• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی صنعتی، زرعی اور تجارتی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام سے ہے۔ اگر ملک میں قائم جمہوری نظام سبک خرابی کے ساتھ تسلسل سے چل رہا ہو،امن و امان کی صورتحال مثالی ہو اور صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے تمام وسائل دستیاب ہوں،جن میں تیل‘ بجلی‘ گیس کی سستے داموں وافر دستیابی بھی شامل ہے تو اس سے تاجروں اور صنعت کاروں کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، کسانوں کیلئے اپنی پیداوار بڑھانے کے راستے ہی نہیں کھلتے بلکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی سرمایہ کاری کے آسان اور محفوظ مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی اور انتقام اور بدلے کی سیاست نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے راستے پر ڈال رکھا ہے۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کا ناسور بھی ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جسکے باعث عدم تحفظ اور غیریقینی کی فضا کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری کی مثالی فضا استوار نہ ہو سکی۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط نے پہلے ہی ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا تھا۔آنے والی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی ناراضی دور کرنے کیلئے اسکی مزید کڑی شرائط قبول کرکے بجلی‘ تیل‘ گیس‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے تسلسل کے ساتھ نرخ بڑھانا شروع کر دیئے اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اور انواع و اقسام کے نئے ٹیکس لگا کر عوام کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا چنانچہ عوام کے بڑھتے اضطراب کے نتیجے میں حکومت کو گورننس اور سسٹم کے استحکام کیلئے بھی چیلنج درپیش ہو گئے۔ اس حکومت کو اپوزیشن کی انتشار اور افراتفری کی سیاست کے باعث سیاسی عدم استحکام کا الگ سامنا کرنا پڑا۔

اسی فضا میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے باہم مل کر ملک کی اقتصادی سمت درست کرنے کا عزم باندھا اور قومی اور صوبائی ایپکس کمیٹیاں تشکیل دیکر انکے ذریعے قومی معیشت کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ اس تناظر میںآرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے زراعت کی ترقی کی جانب بھی خصوصی توجہ دی چنانچہ ان اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بھی بتدریج کمی آنے لگی اور ملکی معیشت پر دیوالیہ ہونے کی لٹکتی تلوار بھی ہٹنے کے آثار پیدا ہو گئے۔ حکومتی اور عسکری قیادتوں کے اسی باہمی اعتماد اور قومی معیشت کے استحکام کیلئےوضع کی گئی پالیسیوںکے آج ثمرات ملنا شروع ہوئے ہیں اور وزیراعظم شہبازشریف تسلسل کے ساتھ قومی معیشت کے مثبت اشاریوں کی نوید سنا رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے ان اعلانات اور دعوئوں کی بنیاد پر عوام کو بھی مہنگائی میں حقیقی ریلیف کی شکل میں حکومتی پالیسیوں کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں تو یقیناً ملک کو انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی کوئی اندرونی اور بیرونی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بے شک عوام کا اطمینان ہی سسٹم کے استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ایک اعشاریہ 21 ارب ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال کی ششماہی کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک اعشاریہ 39ارب ڈالر تھا۔ ا سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2024ء کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس 580 اعشاریہ 20 کروڑ ڈالر رہا جبکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا تجارتی خسارہ 13 فیصد اضافے سے 11اعشاریہ 51ارب ڈالر رہا۔ دسمبر 2024ء میں برآمدات3اعشاریہ صفر، 5 ارب ڈالر اور درآمدات4 اعشاریہ 77ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ اسی طرح مالی سال کی پہلی ششماہی میں برآمدات7 فیصد اضافے سے 16 اعشاریہ 22ارب ڈالر رہیں اور مالی سال 2025ء کی پہلی ششماہی کی درآمدات 9فیصد اضافے سے 27اعشاریہ 74ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کرنٹ اکائونٹ مسلسل تیسرے ماہ سرپلس رہنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مثبت معاشی اشاریے کاروباری برادری کے حکومت اور اسکی معاشی پالیسیوں میں بڑھتے ہوئے اعتماد کے عکاس ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کے خلاف 190ملین پائونڈ کے مقدمے کے فیصلے کے بعد بزنس ٹائیکون نے پنڈوراباکس کھول دیا ہے قوم جاننا چاہتی ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ بزنس ٹائیکون نے کہا ہے کہ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھاآج بھی یہی فیصلہ ہے ۔جتنا مرضی ظلم کر لو میں گواہی نہیں دوں گا۔ایک بیان میں انہوںنے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود 40سال خون پسینہ ایک کرکے اللہ کے فضل سے بحریہ ٹاؤن بنایا اور عالمی سطح کی پہلی ہائوسنگ کا پاکستان میں آغاز ہوا، مجھے اللہ نے استقامت دی اور اپنے ممبرز سے کیے وعدے وفا کیے۔مزید کہا کہ انگنت رکاوٹوں سرکاری بلیک میلنگ نے بعض اوقات وعدوں کی تکمیل میں تعطل پیدا کیا، لیکن میرے رب نے ہمیشہ مجھے سرخرو کیا۔ایک گواہی کی ضد کیوجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔مدتوں سے لوگوں کی خواہش تھی کہ پاکستان برانڈ کو ورلڈ کلاس برانڈ بنایا جائے اللہ تعالیٰ نے مجھے اسکا سبب بھی بنایا اور دبئی میں بحریہ ٹائون پراپرٹیز کا آغاز ہو گیا ہے،ماشاللہ اب تک درجنوں ملکوں سے سرمایہ کار دبئی میں آنے والے ان پراپرٹیز کے منصوبوں میں مثالی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں 25کروڑ پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے کہ ان کی کمپنی کودنیا کے سب سے شفاف، ایماندار نظام نے عالمی سطح کے مقابلے کیلئے ایک عالیشان منصوبے کیلئے چنا ہے۔ اس عزم کے ساتھ کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کیلئے تھا اور ہمیشہ رہے گا اپنے پاکستانی بھائی بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کہ ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی ہے اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔

تازہ ترین