(گزشتہ سے پیوستہ)
آپ سب سے بہت معافی کہ تمہید بہت لمبی ہوگئی مگر یہ بہت ضروری تھی کیونکہ اس تمہید کے ابتدائی ’’خدو خال‘‘ سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ جس شخص کا میں ذکر کررہا ہوں وہ ایک درویش منش آدمی تھا یہ شخص جب کمشنر تھا تو بھی تکبر سے کوسوں دور تھا۔ سیکرٹری تعلیمات تھا تو بھی اس کی گردن میں کوئی سریا نہیں تھا پھر یہ وزیر تعلیم بنا اور ان دنوں بھی یہ بہت پڑھا لکھاشخص پہلے ہی کی طرح DOWN TO EARTH تھا تاہم آج کے معاشرتی رویوں کے حوالے سے یہ بہت بدقسمت شخص ہے کیونکہ یہ اتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود لقمۂ حرام سے ہمیشہ محروم رہا۔ جب یہ آئیڈلسٹ شخص لاہور کارپوریشن کا ایڈمنسٹرتھا اسے راوی کے پل کا ٹھیکہ دینے کے عوض لاکھوں روپوں کی رشوت کی پیشکش ہوئی جو آج کروڑوں میں تھی اس نے انکار تو کر دیا مگر میرے سامنے ایک ایسا جملہ کہا جو آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مجھے یاد ہے۔ اس نے کہا ’’عطاء تنخواہ پر گزارا کرنے والے ایک شخص کیلئے اتنی بڑی رقم لینے سے انکار صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کام سے اتنی نفرت ہو جتنی چھپکلی منہ میں آنے سے ہو سکتی ہے‘‘۔تاہم یہ ٹھیکہ بالآخر رشوت آفر کرنے والے شخص ہی کو ملا کیونکہ اختر سعید کے اوپر بیٹھے ایک ایسے شخص نے یہ چھپکلی نگل لی تھی جس کے بھائی بند سویلین حکومتوں کو کرپٹ قرار دے کر ان کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔اختر سعید ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے اپنی تمام تر سنجیدہ سوچوں کے باوجود بذلہ سنجی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا۔ ان کے قہقہے بھی بہت مشہور ہیں بلکہ ان کے جناتی قہقہوں کے مقابلے میں خالد احمد کے قہقہوں کی حیثیت ایک زیر لب مسکراہٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ بھی انہی دنوں کی بات ہے جس کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں۔ لاہور کے نیشنل سنٹر میں میری پہلی کتاب ’’روزن دیوارسے‘‘ کی تقریب رونمائی تھی میری ان تحریروں کا انتخاب میرے سینئر مزاح نگاروں شفیق الرحمٰن اور محمد خالد اختر نے کیا تھا اس کا دیباچہ بھی محمد خالد اختر کا تھا اور اسے اس دور کے ایک وقیع ایوارڈ ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا تھا، ضیاء جالندھری صدارت کر رہے تھے۔
جو بطور خاص اسلام آباد سے تشریف لائے تھے اور تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ ہمارے عہد کے نامور اہل قلم مقررین کی فہرست میں شامل تھے اس دوران صاحب صدر ضیاء جالندھری کو ایک چٹ موصول ہوئی جس پر درج تھا عطاالحق قاسمی کے بارے میں ،میں بھی چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔مخلص سعید اختر ضیاء صاحب نے یہ چٹ میری طرف کر دی میں شش وپنج میں پڑ گیا میں نے سوچا موصوف پٹواریوں، تحصیلداروں، اسٹنٹ کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور اس طرح کے دوسرے مودب اور مجبور سامعین کے سامنے تقریر کرنے کے عادی ہیں اور یہ نازک طبع ادیبوں کا مجمع ہے ایسا نہ ہو کہ یہ پٹری سے اتر جائیں اور سامعین کو انہیں سٹیج سے اتارنا پڑے مگر پھر میں نے حسن ظن سے کام لیا اور سوچا کہ ایک معقول شخص مجمع کے صبر کا امتحان کیسے لے سکتا ہے چنانچہ میں نے ضیاصاحب سے کہا کہ وہ اسٹیج سیکرٹری سے کہیں انہیں اظہار خیال کیلئے مائیک پر آنے کی دعوت دے۔اختر سعید صاحب انائونسمنٹ ہونے پر اختر سعید ہال میں بچھی ہوئی کرسیوں میں سب سے آخری کرسی سے نکل کر اسٹیج پر آئے اور کہا خواتین وحضرات مجھے زندگی میں پانچ ادیبوں سے ملنے کا شوق تھا ایک سعادت حسن منٹو مگر وہ بہت جلد دنیا سے رخصت ہو گئے دوسرے پطرس بخاری ان سے بھی ملاقات نہ ہو سکی ،تیسرے شفیق الرحمن ان سے ملاقات ہوئی ،چوتھے عطاالحق قاسمی اور اس وقت وہ میرے سامنے ہیں پانچویں شخصیت کرنل محمد خاں کی تھی جن کی کتاب ’’ بجنگ آمد‘‘ پڑھ کر میں ان سے ملنا چاہتا تھا مگر پھر انکی کتاب ’’بسلامت روی‘‘شائع ہو گئی انکے اس لطیف جملے پر ادیبوں کی محفل کشت زعفران بن گئی لیکن کرنل محمد خاں اختر سعید سے ناراض ہو گئے تاہم اس انتہائی خوبصورت شخص کی ناراضگی بالکل وقتی ہوتی ہے۔ایک دفعہ ایک خاتون مجھےملیں اور کہا میں آپ کی اور کرنل محمد خاں کی بہت مداح ہوں آپ کبھی میرے گھر آئیں میرے گھر ادیبوں میں سے صرف کرنل محمد خاں آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دل کے علاوہ ان کے تمام اعضاء آئوٹ آف آرڈر ہو چکے ہیں اس پر میں نے اس خاتون کو مخاطب کیا اور کہا بی بی محتاط رہیں کہیں کرنل صاحب جھاکا نہ دے رہے ہوں میرا یہ جملہ کرنل صاحب تک پہنچ گیا پہلے وہ تھوڑے سے ناراض ہوئے اور اسکے بعد کئی محفلوں میں میرا یہ جملہ اپنے دوستوں کے سامنے ہنستے ہوئے دہراتے رہے۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جس مقصد کیلئے میں نے قلم اٹھایا تھا اس کا ذکر اس تحریر کے آخر میں ہو رہا ہے۔مجھے تو ان کی ادب سے وارفتگی کا احوال بیان کرنا تھا جس کی ایک مثال میں نے ابھی پیش کی ہے اور انکا شعری مجموعہ ’’دیوان اختر ‘‘ سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے ۔ادب سے ان کی وارفتگی کا کافی کریڈٹ ان کے ایک اہل زبان دوست لخت حسنین شیفتہ کو جاتا ہے جو انڈیا سے ہجرت کرکے ساہیوال میں آباد ہوگئے تھے۔ اختر سعید نے اپنا یہ شعری مجموعہ انہی کے نام معنون کیا ہے بلکہ کسی زمانے میں اختر سعید مرزا غالب کے مبالغے کی حد تک قائل تھے غالباً یہ بھی لخت حسنین کی صحبت کا اثر تھا۔ بعدازاں انہوں نے اقبال کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور اب ان کا خیال ہے کہ غالب ایک OVER ESTIMATED ہے اور یہ کہ اقبال ایسے تخلیقی دیو کا موازنہ کسی شاعر سے نہیں کیا جاسکتا۔ انکے دوست، لخت حسنین شیفتہ کا ایک کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اختر سعید ایسے بظاہر کھردرے شخص کے دل میں اہل بیت پر ہونیوالے مظالم اور انکی عظمت کا نقش کچھ اس طرح بٹھایا کہ انکی غزل کا تقریباً ہر آخری شعر مدح اہل بیت کے حوالےسے ہوتا ہے چنانچہ یہ شخص اگر صرف اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہوتا تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر اسکی دیانت اس کی درویشی ادب سے اس کی وابستگی اور اہل بیت نے اس ’’معمولی شخص کو غیر معمولی بنادیا‘‘ (جاری ہے)