• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا جرم پیچیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔ سنہرے مستقبل کی خاطر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بالخصوص یورپ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور عمر بھر کی جمع پونجی کے ساتھ قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے سخت تعزیری اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ایڈوائزری جاری کی گئی ہے جس میں 9 شہروں منڈی بہائوالدین، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ،ٗ جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور بھمبر کے رہائشی اور دو غیر ملکی ایئر لائنوں فلائی دبئی اور اتھوپین ایئر لائن کے ذریعے 15 ممالک جانے والے مسافروں پر کڑی نگرانی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ایڈوائزری 20 سال بعد جاری ہوئی ہے۔ مسافروں کی امیگریشن کے دوران پہلی بار 15 سے 40 سال کی عمر کے مسافروں کی نگرانی سخت کرنے اور پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ سے آذربائیجان ٗ ایتھوپیا ٗ سینی گال ٗ کینیا ٗ روس ٗ سعودیہ ٗ مصر ٗ لیبیا ٗ ایران ٗ موریطانیہ ٗ عراق ٗ ترکیہ ٗ قطر اور کرغستان جانے والے مسافروں کی پروفائلنگ کی ہدایات دی گئیں۔ ایڈوائزری میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 15 ممالک کو پاکستانیوں نے یورپ انسانی اسمگلنگ کیلئے ٹرانزٹ کے طور پر استعمال کیا۔ متعلقہ حکام کو ایئر ٹکٹس ٗ ہوٹل بکنگ سمیت وزٹ یا سیاحتی ویزوں پر تمام دستاویز کی مکمل چھان بین ٗ مشکوک مسافروں کے سفری مقاصد اور مالی انتظامات کیلئے انٹرویو کرنے اور ان کا مکمل ریکارڈ رکھنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ انسداد انسانی اسمگلنگ کےلئے ان اقدامات کے ساتھ قانون سازی بہتر کرنے ٗ متعلقہ اداروں کے آپس کے رابطے مزید بڑھانے اور انسانی اسمگلروں کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مکروہ دھندے کے پس پردہ بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہئے۔

تازہ ترین