مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بلاشبہ، دنیا کے ہر والدین، اولاد کے لیے رحمت اور سائبان کی حیثیت رکھتے ہیں، خود تکالیف اُٹھا کر اپنی اولاد کو تمام عُمر راحت و سکون اور سُکھ دینے کی تگ ودو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ مَیں اور میرے بہن، بھائی بھی اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین والدین سے نوازا۔
اگرچہ ہمارے والدِ مرحوم، سیّد امتیاز حسین باقری حنفی ایڈووکیٹ کو اس دارِ فانی سے کُوچ کیے تقریباً43 سال ہو چکے ہیں، لیکن آج بھی وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ میرے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور لوگ آج بھی اُن کی قابلیت، حُسن سلوک، رواداری، ملن ساری کے معترف ہیں۔ اسی طرح ہماری والدہ مرحومہ، سیّدہ باقری، بنتِ سیّد واحد حسین بھی بے پناہ خصوصیات کی حامل تھیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد میرے والد سابق مشرقی پاکستان کے شہر، ڈھاکا میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے، بعدازاں اُن کا تبادلہ کوئٹہ ہوگیا، تو فیملی کو بھی اپنے پاس بلوالیا۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج، کوئٹہ سے منسلک رہے، پھر استعفیٰ دے کر1954 ء میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ ہماری والدہ نے دو بار ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ صوم و صلوٰۃ کی سخت پابند تھیں۔
آس پڑوس کے بچّے اُن سے قرآنِ مجید پڑھنے آیا کرتے تھے، ہم سب بھائی، بہنوں کو بھی والدہ مرحومہ ہی نے قرآن شریف پڑھنا سکھایا۔ وہ ہمیں عقل و دانش کی باتیں بتاتیں، تو دینی حکایات اور قرآنِ حکیم کے قصّے بھی سُنایا کرتیں۔ دینی محافل میں بطورِ خاص شرکت کرتیں اور گھر میں بھی منعقد کرواتیں۔
ہماری والدہ نے مجھ سمیت آٹھ بہن، بھائیوں کی بڑی محنت و شفقت سے پرورش کی، کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہونےدی۔ ہم میں سے اگر کوئی بیمار ہوجاتا، تو رات رات بھر جاگ کر اس کے علاج معالجے، دیکھ بھال میں مصروف رہتیں۔
ہماری والدہ، سلیقہ شعاری، کفایت شعاری، ملن ساری، خوش گفتاری اور صبر و برداشت کا مجموعہ تھیں اور اپنی ان ہی خصوصیات کی وجہ سے خاندان بھر میں پسند کی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ خاندان یا خاندان سے باہر کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے اُن سے رجوع کرتے۔ ہم نے اُنھیں کبھی کسی کی برائی کرتے نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی ہی کرتیں اور ہمیں بھی اکثر اس بات کی تلقین کرتیں۔
مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتیں۔ بچپن میں والد مرحوم ہمیں گھمانے پھرانے ہنّہ اوڑک جھیل، زیارت لے جایا کرتے، تو میری والدہ صبح سویرے ہی ناشتا، کھانا وغیرہ تیار کر کے ساتھ لے چلتیں اور ہم شام تک خوب مزے کیا کرتے۔ 1970ء کی دہائی کے آخر تک کوئٹہ ایک پُرفضا مقام سمجھا جاتا تھا۔
ہمارے رشتے دار، گرمیاں گزارنے کراچی، لاہور سے ہمارے یہاں آیا کرتے، تو والدہ ان کی خُوب خاطر مدارات کرتیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں بے پناہ ذائقہ دیا تھا، مختلف اقسام کے لذیذ کھانے تیار کرتیں، پکنک کے پروگرام بناتیں اور انتہائی خلوص و اپنائیت سے رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارتیں۔
سردیوں کی وہ راتیں مجھے آج بھی بہت یاد آتی ہیں، جب رات کے وقت ہم تمام بہن، بھائی لحافوں میں دبکے ہوتے اور والدہ مرحومہ مختلف سبق آموز کہانیاں اور قرآنِ حکیم کے قصّے بیان کررہی ہوتیں، ساتھ ساتھ ڈرائی فروٹ کا دَور بھی چلتا رہتا۔
بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے والدہ میری تمام ضروریات کا خاص خیال رکھتیں، میری پسند کی چیزیں پکاتیں، میرے خُوب لاڈ اٹھاتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی بے پناہ خصوصیات میں سے کچھ مجھ میں بھی آئی ہیں اور یہ اُن کی تربیت، محبّت اور دعاؤں ہی کا ثمر ہے کہ ہم تمام بہن، بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں کام یابیاں حاصل کیں۔
میری پیاری والدہ انتقال سے چند ماہ قبل سخت علیل رہیں اور پھر 2 اکتوبر 1989ء کو اس دارِفانی سے کُوچ کرگئیں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (سیّد اعزاز حسین باقری ایڈووکیٹ، کوئٹہ)