• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نتیجہ خیز انقلابی حل: نالج بیسڈ، سول ملٹری ریلیشنز

نیب کی ٹرائل کورٹ سے عمران خان کو 14 اور ان کی بیگم بشریٰ صاحبہ کو 7سال قید کی سزا نے پاکستان میں ٹھہرائو آتے آتے ایک بار ہلچل مچا دی ہے۔ سیاسی و آئینی بحران کو ختم کرنے کیلئے پارلیمانی سطح کے مذاکرات پھر تنائو میں آگئے ہیں۔ حکومت خصوصاً ن لیگی ابلاغی مورچے میں فیصلہ آتے ہی منفی سرگرمی آگئی ہے۔ وزارت اطلاعات کے قابو آیا نجی مین سٹریم میڈیا نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے تئیں یہ رائے عامہ ہموار کرنے کی ابلاغی دھماچوکڑی مچانا شروع کردی کہ فیصلہ مکمل میرٹ پر آیا ہے اور اعلیٰ عدالتوں میں بھی اس کی توثیق و تصدیق بھی یقیناً ہو گئی۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر پرو عمران ابلاغی سونامی برپا ہو گیا، اڈیالہ جیل میں لگی (ایٹ لارج) بےاعتباری ٹرائل کورٹ کےانداز و سماعت و فیصلہ اور جج صاحب کی عمومی شہرت اور انتہائی متنازع اور قابل فہم ٹریک ریکارڈ کی تفصیلات کی تمام جرئیات کو بے نقاب کرتے سوشل میڈیا نے ہائی فری کوئنسی پر فالو اپ اور ریپی ٹیشن سے فیصلے کی دھجیاں اڑا دیں۔ وزیر قانون کا یہ بیان سنجیدہ حلقوں میں غیر ذمے دارانہ سمجھا گیا کہ ’’اگر عمران خان معافی مانگ لیں تو معافی دلوا سکتا ہوں‘‘۔ قانون شناسوں کا کہنا ہے کہ یہ بیان کہ سپریم کورٹ کی نظرثانی درخواست بھی مسترد ہونے پر آخری مایوس کن مرحلہ بھی گزرنے کے بعد کا بیان تو ضرور ہوسکتا ہے متنازع اور سوال بنی متنازع اور مشکوک ترین نیب ٹرائل کورٹ پر سوشل میڈیا سے طنز و تنقید کی ہوتی بارش میں وزیر قانون کا یہ بیان حکومت کی شر و شرارت، غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ رویے کا عکاس ہے، جو متوازی ہوتے مذاکرات میں اپنی سنجیدگی کی یقین دہانی سے متصادم ہے۔ قطع نظر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ کی (خود قابل احتساب) کورٹ کے میرٹ مخالف اور ڈیزاسٹرفیصلے اور فیصلہ میرٹ پر کی مین اور سوشل میڈیا پر ہوتی کج بحثی کے القادر ایجوکیشنل ٹرسٹ کے مقدمے کی سماعت اور فیصلے میں ٹرائل کورٹ کے جج صاحب سےسوال طلب ہے۔ مجموعی طرز عمل سے بھی زیادہ کورٹ رپورٹنگ کا وہ بیک گرائونڈ جو اس نوعیت کی خبرکے ڈھانچے کا لازمہ ہے۔ یہ پیشہ ورانہ تقاضے کو پورا کرتا سوشل میڈیا کے ہی سرگرم اور پرو عمران یوٹیوب چینل کی رپورٹنگ کا حصہ بنا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سزا دینے والے جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سپریم کورٹ میں ریکارڈڈ انتہائی غیر ذمے دارانہ پیشروی اور عمومی شہرت کا کچا چٹھہ وائس آف امریکہ سے بھی منجھے ملکی صحافی عزیزم حامد میر کے کمنٹس کے طور اور کتنے ہی اور بین اقوامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ میں ہر دو کو طویل سزا کی خبر کے بیک گرائونڈ کے طور پر نیوز رپورٹنگ کا حصہ بنا جس سے پاکستانی نظام عدل و انصاف کا معیار، جو پہلے ہی عالمی درجہ بندی میں کم ترین ہو چکا، کی تصدیق ہوئی اور ہماری عدالتی عمل کے معیار کو ایک اور بڑا دھچکا لگا۔ واضح رہے کہ جج صاحب 2000کے ابتدائی سال کے کیس میں ایک ملزم ایڈووکیٹ کی عدم موجودگی میں انہیں جسمانی ریمانڈ دینے کے مرتکب ہوئے اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے کر ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور عمران کو سزا دینے والے یہ جج ڈس مس کردیئے گئے تھے ۔یہ یقیناً اتنے اہم کیس کے حوالے سے جس کا گہرا تعلق پاکستان میں بحران کے کم و ختم ہونے یا مزید بڑھنے کے امکانات سے جڑا ہوا ہے ایسے جج کو اپنے ٹریک ریکارڈ کے باوجودٹرائل کورٹ کا جج مقرر کرنا بہت بڑا سوال ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟آخر یہ تقرری کیسے عمل میں آئی؟ واضح رہے عدلیہ میں جج صاحبان کی مطلوب تقرری بارے ’’آئین نو‘‘ نے اپنی حالیہ اشاعت میں آرٹیفشل انٹیلی جنس سے ٹی او آرز کا نالج بیسڈ جواب حاصل کر کے عیاں کیا کہ عدالت پر مطلوب معیار کی تقرری میں جج کی عمومی شہرت اور ٹریک ریکارڈ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جبکہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں تقرریوں کا جوپینل تیار ہوا اس میں مخصوص سیاسی وابستگی کے مجوزہ ججز کی اکثریت ہے۔ دوران سماعت تحریک انصاف کے وکلا نے اس پس منظر کے حوالے سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رجیم چینج کے بعد تحریک انصاف جس طرح مسلسل جاری قانونی عتاب میں آئی، ہر ٹرائل کورٹ اور اس کے جج اتنے ہی متنازع ہوتے ہیں۔ خود سپریم کورٹ کے چیف اور سینئر جج صاحبان نے ان کے واضح منفی پیشہ ورانہ طرز عمل کی نشاندہی کی اور ان پر تنقید کی۔

اس پس منظر میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سخت ترین سزا دینے والے متنازع جج کے فیصلے نے پارلیمانی مذاکرات، کچھ حکومتی وزرا کی نرم بیانی اور سب سے بڑھ کر چیف صاحب اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کی ملاقات سے جو کفر ٹوٹا ہے اگرچہ یہ فیصلہ ملکی اعلیٰ عدالتی نظام کا معمولی رہ گیا بھرم قائم رکھنے کیلئے فوری منسوخ ہوگا۔ دوسری صورت میں دسیوں سنگین مقدمات کو غیر سیاسی سماعتی عمل سے گزارنے کا مطالبہ سر نہیں اٹھائے گا۔

قارئین کرام! واضح رہے داخلی مسئلے کو داخلی حل سے ہی ختم کرکے صراط مستقیم پر آنا ہی ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں ہے۔ سہ سالہ ابتری میں اسے سمجھنا اب کوئی مشکل نہیں، کھلی کتاب ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اضافی ججوں کی تقرری کے تلخ حقائق پر مبنی خبر تحریک انصاف کو پھر وسوسوں میں مبتلا کرے گی۔ اب بھی قوت اخوت عوام کے بڑے اکثریتی حصے پر بار بار یہ کیفیت طاری ہونا مہلک نتائج کا باعث بنے گا۔ اس سے پاکستانی ڈائس پورا اورسوشل میڈیا کے سنجیدہ اور پیشہ ورانہ طرز عمل کے حامل سیکشن کا رخ اب کلی طور پر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی طرف ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ بھی اولین مقاصد کے علاوہ کوئی زیادہ بہتر نتائج نہیں دیگا۔(جاری ہے)

تازہ ترین