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس رقم کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکائونٹ میں منگوایا جاتا مگر یہ رقم سپریم کورٹ کے اُس اکائونٹ میں جمع کرادی گئی جہاں سپریم کورٹ نے پراپرٹی ٹائیکون کو زمینوں کی خریداری میں ہیرا پھیری پر 460ارب روپے سے زائد کا جرمانہ جمع کرانے کا حکم دے رکھا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس فراڈ کو Cover دینے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے 3دسمبر 2019 کو کابینہ اجلاس میں ایک بند لفافہ لہراتے ہوئے یہ کہہ کر منظوری حاصل کی کہ ’’اس لفافے کو کھولنا اور اس پر بحث کرنا ملکی مفاد میں نہیں۔‘‘ اس طرح 190ملین پائونڈز کی یہ رقم قومی خزانے میں جانے کے بجائے اُسی پراپرٹی ٹائیکون کے اکائونٹ میں منتقل ہوگئی جس نے یہ رقم ملک سے لوٹی تھی۔ بعد ازاں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اس احسان کے بدلے 60ایکڑ سے زائد زمین ،جس کی مالیت اس وقت 7 ارب روپے بنتی تھی، کو پہلے عمران خان کے دست راز زلفی بخاری کے نام ٹرانسفر کیا اور بعد ازاں القادر ٹرسٹ، جس کے ٹرسٹی میں عمران خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں، کے قیام کے بعد اس قیمتی زمین کو ٹرسٹ کے نام ٹرانسفر کرا لیا گیا۔ کرپشن کی اس بہتی گنگا سے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے بھی ہاتھ دھوئے اور پراپرٹی ٹائیکون سے 2ارب روپے بٹورے جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید بھی اس سے مستفید ہوئے۔

یوں تو بانی پی ٹی آئی کے خلاف درجنوں کیسز بنے اور کئی کیسز میں انہیں سزائیں بھی ہوئیں مگر 190ملین پائونڈز کیس ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔ پی ٹی آئی قیادت یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ 20 جنوری کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ، عمران خان کی رہائی کیلئے حکومت پاکستان پر دبائو ڈالے گی مگر احتساب عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی یہ امید دم توڑ گئی اور فیصلے نے حکومت کو یہ جواز فراہم کردیا کہ عمران خان عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ احتساب عدالت کا یہ فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کے مراحل سے گزرے گا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ بانی پی ٹی آئی کو ریلیف دیتی رہی ہے مگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں حال ہی میں جوڈیشل کمیشن سے نئے ججوں کی تعیناتی کے بعد شاید اب اتنا آسان نہ ہو۔

عمران خان بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا بیانیہ لے کر اقتدار میں آئے تھے اور جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان سے لوٹے گئے 190ملین پائونڈز کا سراغ لگایا تو یہ عمران خان کیلئے اپنے وعدے کی تکمیل کا سنہری موقع تھا مگر افسوس کہ یہ وعدہ ان کی اور انکی اہلیہ کے لالچ کی نذر ہوگیا۔ عمران خان خود کو ہمیشہ کرپشن سے پاک قرار دیتے آئے اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ پاکستان میں ان کے سوا تمام سیاستدان کرپٹ ہیں مگر دوسرے سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دینے والا آج خود ہی عدالتی فیصلے کے بعد کرپٹ قرار پایا جس نے ان کے کرپشن سے پاک ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل اور عجب کرپشن کی غضب کہانی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے یہ بیانیہ گڑھ رہی ہے کہ ’’عمران خان کو سزا کرپشن پر نہیں بلکہ عاشق رسولﷺ ہونے اور سیرت النبی ؐ یونیورسٹی بنانے پر دی گئی۔‘‘ جو یقیناً افسوسناک امر ہے۔

تازہ ترین